مئی ۲۰۲۳

اس کی اداؤں نے اس قدر پاگل کردیا تھا کہ اس وقت مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔گاڑی میں بیٹھنے کے لیے خالہ مجھے آوازیں دے رہی تھیں:’’جلدی کرو! دلہن بھابھی تھک رہی ہیں،کہاں کھوئے ہو؟ابھی تو تمہاری ہی باری ہے۔‘‘یہ سنا تو میرادھیان خالہ کی طرف ہوا،اور چہرے پرہلکی سی مسکان آگئی ۔
گھر آکر سب تھکے ہارے بیٹھے ،اور کچھ جلدی جلدی اپنی شادی کے جوڑے بدلنے چلے گئے،مگرمیں وہی سوچ رہا تھا ،اُس لڑکی کاچہرہ میری آنکھوں کے سامنے آنے لگا۔عجیب خیالات دماغ میں آنے لگے، اُس کی خوبصورتی نے میرے ہوش اُڑا دئیے تھے، دل بڑا بے چین ہونے لگا۔مجھے یاد آیا کہ جب دل بے سکون ہو تو وضو کرلیا جاتا ہے،تاکہ اللہ اچھے خیالات پر ثابت قدم رکھے۔میں نے جلدی سے اپنی شیروانی کے بٹن کھول کر اُسے اُتار دیا اور وضو بناکر بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔مجھے سکون کی سانس آئی ۔
میں نے جگ میں رکھا پانی گلاس میں ڈالا اور پانی پیتے ہوئے سوچنے لگا، یہ بات میں امی اور بابا کو بتا کر اپنی بات بھی کرتاہوں،لیکن مجھے اطمینان نہیں ہو پایا، پھر یاد آیا کہ امی مجھ سے اکثر کہا کرتی تھیں:’’بیٹا !ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوا کرتی۔‘‘مجھے جھٹکا لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ ادائیں،یہ نخرے،یہ خوبصورتی کہیں مجھے بدنامی کی طرف نہ لےجائیں،کیونکہ اچھی لڑکیاں حیا کے چادروں میں لپٹی ہوتی ہے۔وہ خوبصورتی کو لوگوں کے سامنے نمودار نہیں کرتیں۔
میں نے لمبی سانس لی۔میرے مقدر کا ستارہ بھی مجھ کو ملےگا۔بے جاتوانائی اور دماغ کو بے جا استعمال کرنے سے بہتر ہے میں اچھے کاموں میں اس کو صرف کروں۔گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے3بج رہے تھے، جلدی سے جائے نماز ڈال کر تہجد پڑھی اور سکون کی نیند سوگیا۔

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے