مئی ۲۰۲۳

نصابی کتابوں سے بھارت میں مغلوں کا سینکڑوں سالہ سنہرا باب یکلخت حذف کردیا گیا۔
حکومت ہند کے ایک حکم نامے پر عمل آوری کے لیے NCERT نے ملک کے اسکولوں کی نصابی کتابوں سے بھارت میں مغلوں کے سینکڑوں سالہ سنہری تاریخ کو حذف کرنے میں مستعدی دکھائی اور اسے تعلیمی نصاب سے اپنے ایک حکم نامے کے ذریعے یکلخت ختم کرکے طلبہ کے تعلیمی معیار کو پستیوں میں دھکیل دیا۔ ویسے بھی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بعض مخصوص اختلافات نہ طلبہ کے لیے نئے ہیں اورنہ یہ ہمارے ملک تک ہی محدود ہیں۔ آنے والی نسل کے ذہنوں پر یقیناً اس کے منفی، بدترین اور غیر معمولی اثرات کا مرتب ہونا ایک لازمی امر ہے۔ آج کے بعد کروڑوں معصوم بچوں کے صاف ستھرے ذہنوں کو آلودہ کرنے سے کوئی روک نہیں پائے گا، اور مستقبل میں ان آلودہ ذہنوں کو درست کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ سچ تو یہ ہے کہ تاریخی حقائق کے بجائے محض معروضات اور مذہبی و سیاسی عصبیت پر مبنی مفروضات کی بنیاد پر ترتیب دی جانے والی تاریخ، مستقبل میں ملک کی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔
ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ فی الواقع، بھارت کی حقیقی تاریخ ہی بھارت کے مستقبل کی ترقی کی بنیاد ہے۔ اگر چند خود غرض سیاسی پارٹیاں اپنی من مانی اور بے تکی یکطرفہ پالیسیوں پر عمل آوری کے لیے درخشاں تاریخی حقائق کو اپنے مزاج کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں گی ،تو وہ امن پسند سماج میں خطرناک زہر گھولے جانے کے مترادف ہوگا جو مستقبل میں ساری قوم کے لیے اس قدر مہلک ثابت ہوگا کہ جس کا علاج بھی کرنا ناممکن ہوگا۔

 آخر میں اس تحریک کا نام بھی ’’واٹس ایپ یونیورسٹی‘‘ سے جوڑ دیا جائے گا جس ایپ کی، آج مہذب سماج اور تعلیم یا فتہ طبقے میں کوئی وقعت نہیں۔یوگی حکومت نے اس معاملے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آناً فاناً اترپردیش کے اسکولوں میںNCERT کے 2023-24 کا نصاب، جدید ترمیم شدہ ہدایات کے مطابق تعلیم دیے جانے کے احکامات صادر کردیے ۔ چنانچہ اب مرکزی تعلیمی بورڈ نے مغلوں کی مکمل تاریخ نصابی کتابوں سے حذف کرکے نئی کتابیں بھی شائع کروا دی ہیں۔ گذشتہ سال سے جاری حکومت کی بدنیتی پر مبنی یہ تمام تر کوششیں آخر اس سال کھل کر سامنے آگئیں ،جو دراصل حکمران طبقے کا ذہنی دیوالیہ پن ثابت ہوا۔ مغل حکمرانوں کے صاف ستھرے طویل سنہرے دور حکمرانی کو حذف کرنے کی وجوہات کے سلسلے میں NCERT کے اعلیٰ افسر سے جب یہ پوچھا گیا کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد ملک میں آر ایس ایس پر پابندی عائد کردی گئی تھی، ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران حکومت کی جانب سے طاقت کا غلط استعمال ہوا تھا اور 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے بعد جب کوئی مناسب قدم کیوں نہیں اٹھایا گیا تھا؟ تب NCERT کے ڈائرکٹر نے ان تمام حوادث کو ماہر کمیٹیوں کی ذمہ داری کہہ کر ان عنوانات کو غیر ضروری قرار دیا۔لیکن بی جے پی کے سیاسی لیڈروں اور چندد یگر مذہبی قائدین نے NCERT کے اس فیصلے کو انقلابی قدم قرار دیا اور اس بیان کا خیر مقدم اور فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کس آسانی کے ساتھ بورڈ نے ہماری تاریخ کی کتابوں سے بابر، اکبر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب کو کوڑے دان کے حوالے کردیا۔
مختلف سماجی تحریکوں، عوامی جدوجہد اور غیر مختتم سیاسی کشمکش کے نتیجے میں الگ الگ مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ان کی تائید میں پیش کی جانے والی تشریحات بھی ہمیشہ الگ ہوا کرتی ہیں۔ جب سیاسی طاقتیں منظر عام پر ابھر آتی ہیں تو ایسا منظر دنیا کے ہر خطے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کہلائے جانے والے ملک امریکہ میں نسلی نظریے کے تنقیدی تنازعہ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ وہاں کی مختلف ریاستیں Jim Crow قوانین اور شہری حقوق کی تحریک کو کس طرح ایک دوسرے سے مختلف طریقے سے اجاگر کرتی ہیں اور اس کی اہمیت کو بڑھانے کی بھی کوشش کرتی ہیں ۔ برطانیہ میں آج بھی اس بات پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ برطانیہ کی شاہی حکومت سے قوم کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں طلبہ کو کلاس روم میں کس طرح آگاہ کیا جائے۔
دراصل کسی بھی ملک میں وہاں جو کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے، اسے زبانی اور تحریری طور پر مختلف انداز میں بیا ن کیاجاتاہے۔ بالفاظ دیگر حقیقت میں جو کچھ پیش آتاہے وہ کچھ ہوتا ہے اورسیاست دانوں کی طرف سے اسے کسی اور انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پرآج بھی بنگلہ دیش میں ہر اقتدار پر بیٹھی ہوئی سیاسی جماعت، عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ انہیں کی پارٹی نے بنگلہ دیش کو آزادی دلائی تھی اور اس کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھنا چاہتی ہے۔

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے