جنوری ۲۰۲۴

24 جولائی (شام)

اقبال اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے۔
سرخ آنکھوں کے ساتھ وہ اپنے کام نمٹاتے رہے۔ رات انھوں نے کیسے کاٹی تھی یہ وہ خود ہی جانتے تھے۔
وقت کے بہتے دھارے میں حالات زندگی سے لڑتے لڑتے آج اس مقام تک پہنچے تھے۔ اچھی فیملی، عزت دار زندگی، بہترین جاب، بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کروائی ۔ کبھی ان کی خواہشات پوری کرنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں برتی۔ اپنا سکھ ، چین حرام کرکے اپنی اولاد پر محنت کی۔ انھیں اچھا انسان بنانے میں انھوں نے اپنی پوری توانائی لگا دی۔
وہ ہر دن اور ہر رات اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتے تھے کہ اے میرے مالک! مجھے اپنے سوا کبھی کسی کا محتاج نہ بنا۔
پھر ان کا پروردگار ان کی کیوں نہ سنتا؟ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی تھی،کسی کو تکلیف نہیں دی تھی،اور وہ جس نے کبھی کسی جان پر ظلم نہ کیا ہو، اپنے اللہ کو ہر حال میں یاد رکھا ہو، اپنوں کے ساتھ اور غیروں کے ساتھ نیک سلوک کیا ہو، ہمیشہ اپنی زبان کو شیریں رکھا ہو، ہمیشہ اللہ سے دعا مانگی ہو، اللہ ایسے بندوں سے کیوں کر ناراض ہو سکتا ہے؟ کیوں اس کو مایوس کرے گا؟ ایسے بندے تو اللہ کی نظر میں بہت خاص ہوتے ہیں جو اللہ کو خوش کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ اللہ تو ان کی دعاؤں کو کبھی رد نہیں کر تا۔ جن سے اللہمحبت کرتا ہے ، انھیں کبھی مایوس نہیں کرتا۔
وہ کافی دیر سے موسم کے بدلتے تیور دیکھ رہے تھے۔بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک کے ساتھ بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔اقبال نے ٹیبل سے کاغذا ت اور فائلز سمیٹ کر دراز میں ڈالے اور بیگ اٹھا کر آفس سے باہر نکل گئے۔رکشے کی تلاش میں انھوں نے اطراف میں نگاہیں دوڑائیں۔سڑک پر ٹریفک تھا۔ کوئی آٹو رکشا نظر نہیں آرہا تھا۔وہ تھوڑی دیر وہیں کھڑے رکشے کا انتظار کرنے لگے۔بارش میں کوئی رکشہ ملنا مشکل نظر آرہا تھا۔انھوں نے سڑک کنارے پیدل چلنا شروع کردیا۔
اولاد بڑی ہوجائے تو ماں باپ کا زور اس پر نہیں چلتا۔ آج صارم نے انھیں بہت مایوس کیا ۔وہ ان کا بڑا بیٹا تھا، اور ان کی اس سے کتنی امیدیں وابستہ تھیں؟عائشہ اور علی تو قابل تھے ہی،لیکن وہ صارم کو بھی اونچی پوسٹ پر، ہائیر کوالیفائیڈ ، اور ایک بہتر انسان دیکھنا چاہتے تھے۔لیکن جب انھیں اپنی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی تو انھوں نے صارم پر سختی کرنا شروع کی۔ آج بھی انھوں نےصارم سے پیارکے ساتھ سختی سے بھی بات کی تھی، لیکن صارم کے سدھرنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ یہی سوچ سوچ کر پریشان ہورہے تھے کہ کیا کیا جائے؟
وہ سوچوں کے گرداب میں پھنسے تھے،تبھی انھیں ایسا لگا کہ کوئی انھیں پکاررہا ہے۔ کہیں سے ’’بابا! بابا!‘‘ پکارنے کی آواز آرہی ہے۔
وہ لمحے میں پہچان گئے۔یہ علی کی آواز تھی،لیکن اس کی آواز میں اتنا خوف کیوں ہے؟
وہ مڑ کر دیکھنا چاہ رہے تھے کہ ایک سیاہ کار تیز رفتاری سے ان سے ٹکرائی۔ اگلے ہی لمحے وہ سڑک پر گر پڑے۔ علی سائیکل چھوڑ ، ٹریفک کی پروا کیے بغیر برق رفتاری سے ان کے قریب آیا۔،اور ان کےگال تھپتھپانے لگا۔
’’بابا!بابا!‘‘علی بد حواسی کے عالم میں زور زور سے ان کے گال تھپتھپا رہا تھا۔ ان کے ارد گرد لوگوں کاہجوم اکٹھا ہو گیا۔لوگوں نے انھیں اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور انھیں ہاسپیٹل لے گئے۔ علی سائیکل اٹھا کرتیزی سے ہاسپیٹل پہنچا۔علی کے ہاسپیٹل پہنچنے سے پہلے ہی ان لوگوں نے بابا کو وارڈ میں پہنچا دیا تھا۔ علی نے ریسپشن ڈیسک سے امی کو کال کی اور معاملہ کی اطلاع دیے بغیر فوری انھیں ہاسپیٹل بلایا۔ تھوڑی ہی دیر میں امی اور عائشہ باجی ہاسپیٹل پہنچ گئیں۔ جب انھیں بابا کی حالت کا پتہ چلا تو ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ علی کو انھیں سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔

٭ ٭ ٭

24 جولائی (رات)

صارم بارش سے بچتا ہوا دروازے تک آیا تو دیکھا کہ دروازے پر تالا لگا ہے۔ اس کا دماغ آؤٹ ہو گیا۔ اس نے امی کے موبائل پر کال کی۔ کال علی نے ریسیو کی۔
’’صارم بھائی ! بابا کا بہت خطر ناک ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ہم انھیں لے کر ہاسپیٹل آئے ہیں۔ آپ جلدی ہاسپیٹل آ جائیں!‘‘ علی نے ہاسپیٹل کا ایڈریس بتاتے ہوئے پریشانی کے عالم میں فون رکھ دیا۔
صارم کے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ اسے بس علی کی آواز تکرار کے ساتھ سنائی دینے لگی۔
’’بھائی! بابا کا بہت خطر ناک ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ ‘‘اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
’’پتر! ماں باپ تمھارے بھلے کے لیے کہتے ہیں۔ لیکن یہ باتیں ابھی تم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ جب تمھارے والدین اس دنیا میں نہیں رہیں گے، تب تمھیں ان کی کہی ہر بات سچ لگنے لگے گی، لیکن تب کوئی فائدہ نہیں ہوگا،کیونکہ تب وقت گزر چکا ہوگا…کیونکہ تب وقت گزر چکا ہوگا۔ ‘‘ان جانے بزرگ کی آواز اس کی سماعتوں پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔
اسے ایک ایک کرکے کئی مناظر یاد آنے لگے۔
وہ ان کے چھوٹے سے صحن کا منظر تھا۔
صارم اکیلا گیند سے کھیل رہاتھا۔ اتنے میں علی اور عائشہ باہر آئے۔
’’ہم بھی کھیلیں؟‘‘ علی نے دھیرے سے پوچھا۔ وہ جانتا تھا صارم بھائی انکار ہی کریں گے۔
صارم نے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی۔ ویسے بھی آج اس کے دوستوں نے نہیں آنا تھا، اور وہ بور ہورہا تھا۔ سو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’میں بیٹ لاتا ہوں۔‘‘ علی خوشی سے اچھل پڑا۔
’’میں وہاں بیٹھ کر دیکھتی ہوں۔‘‘ عائشہ جھولے پر جاکر بیٹھ گئی۔
’’میں بیٹنگ کروں گا۔‘‘ علی نے بیٹ سنبھالی۔
صارم نے پوری قوت سے گیند پھینکی۔
علی نے بیٹ گھمایا اور گیند دروازے کے اندر جاگری۔
’’بچو! آرام سے کھیلو۔‘‘ اندر سے امی کی آواز آئی ۔ عائشہ فوراً اٹھی اور گیند اٹھا لائی۔
’’بھائی! یہ لیں کیچ۔‘‘ عائشہ نے گیند صارم کی طرف اچھالی،جسے اس نے بر وقت کیچ کرلیا۔
وہ پھر سے گیند پھینکنے لگا تھا کہ بابا آفس بیگ لٹکائے اندر داخل ہوئے۔
’’واہ برخوردار! آج گھر پر کیسے؟‘‘
’’ایسے ہی۔‘‘ صارم نے کندھے اچکائے۔
’’اسی طرح گھر پر رہا کرو۔ اور کچھ نہیں تو ہمیں خوشی ہی ملتی ہے تمھیں دیکھ کر۔‘‘بابا نے قریب آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
جواباً اس نے کچھ نہیں کہا۔ بابا خوش ہورہے تھے اسے گھر پر دیکھ کر۔
’’میرے پیارے بیٹے ہو تم۔‘‘ بابا نے اس سے کہا تھا، لیکن اسے اس وقت اس بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
منظر دھندلاہونے لگا۔
موسم اور زیادہ خراب ہوتا جارہا تھا۔ بادل جیسے کسی بات پر غصہ تھے،اور آج ہی اپنا غیض و غضب نکالنا چاہتے تھے۔
اس نے خوف سے مڑ کر دیکھا۔ گیٹ کے پاس اس کی بائک کھڑی تھی۔ وہ جلد از جلد اس بائک کے ذریعے ہاسپیٹل پہنچ جانا چاہتا تھا۔
’’شاہدہ! صارم!عائشہ!علی !دیکھو میں کیا لایا ہوں؟‘‘اسے اپنی بائک دیکھ کر بے اختیار ایک اور منظر یاد آنے لگا۔
وہ سب دوڑتے ہوئے باہر آئے تھے۔
’’ واؤ ! بائک!! بابا… ‘‘عائشہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔ سب حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ صحن میں کھڑی بائک کو دیکھ رہے تھے۔
’’کیسا لگا میرا سرپرائز؟‘‘ بابا نے مسکرا کر پوچھا۔
’’لیکن آپ نے مجھے پہلے بتایا کیوں نہیں کہ آپ بائک لے رہے ہیں؟‘‘امی کے استفسار پر بابا نے جواب دیا۔
’’کہا تو ہے،میں سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ مجھے ضرورت محسوس ہورہی تھی بائک کی۔ میری سیلری بڑھ گئی ہے،کچھ سیونگز بھی تھیں۔ سو لے لی۔ اب ہمارا کہیں آنے جانے کے لیے رکشے کا خرچ بچ جائے گا۔ صارم بھی کہتا رہتا ہے ناں کہ اسے کالج جانے کے لیے بائک چاہیے۔ اب یہ بھی کالج جائے گا اس پر اور مجھے بھی آفس چھوڑے گا۔ کیوں؟‘‘
’’جی بابا !‘‘صارم نے مسرور ہوتے ہوئے بائک کی چابی لے لی تھی۔
منظر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
صارم کو آج بھی یاد تھا کہ کچھ عرصے بعد کس طرح اس نے کالج دیر سے پہنچنے کا بہانہ کرکے بابا کو آفس چھوڑنے سے منع کر دیا تھا۔
لیکن بابا… انھوں نے تو مسکرا کر کہا تھا کہ ٹھیک ہے بیٹا! تم کالج جاؤ،میں رکشے سے جایا کروں گا۔
اسے یہ بھی یاد تھا کہ ایک دفعہ اس نے بابا کو آفس پیدل جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
اس نے بائیک روکی اور پوچھا۔
’’بابا! آپ پیدل کیوں جارہے ہیں؟ آپ تو رکشے سے جاتے ہیں ناں؟‘‘بابا نے رک کر اس سے کہا۔
’’ہاں بیٹا! مین روڈ سے رکشہ کرلوں گا۔‘‘اسے لگا بابا جھوٹ کہہ رہے ہیں۔
’’آئیں !میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اس نے بابا کو آفر کی تو بابا نے جواباً کہا۔
’’نہیں بیٹا! تم کالج جاؤ۔ میں چلا جاؤں گا۔ میری وجہ سے تمھیں دیر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘صارم نے کرب سے آنکھیں میچیں۔ دیر ہی تو ہو گئی تھی۔وہ اتنا سنگ دل کیسے ہوگیا تھا؟اس نے بائک اسٹارٹ کی،اور اسپیڈ میں آگے بڑھا دی۔
وہ برق رفتاری سے ہاسپیٹل پہنچا۔
کوریڈور میں امی اور عائشہ بنچ پر بیٹھی تھیں۔ علی مسلسل ٹہل رہا تھا۔
صارم پر نظر پڑتے ہی امی اٹھیں اور اس کے کندھے سے لگ کر زار و قطار رونے لگیں۔
’’صارم بیٹے! تمھارے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ انھیں کچھ ہوا تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گی بیٹے! میں مر جاؤں گی۔‘‘ امی روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
’’امی! کچھ نہیں ہوگا بابا کو۔ آپ حوصلہ کریں۔‘‘ صارم نے انھیں بنچ پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ پھر وہ عائشہ کی طرف گھوما۔ جو خاموش آنسو بہا رہی تھی۔وہ اس کے سامنے بیٹھا۔
’’روؤ مت! اب میں آگیا ہوں ناں۔ کچھ نہیں ہوگا باباکو۔ آئی پرامس۔‘‘ اس نے عائشہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ یہ کہتے ہوئے اسے خود بھی یقین نہیں تھا کہ بابا کو واقعی کچھ نہیں ہوگا۔ وہ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتا تھا۔
اس کے آنے سے امی، عائشہ اور علی کو واقعی ڈھارس ملی تھی۔ وہ جیسا بھی ہو،بڑا بیٹا اور ان کا بڑا بھائی تھا، اور بڑوں سے گھر والوں کی بہت امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ ایک امید یہ بھی تھی کہ اس کے آنے سے واقعی بابا ٹھیک ہوجائیں گے۔
صارم اٹھا اور علی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ جوتھوڑے فاصلے پر کھڑا تھا۔
’’کیا کہا ہے ڈاکٹر نے؟‘‘
’’ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ایکسیڈنٹ بہت شدید ہے۔‘‘ علی کے کندھے ڈھلکے ہوئے اور آواز پست تھی۔
صارم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ علی کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے صارم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’تم دعا کرو۔ میں آتا ہوں۔‘‘ کہہ کر صارم وہاں سے چلا گیا۔
وہ ہاسپیٹل سے باہر آیا، اور گراس گراؤنڈ میں بنی سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔
چار سو اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بارش اب بھی ویسی ہی برس رہی تھی۔ لیکن گھنے درخت کے سائے کی وجہ سے اسے بارش کا احساس نہیں ہورہا تھا۔ وہ ابھی تک بھیگا ہوا تھا۔
بارش کے باعث لوگ باہر نظر نہیں آرہے تھے۔ ہرطرف خاموشی تھی،اس کے اندر بھی۔
اس میں یہ مثبت تبدیلی پہلے کیوں نہیں آئی؟ اور اگر اب بھی اتنا کچھ نہ ہوچکا ہوتا، تو کیا وہ اب بھی نہ بدلتا؟ اس کے سدھرنے کی،اس میں تبدیلی آنے کی اتنی بڑی قیمت؟ کہ بابا…
’’نہیں۔‘‘اسے اپنے ٹھنڈے پانی سے بھیگے گالوں پر گرم گرم پانی بہنے کا احساس ہوا۔ اس نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے،اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔
’’اللہ !میرے بابا کو ٹھیک کردے۔ میرے بابا کو ٹھیک کردے۔‘‘ اس کی زبان سے بس یہی الفاظ نکل رہے تھے۔
سر پر بابا جیسا سائبان نہ ہوتو کیسا لگتا ہے؟ اسے احساس ہورہا تھا۔ ایک عجیب سا احساس تھا،خوف تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔
وہ بس کتنی ہی دیر تک روتا رہا۔ دعائیں مانگتا رہا۔
اسے نہیں پتہ اسے روتے روتے دعائیں کرتے کتنا وقت گزر گیا۔
اس نے چونک کر گردن تب اٹھائی جب اسے علی کی آواز سنائی دی۔
’’بھائی!‘‘ وہ اس کا کندھا جھنجوڑ رہا تھا۔
’’بھائی!‘‘ اس نے خوف بھری نگاہوں سے علی کو دیکھا۔
’’بھائی! بابا کو ہوش آگیا ہے۔‘‘ علی کا چہرہ خوشی سے سرشار تھا۔صارم سکتے کی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا۔
’’بھائی چلیں!‘‘وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کررہا تھا۔
’’اللہ!‘‘ بے اختیار اس کی زبان سے نکلا۔
’’ہاں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے تو ٹھیک کیا ہے بابا کو۔‘‘علی خوشی سے کہہ رہا تھا۔
’’ہم سب دعا کررہے تھے، لیکن سب سے زیادہ آپ نے دعا کی ہے ناں! آپ کی دعا قبول کی ہے اللہ نے۔‘‘
’’کیا اللہ اتنا مہربان ہے؟ ایک اتنے گناہ گار بندے کی دعا قبول کی ہے اللہ نے؟ وہ بیٹا جو باپ سے اتنی نفرت کرتا ہے،باپ کے حق میں اس کی دعا قبول کی ہے اللہ نے؟ میں نے پوری زندگی میں ایسی کون سی نیکی کی جس کے بدلے اللہ نے میرے بابا کی زندگی لوٹا دی؟ ‘‘ اس نے زندگی کے اوراق کھنگال ڈالے۔
’’نہیں۔ کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر بھی میری دعا قبول ہوگئی ہے۔‘‘صارم بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اور علی سے لپٹ گیا۔
وہ زور زور سے رونے لگا۔ علی بھی چھوٹے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا۔ بارش اور آنسو مل کر برس رہے تھے۔
پھر وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہاسپیٹل کے اندر آئے۔
امی اور عائشہ خوشی سے اس کے سینے سے لگ گئیں۔
’’میں نے ڈاکٹر سے پرمیشن لے لی ہے۔ ہم بابا سے مل سکتے ہیں۔‘‘ علی نے ان سب سے کہا تو وہ سب بے اختیار کمرے کی طرف بھاگے۔
امی،عائشہ اور علی ان سے مل رہے تھے۔ ایسے جیسے کئی سالوں بعد مل رہے ہوں۔ عائشہ آنسو بہاتے ہوئے بابا کے بازو کے حصار میں تھی۔ بابا پٹیوں میں جکڑے بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہ بدقت بات کررہے تھے۔ وہ عائشہ کو تسلی دے رہے تھے کہ انھیں کچھ نہیں ہوا۔ وہ مسلسل روئے جارہی تھی۔دفعۃًبابا کی نظر اس پر پڑی۔ وہ ابھی تک دروازے پر ہی کھڑا تھا۔
بابا نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔
وہ قدم قدم چلتا ہوا بیڈ تک گیا، اور ان کے قدموں کے پاس بیڈ پر ٹک گیا۔اس کا سر جھکا تھا۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ بابا نے اس سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’کہاں گئے تھے؟‘‘اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
’’کہیں بھی نہیں۔ یہیں تھا۔‘‘
’’اس سے پہلے کہاں گئے تھے؟‘‘بابا اس سے ایسے سوال کیوں پوچھ رہے تھے؟اس نے جواب نہیں دیا۔
’’ پیسوں کا انتظام کرنے نہیں گئے؟‘‘اس کی گردن شرم سے جھک گئی۔
’’کب لوٹا رہے ہو پھر پیسے؟‘‘ بابا نے مسکراہٹ دبائے استفسار کیا۔
’’ بابا…‘‘اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔
’’ادھر آؤ۔ میرے پاس۔‘‘وہ بابا کے قریب بیٹھ گیا۔
’’آئی ایم سوری!‘‘ اس نے جھکے سر کے ساتھ کہا۔
’’باپ اولاد کے لیے ہی کماتا ہے۔ اسے اپنی اولاد سے پیسے نہیں چاہیے ہوتے۔ پیار چاہیے ہوتا ہے۔‘‘
’’میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں بابا!‘‘ بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا۔
’’اولاد باغی ہوجائے تو ماں باپ کی تو زندگی بھر کی محنت رائیگاں چلی جائے۔‘‘ بابا ٹھہر ٹھہر کر اس سے کہہ رہے تھے۔
’’ہماری اتنی تربیت اتنی محنت کا کیا فائدہ بیٹا؟ اگر تم ہمارے لیے فیض کا، خوشی کا باعث نہ بنو۔‘‘ امی نے اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ صارم کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگیں۔
’’میں نے آپ کو بہت ہرٹ کیا۔ اب نہیں کروں گا۔ آپ جو چاہتے ہیں میں وہ کروں گا۔ میں جاب کروں گا۔ آپ کا بزنس بھی سنبھالوں گا، لیکن مجھے معاف کردیں بابا!‘‘
’’میں نہیں چاہتا کہ تم ہمارے لیے کچھ کرو۔ تم اپنے لیے کچھ کرو۔ جب تک میں زندہ ہوں، تمھاری ہر ضرورت اور خواہش پوری کروں گا، لیکن اگر ابھی میں مر جاتا…تو؟‘‘
’’نہیں بابا! آپ ایسے مت کہیں۔‘‘ اس نے تڑپ کر انھیں ٹوکا۔
’’ امی،بابا، آئم سوری… آئم رئیلی سوری!‘‘وہ رورہا تھا۔
بابا نے لیٹے لیٹے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ ان کے سینے پر سر رکھے زار و قطار رو رہا تھا۔
’’آئم سوری!‘‘
’’اولاد جتنی بھی بری ہو،جتنی بھی بد تمیزی کرلے ،ماں باپ اسے معاف ہی کر دیتے ہیں۔ ‘‘ بابا ہولے ہولے اس کا سر تھپتھپا رہے تھے۔
وہ اب مطمئن اور پرسکون نظر آرہے تھے۔ان کے بیٹے نے اپنا رخ درست سمت کرلیا تھا۔ زندگی کے کامیاب سفر کے لیے ان کے دو بچوں نے قدم جمالیے تھے تو تیسرا بیٹا وہاں قدم رکھنے جارہا تھا۔ وہ اب پر یقین تھے کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔
صارم کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ اس کے والدین کی ان تھک اور بے حدمحنت اور ان جانے بزرگ کی کاوش کے نتیجے۔ اس کے والدین اور بہن بھائی کی دعاؤں کے باعث۔
عائشہ اور علی اپنے بڑے بھائی کے لیے بے حد خوش تھے۔ اب وہ پھر سے ان کا اچھا دوست بن جائے گا۔
امی نے محبت سے صارم کو دیکھا۔ اس کی تقدیر سنور چکی تھی۔ کیونکہ اس کو سلیقے سے تراشا گیا تھا۔

ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ہے
شرط یہ ہے کہ سلیقے سے تراشا جائے

(منظور ندیم)

’’اللہ تعالیٰ بھی مجھے معاف کردے گا ناں؟‘‘صارم روتے ہوئے بابا سے پوچھ رہا تھا۔
’’ ہاں بیٹا! تم صدق دل سے توبہ کرو،وہ بہت بہت غفور ورحیم ہے۔ اپنے گناہ گار بندوں کو بھی معاف کر دیتا ہے۔‘‘

 قُلْ يَٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُواْ مِن رَّحْمَةِ ٱللَهِ ۚ إِنَّ ٱللَهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ (الزمر : 53)

((اے نبی) کہہ دو کہ اے میرے بندو!جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ،یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے،وہ تو غفور و رحیم ہے۔)
بابا نے قرآن کی آیت سنائی تو صارم نے سختی سے آنکھیں بند کر لیں۔ ندامت و شرمندگی کا بوجھ اس پر آگرا۔
اس نے بے اختیار صدق دل سے دعا مانگی،اور اسے یہ احساس ہونے لگا کہ اب، اب واقعی اللہ اسے معاف کردے گا۔ اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
بابا نے ہاتھ بڑھا کر علی اور عائشہ کو بھی اپنے قریب کرلیا۔
امی دو قدم آگے بڑھیں اور ایک ایک کرکے اپنے تینوں بچوں کے گال چومے۔
وہ سب اب کسی بات پر ہنس رہے تھے۔
لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
اور آنکھوں میں نمی۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے