سہ پہر میں عبیر اپنی کتاب لیے صحن میں آگئی۔ وہ درخت کے قریب بنے چبوترے پر بیٹھ ہی رہی تھی تب اس نے دیکھا کہ چبوترے کے پیچھے دایان بیٹھا ہے۔وہ اس کے پیچھے سے آگئی اور خاموشی سے دیکھنے لگی۔ وہ اداسی سے بیٹھا اپنی انگلی سے قطار میں چلتی چیونٹیوں کا راستہ روک رہا تھا۔ وہ ایک چیونٹی کو راہ سے بھٹکاتا اور اپنی لکڑی کی بنی تلوار سے اس کو مار دیتا۔ پھر دوسری چیونٹی کو قطار سے الگ کر اسی طرح مارتا۔ وہ بے حد اداس تھا۔چہرے پر معصومیت تھی۔ عبیر کو بے اختیار اس پر پیار آیا۔وہ اس کے برابر بیٹھ گئی اور اس کی اداسی کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا دوست رافع جو پڑوس میں رہتا ہے، وہ کئی دنوں سے اس کے ساتھ نہیں کھیل رہا،کیونکہ اس کی رافع کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی۔عبیر نے اس سے لڑائی کی وجہ پوچھی۔
’’میں نے صرف ٹیچر سے شکایت کی تھی کہ وہ دوسرے بچوں کو چڑاتا ہے اور ان کا مذاق اڑاتا ہے۔میں نے تو غلط نہیں کیا۔ لیکن اس نے مجھے مارا اور مجھ سے جھگڑا کیا،اور وہ اب تک مجھ سے ناراض ہے۔‘‘
’’تم نے واقعی اور تو کچھ نہیں کیا ناں؟‘‘ اس نے مشکوک نظروں سے دایان کو دیکھا۔ وہ اس کی شرارتوں سے اچھی طرح واقف تھی۔دایان نے پلکیں جھپکا کر نفی میں سر ہلایا۔
’’تو تم اس سے سوری کرلو۔‘‘
’’نہیں میں سوری نہیں کروں گا۔ غلطی اس کی بھی ہے، میں کیوں سوری کروں؟‘‘
’’دایان غلطی اس کی بھی ہے اور تمھاری بھی،لیکن معافی مانگنے والا ہمیشہ بڑا ہوتا ہے۔کب تک یہ جھگڑا چلے گا؟ اس طرح دوستیاں اور رشتے داریاں توڑ کر نہیں بیٹھ جاتے۔ بہت بری بات ہے۔اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
لا یدخل الجنۃ قاطع
(رشتہ داری توڑنے والاجنت میں داخل نہیں ہوگا۔)
ہمارے کسی بھی بہن، بھائی، کزن یا دوست کا دل ہم سے دکھا ہو تو سوری کرلینا چاہیے۔‘‘عبیر کے سمجھانے پر وہ رافع سے معافی مانگنے پر راضی ہوگیا۔ وہ عبیر کو بھی ساتھ ہی اپنے دوست کے گھر لے آیا۔
’’رافع دایان آپ کی ناراضی ختم کرنے آیا ہے۔چلو دایان سے ہاتھ ملا لو، شاباش‘‘
’’نہیں۔ میں نہیں ملاؤں گا۔ اس نے مجھے موٹا کہا تھا۔‘‘ رافع کے کہنے پر دایان عبیر کے سامنے پہلے تو مکر گیا۔ لیکن اس کے سختی سے پوچھنے پر اس نے ندامت کے ساتھ سچ کہہ دیا کہ اس نے واقعی رافع کو موٹا کہا تھا۔ ڈانٹ کی ڈر سے اس نے اسے یہ بات نہیں بتائی۔
’’دایان تم جھوٹ بول رہے تھے؟ حالانکہ کل ہی دادی جان نے تمھیں حدیث یاد کروائی تھی۔ یاد نہیں؟
إیَّاکم والکذب
(جھوٹ سے بچو۔)اور علیکم بالصِّدق(ہمیشہ سچ بولو۔) جھوٹ بولنا بری عادت ہے دایان۔ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔سچ بہت بڑا ہتھیار ہے۔‘‘ عبیر نے توقف کیا اور کہا:’’کسی کو بھی برے القاب سے نہیں چڑانا چاہیے دایان۔ بہت بری بات ہے۔‘‘ دایان شرمندہ ہوگیا۔
’’چلو اب دونو ں ایک دوسرے سے معافی مانگو۔ رافع اپنے دوست کو معاف کردو۔ معاف کردینا چاہیے۔ ‘‘دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور واپس گھر آگئے۔ دایان اپنی تلوار اٹھانے چبوترے کے پیچھے گیا۔ اور خوشی سے تلوار اٹھا کر چند چیونٹیوں کو مارتا ہوا کھیلنے لگا۔
’’دایان یہ کیا کررہے ہو؟‘‘عبیر تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔
’’چیونٹیوں کو کیوں ماررہے ہو؟‘‘
’’میں تو بس کھیل رہا ہوں۔‘‘
’’اس طرح چیونٹیوں کو مار کر؟ اللہ کے نبی تو ایسا نہیں کرتے تھے۔‘‘دایان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
’’ہاں حضرت سلیمانؑ کا واقعہ تمھیں معلوم نہیں؟ ایک دفعہ حضرت سلیمان ؑ اپنے تمام لشکروں (جن، انس)سب کو لے کر وادی نمل سے گزرے، جہاں بہت ساری چیونٹیاں تھی۔چیونٹیوں کی ملکہ بولی:
’’اے چیونٹیو اپنے گھروں میں چلی جاؤ۔ تمھیں سلیمان اور ان کے لشکر بے خبری میں کچل نہ ڈالیں۔‘‘
اس چیونٹی کی بات تین میل دوری پر سلیمانؑ نے سن لی۔ اور مسکرا کر ہنسے۔‘‘
’’تین میل دور سے؟حضرت سلیمانؑ چیونٹیوں کی بات کیسے سمجھ لیتے تھے؟‘‘دایان نے تعجب سے پوچھا۔
’’اتنی دوری سے آواز سن لینا، یہ سلیمانؑ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ معجزہ ہے۔سلیمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں، جانوروں کا علم اور ان کی زبان سکھائی تھی۔ اور ان پر حکومت عطا کی تھی۔نظام قدرت کا مطالعہ اور مشاہدے کے بعد آج ہم بھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہم بھی دور کی آواز سن سکتے ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے۔‘‘
’’وہ کسی بھی جانور یا کسی بھی پرندے کو بلا وجہ نہیں مارتے تھے۔الا یہ کہ وہ کوئی نقصان پہنچانے والا ہو۔چیونٹیوں کی ملکہ بخوبی جانتی تھی کہ اللہ کے نبی جان بوجھ کر انھیں کبھی نہیں روندیں گے۔اگر کوئی چیونٹی روندی بھی جائے تو وہ بے خیالی میں ہی ہوگا۔ہمیں بھی اللہ کے نبیوں کی اور صحابہ کرام کی عادتیں اپنانی ہیں۔ تم سمجھ رہے ہو ناں؟‘‘
’’جی عبیر آپی میں آئندہ کسی بھی جانور کو نہیں ماروں گا۔‘‘
’’گڈ بوائے‘‘ عبیر نے اس کے بال بکھیرے اور مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
٭٭٭
رَمَضان کادوسرا عشرہ ’’عشرۂ مغفرت‘‘ختم ہورہا تھا۔ اس دن ظہر کی نماز کے بعد عبیر دادی جان کے ساتھ بیٹھی تھی۔
اَسْتَغفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ
(میں اللّہ سے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا/مانگتی ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا /کرتی ہوں۔)‘‘ دای جان نہال کو دوسرے عشرے میں پڑھی جانے والی دعا پڑھا رہی تھیں۔ تب افرحہ دوڑی دوڑی آئی۔یہ خبر دینے کہ اذہان کی دانیال کے ساتھ لڑائی ہوگئی ہے۔ دانیال نے اس کا پین توڑ دیا تھا۔اور اذہان نے غصے میں اس پر ہاتھ بھی اٹھایا اور اسے ڈانٹ بھی رہا ہے۔دادی جان گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کررہی تھیں۔ عبیراور نہال تیزی سے باہر کو دوڑیں۔
’’اذہان یہ کیا حرکت ہے؟‘‘ وہ صحن میں گئی تو اذہان دانیال کا کان مروڑ رہا تھا۔اذہان نے اپنا قیمتی ٹوٹا ہوا پین اسے دکھایا۔
’’غصے پر کنٹرول کرو اذہان چھوٹے بہن بھائی ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ انھیں اس طرح مارنا نہیں چاہیے۔نہ ڈانٹ ڈپٹ سے کام لینا چاہیے۔ان کی بھی عزت نفس ہوتی ہے۔ان پہ تشدد کرنے پر بجائے وہ شرمندہ ہونے یا بات سمجھنے کے، اپنی حرکت دہراتے ہیں۔ چھوٹوں پر ہاتھ اٹھانا بری عادت ہے۔ ان سے نرمی سے بات کرنی چاہیے۔
اِنَّ اللّٰہ رَفِیقٌ یُحِبُّ الرِّفقَ
(بیشک اللّٰہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے۔)، غصہ ہماری عقل کو کھا جاتا ہے۔ غصے پر قابو پانے کی کوشش کرو۔افرحہ بھائی کے لیے پانی لے کر آؤ۔‘‘ ساتھ ہی اس نے افرحہ سے کہا تو وہ دوڑ کر پانی لے آئی۔عبیر اب نرمی سے کہہ رہی تھی۔
’’ہم نے رَمَضان کے شروع میں ہی عہد کیاتھا ناں کہ ہم اس رَمَضان اپنی تمام بری عادتوں کو ترک کردیں گے۔ اور اچھی عادتیں اپنے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کریں گے۔یوں چیزوں کی خاطر دلوں کو نہیں توڑنا چاہیے اذہان چلو پانی پیو اور غصہ ختم کرو۔ شاباش‘‘ عبیر دانیال کی جانب مڑی۔
’’اور دانیال بیٹا بغیر اجازت دوسروں کی چیز استعمال کرنا بری عادت ہے۔ اذہان تم سے بڑا ہے ناں، اس کو تم نے واپس جواب کیوں دیا؟بڑے بھائی بہنیں ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں دانیال۔ جس طرح والدین کا ادب و احترام کرتے ہیں، اسی طرح بڑے بھائی بہنوں کی بھی عزت کرنی چاہیے۔ اگر اذہان تمھیں ڈانٹ بھی دے تو پلٹا کر جواب نہیں دینا۔ نہ ہاتھ اٹھانا۔نبیﷺ نے فرمایا:
’’سچا مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘اذہان اور دانیال نے ایک دوسرے سے معافی مانگی۔
دادی جان اب صحن میں آئی تھیں۔ اور ان کی لڑائی کی وجہ پوچھ رہی تھیں۔لیکن اب تو سب کچھ رفع دفع ہوچکا تھا۔
’’اذہان بھائی آج آپ امی کے ہاتھوں پٹنے والے تھے۔ اگر میں امی کو بتادیتا کہ آپ دانیال پر ہاتھ اٹھارہے تھے تو امی آپ کو بہت مارتیں۔ وہ تو مجھے نہال نے روک دیا تھا امی کو بتانے سے۔‘‘دایان نے دانت نکال کر کہا۔
’’اذہان نہال کو تھینک یو بولو۔ اور اب تم بھی اس کے لیے کچھ اچھا کرو۔‘‘
’’کیوں؟ ضروری ہے؟‘‘ اذہان نے ماتھے پر بل ڈالےپوچھا۔
’’ہاں۔ کوئی ہمارے ساتھ کچھ اچھا کرے تو ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اور کسی کے نیکی کے بدلے ہمیں بھی اس کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے۔نبیﷺ بھی لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ کرتے تھے۔تم سب اندر آؤ۔ میں تمھیں نبیﷺ کے سفر ہجرت میں پیش آنے والا واقعہ سناتی ہوں۔ جس میں نبیﷺ ، حضرت ابو بکر اور سراقہ بن مالک ہیں۔ اس میں نوشیرواں کے کنگن بھی ہیں۔‘‘عبیر نے کہا تو تمام بچے تیزی سے اس کے ساتھ کمرے میں چلے گئے۔ بچوں کو تو واقعات سننے میں بہت مزہ آتا تھا۔
٭٭٭
عبیر باورچی خانے میں امی اور چاچی کے ساتھ افطار کی تیاری کررہی تھی۔وہ تینوں باتیں بھی کررہی تھیں۔ساتھ ساتھ برابر والے کمرے سے دادی جان کی بھی آواز آرہی تھی جو تمام بچوں کو سورۃ الاخلاص، سورۃالفلق، سورۃ الناس اور درود ابراہیمی حفظ کروارہی تھیں۔عبیرکو ابھی یہ کام ختم کرکے لیلۃالقدر کا بھی منصوبہ بنانا ہے۔وہ اپنے ذہن میں جمع تفریق کررہی تھی۔
’’اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دین سکھانے کے لیے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے۔‘‘ دادی جان کی آواز آرہی تھی۔ وہ ایک پاؤں لمباکیے بچوں کو اپنے قریب بٹھائے کہہ رہی تھیں۔دایان آہستہ آہستہ ان کا لمبا کیا پاؤں دبا رہا تھا۔
’’ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ آخری نبی ہیں، جن پراللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لیے قرآن نازل کیاہے۔‘‘دادی جان ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہی تھیں۔
’’قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں۔ نبیﷺ کی باتوں کو ہم ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو ’’احسن الحدیث‘‘ کہتے ہیں۔ سورۃ الزمر کی آیت: 23 میں اس کا ذکر یوں ہے :
اَللَّہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا
(اللہ نے بہترین کلام کتاب کی شکل میں نازل کیا ہے۔)‘‘ دادی جان نے توقف کیا اور کہا:’’ہمارے نبیﷺ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔‘‘
’’اور ان کا انتقال کہاں ہوا دادی دان؟‘‘ دانیال نے معصومانہ انداز میں پوچھا۔
’’مدینہ منورہ میں۔‘‘اذہان نے جواب دیا۔
’’ٹیچر نے بتایا تھا ہمیں۔دادی جان نبیﷺ کے امی ابو کا نام کیا تھا؟ اور ان کے کتنے بھائی بہن تھے؟‘‘
’’آپﷺ کی والدہ کا نام آمنہ تھا۔ اور والد کا نام حضرت عبداللہ تھا۔ہمارے پیارے نبیﷺ کے کوئی بھائی بہن نہیں تھے۔آپﷺ کے پیارے ساتھیوں کو صحابہ کرام ؓ کہتے ہیں۔نبیﷺ کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔ہمارے پیارے نبیؐ کی بیویوں کو ازواج مطہراتؓ کہتے ہیں۔ ازواج مطہراتؓ ہماری مائیں ہیں۔ اور ان سب کو کیا کہتے ہیں معلوم ہے؟‘‘دادی جان نے پوچھا۔
’’مائیں۔‘‘ نہال نے مسکرا کر کہا۔
”نہیں بیٹے۔ وہ تو نبیؐ کی بیویاں امی عائشہ اور امی خدیجہ ہماری مائیں ہیں۔ پیارے نبیؐ کی والدہ، والد،بیویوں، بیٹیوں، بیٹوں اور دامادوں اور دیگر قریبی رشتے داروں کو ’’اہل بَیت(گھر والے)‘‘کہتے ہیں۔‘‘ دادی جان پیار سے سمجھا رہی تھیں۔
’’ہم درود ابراہیمی میں کہتے ہیں ناں
اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیم.إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ.إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ
(اے اللہ رحمتیں نازل فرما (حضرت) محمدؐ پر اور (حضرت) محمدؐ کی آل پر، جس طرح تو نے رحمتیں نازل فرمائیں (حضرت) ابراہیم ؑپر اور (حضرت) ابراہیمؑ کی آل پر، بے شک تو تعریف کے لائق بڑی بزرگی والا ہے۔اے اللہ برکتیں نازل فرما (حضرت) محمدؐ پر اور (حضرت) محمدؐ کی آل پر، جس طرح تو نے برکتیں نازل فرمائیں (حضرت) ابراہیم ؑپر اور (حضرت) ابراہیمؑ کی آل پر، بے شک تو تعریف کے لائق بڑی بزرگی والا ہے۔)‘‘ دادی جان نے بات کے دوران وقفہ لیا۔
’’ہمارے نبیؐ جو بھی کام کرتے تھے، انھیں ’’سنت‘‘کہتے ہیں۔نبیؐ نے ہمیں اچھی اچھی باتیں سکھائی ہیں۔ زندگی گزارنے کے اچھے اچھے طریقے بتائے ہیں۔‘‘
’’کون سی اچھی باتیں دادی جان؟‘‘ افرحہ نے دانت سے ناخن کترتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ بھی کہ آپ دانت سے ناخن کتر رہی ہیں، یہ گندی بات ہے۔اس سے ہمارے ناخنوں میں لگی گندگی ہمارے پیٹ میں چلی جاتی ہے۔ پھر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔‘‘دادی جان نے مسکرا کر کہا تو اس نے فوراً ہاتھ پیچھے کرلیا۔
’’جمعہ کے دن یاد سے ناخن تراشا کریں۔ہر روز مسواک یا برش کریں۔ مسواک نبیؐ کی سنت ہے۔ صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ اپنا کمرہ، الماری، اسکول بیگ، کتابوں کا ریک سیٹ کریں۔
اَلطّھور شَطرُ الاِیمَانِ
(صفائی نصف ایمان ہے۔)‘‘دادی جان یا د آنے پر کہنے لگیں۔ ’’اورہاں کسی سے ملنے پر سلام کرنا چاہیے۔ جو ہماری نہال اور دانیال اکثر بھول جاتے ہیں۔‘‘
’’میں اب نہیں بھولوں گی دادی جان۔ان شاء اللہ۔‘‘نہال نے کہا۔
’’میں بی نئیں بھولوں گا۔‘‘ دانیال بولا۔
’’شاباش۔ اچھے اچھے کام کریں۔ برے کاموں سے بچیں۔ یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، وہ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔‘‘
’’ہم اچھے کام کرتے ہیں ناں دادی جان؟‘‘دایان نے پوچھا۔ وہ سبھی اب تک سیکھی گئی تما م دعاؤں کا اہتمام کررہے تھے۔باقاعدگی سے قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔
’’ہاں بالکل۔جو بچے اپنے دادا دادی اور نانانانی کی خدمت کرتے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بہت خوش ہوتا ہے۔ہم سب کو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا چاہیے۔ اپنے بزرگوں کی خدمت کرنی چاہیے۔ جیسے دایان ابھی میرے پاؤں دبارہا ہے۔ بزرگوں کے پاؤں دبا کر ان کی دعائیں لینی چاہئیں۔ آپ سب دباتے ہیں ماَشاءَ اللہ۔‘‘
’’دادی جان ہم آپ کے پاؤں دباتے ہیں تو آپ ہمارے لیے دعا کرتی ہیں؟‘‘ دایان نے پوچھا۔
’’ہاں بالکل۔ میں تو بہت دعائیں کرتی ہوں آپ سب کے لیے۔‘‘
’’پھر دادی جان آپ میرے لیے یہ بھی دعا کریں کہ میں کلاس میں فرسٹ آؤں۔ میرا رزلٹ سب سے اچھا آئے۔‘‘ دایان نے دادی جان کے پاؤں پر مزید قوت لگاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹے اپنا موازنہ دوسروں سے نہیں بلکہ خود سے کرنا چاہیے۔ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا آج، ہمارے کل سے بہترہو۔یہ ایک مومن کی سوچ ہے۔اپنے دوستوں کے لیے بھی یہی دعا کرنی چاہیے کہ ان کا آج کا رزلٹ ان کے کل کے رزلٹ سے بہتر ہو۔‘‘
’’جی اچھا دادی جان۔‘‘
’’چلو افطار کا وقت ہورہا ہے۔ روزانہ کی طرح ہمسایوں کے یہاں افطاری لے کر نہیں جانا؟‘‘دادی جان کے کہتے ہی سب بچوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی۔ ہمسایوں، پڑوسیوں اور آس پاس کے لوگوں کے یہاں افطاری دینے کی الگ ہی خوشی ہوتی ہے۔ سب بچے اچھلتے ہوئے باورچی خانے کی طرف چلے گئے۔ دادی جان ان کے لیے دعا کررہی تھیں کہ ان بچوں نے جو کچھ نیا سیکھا ہے،اللہ تعالیٰ اسے ان کے دل و دماغ میں محفوظ کردے۔ انھوں نے جو اچھی عادتیں اپنائی ہیں، انھیں ہمیشہ قائم رکھے، اور انھیں پروان چڑھانے میں ان کی مدد فرمائے۔اللہ تعالیٰ انھیں نیکیوں میں سبقت لے جانے والابنائے۔آمین۔
٭٭٭
رَمَضان کا آخری عشرہ جو ’’جہنم سے نجات‘‘ کاہے،شروع ہوچکا تھا۔ آج نہال کا پہلا روزہ تھا۔اس کے ساتھ سوائے دانیال کے سبھی بچوں نے روزہ رکھا تھا۔افرحہ کا آج دوسرا روزہ تھا۔ سحری کھانے کے بعد نماز کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کے بعد وہ سوگئی تھی۔ آج اس نے اسکول سے بھی چھٹی کرلی تھی۔صبح اٹھنے کے بعدسب کا دیکھا دیکھی دانیال بھی روزہ رکھنے کی ضد کرنے لگا۔اسے یہ کہہ کر چپ کرایا گیا کہ بچوں کا روزہ آدھے دن کا ہوتا ہے۔ وہ 12 بجے روزہ رکھے۔ وہ گھڑی پر نظریں جمائے بیٹھ گیا تھا۔ اور بارہ بجتے ہی اس کا خودکا مفروضہ روزہ شروع ہوگیا۔وہ کوئی چیز کھا رہا تھا نہ پی رہا تھا۔3 بجے کے قریب اس کا گلا خشک ہونے لگا تو سب نے اسے سمجھایا کہ چھوٹے بچوں کا روزہ صرف بھوکے رہنے کا ہوتا ہے۔ پانی پی لینا چاہیے۔اذہان اور دایان چونکہ عمر میں افرحہ اور نہال سے بڑے تھے، وہ رزے کے معاملے میں بھی ان سے سینیئر تھے۔ وہ دونوں نہال اور افرحہ کو روزے سے متعلق خوب نصیحتیں کررہے تھے۔جو باتیں ان کے پہلے روزے پر سکھائی گئی تھیں، وہی دہرارہے تھے۔ ’’روزے میں جھوٹ نہیں بولتے، چھپ کر کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کچھ باتیں من گھڑت بھی تھیں،محض ان دونوں کو تنگ کرنے کے لیے۔
دوپہر میں عبیر ہال نما کمرے میں آئی تو دیکھا کہ نہال اور افرحہ کارپٹ پر موبائل رکھے، اوندھی لیٹی کارٹون دیکھ رہی ہیں۔روزے سے ان کے چہرے سوکھ چکے تھے۔عبیر نے قریب جاکر اوپر سے جھانکا۔ وہ ٹام اینڈ جیری کارٹون دیکھ رہی تھیں۔ دایان اور اذہان بھی وہاں آگئے تھے۔
’’افرحہ، نہال اچھے بچے روزے کے دوران ایسے کارٹونز نہیں دیکھتے۔کچھ کرنا ہی ہے تو انبیاء ؑکے واقعات پڑھو، عبدالباری کے کارٹون دیکھو۔‘‘
’’آپی بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ نہال نے کہا۔
’’اور مجھے پیاس۔‘‘افرحہ نے بھی روتی ہوئی شکل بنائی۔
’’تم دونوں نے اللہ کے لیے روزہ رکھا ہے ناں؟ تو اللہ کی خاطر برداشت بھی کرو۔روزے میں ’بھوک اور پیا س لگ رہی ہے۔‘ایسا بار بار نہیں کہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمھارا روزہ آسان کردے گا۔ تمھاری تربیت تو ایسی ہونی چاہیے کہ تم سخت سے سخت گرمی اور کڑی سے کڑی دھوپ میں روزہ کی حالت میں رہ سکو۔ تمھیں برداشت کی عادت ہونی چاہیے۔تمھیں مضبوط بننا ہوگا۔روزے کا اصل مقصد کیا ہے معلوم ہے تم لوگوں کو؟‘‘ اس نے ان چاروں کی طرف دیکھا۔
’’صیام‘‘ لفظ جو ہے، وہ ’’صوم‘‘سے بنا ہے۔اور اس کے لغوی معنی ہیں کسی شے سے رکنا یا اسے ترک کردینا۔اور شرعی اصطلاح میں اسے’’صوم‘‘ یا ’’روزہ‘‘ کہتے ہیں۔ علماء کہتے ہیں کہ عرب کے رہنے والے لوگ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو بھوک پیاس کا عادی بنانے کے لیے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے، تاکہ وہ مشکل اوقات میں زیادہ سختی برداشت کرنے کے قابل بن جائیں۔اس طرح وہ اپنے گھوڑوں کو مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کی تربیت دیتے تھے۔فاقہ اورشدید پیاس کے عمل سے گزرنے والے اس گھوڑے کو ’’فرس صائم‘‘ کہا جاتا ہے۔طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کوصرف کھانے پینے سے ہی نہیں بلکہ فحش گوئی، تلخ کلامی، بد زبانی، اور تمام برائیوں سے باز رکھنا ہے۔ اپنے اندر پرہیز گاری پیدا کرنا ہے۔یہی روزے کا اصل مقصد ہے۔ لیکن پھر بھی اگر تم اللہ سے کہوتو تمھارا روزہ آسان ہوجائے گا۔روزے داروں کی دعائیں بہت جلد قبول ہوجاتی ہیں۔ اور خصوصاً چھوٹے بچوں پر تو اللہ تعالیٰ بے انتہا مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘عبیر نے انھیں سمجھایا۔
’’پھر رَمَضان کے بعد انعام کے طور پر عید آتی ہے۔ خوشیوں کی بہار اور پھولوں کی مہکار بن کر۔ ہمیں عید پر عیدی ملتی ہے۔ نئے نئے کپڑے ملتے ہیں۔ ہم شیر خرما پئیں گے۔ سویاں کھائیں گے۔ تم سب کی پسندیدہ ساری ڈشز بنوائیں گے۔ دادی جان سے، دادا جان سے، ابو سے چاچا سے سب سے عیدی لیں گے۔ خوب مزے کریں گے ان شاءاللہ ۔ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ ہمیں جنت کا انعام دے گا، وہ تو بہت بڑا ہے۔‘‘ یہ سب کہہ کر اس نے بچوں کو خوش کردیا۔اور ان کو ساتھ لے کر ظہر کی نماز ادا کی۔
دادی جان سے قرآن سمجھنے کے بعدافرحہ اور نہال سو گئی تھیں۔عصر کے قریب نہال کی آنکھ کھلی تو وہ سیدھی پانی کے مٹکے کے پاس گئی۔نل کھول کر گلاس میں پانی بھرا۔اورچارٹ پر لکھی دعا پڑھ کر ابھی اس نے ایک چھوٹا سا گھونٹ ہی لیا تھا کہ اذہان اور دایان ایکدم سے اس کے سامنے آگئے اور شور کرکے سب کو جمع کرلیا۔ سب نے ان سے شور کی وجہ پوچھی تو وہ ہنستے ہوئے بتانے لگے کہ نہال کا روزہ ٹوٹ گیا۔ اس نے پانی پی لیا۔ہاتھ میں گلاس لیے بیٹھی نہال کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔وہ زور زور سے رونے لگی۔’’مجھے نہیں یاد تھا کہ میرا آج روزہ ہے۔ میں نے تو غلطی سے پانی پی لیا۔ اور تھوڑا سا ہی پیا۔ بہت تھوڑا۔ اتنا سا۔‘‘وہ روتے روتے بتانے لگی۔
’’بیٹے غلطی سے کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔تم اگر جان بوجھ کر پیتیں تو روزہ ٹوٹ جاتا۔لیکن غلطی کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔آپ کی نیت نہیں تھی روزہ توڑنے کی۔ لیکن بے خیالی میں آپ نے پانی پی لیا۔ کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو دیکھتا ہے۔
اِنّما الاَعْمَالُ بِالنّیَّات
(اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)‘‘دادی جان نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’وہ تو اچھا ہوا کہ ہم دونوں صبح سے ان کی نگرانی کررہے ہیں۔ ورنہ یہ پورا گلاس پانی پی جاتی۔‘‘ اذہان نے ہنستے ہوئے کہا۔
پھر عبیرنے صدقہ باکس بنانے کے لیے کاغذ وغیرہ لائے۔ اور سب بچوں کے ساتھ وہ صدقہ باکس بنانے لگی۔تاکہ سب بچے اپنی پاکٹ منی میں سے کچھ رقم صدقہ باکس میں ڈال سکیں۔ہر ماہ بعد وہ اس میں سے پیسے نکال کر یاان پیسوں سے کچھ سامان خرید کرغریبوں میں تقسیم کریں گے۔ کیونکہ صدقہ دینے سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔آج نہال کی روزہ کشائی تھی۔افطار کا وقت قریب آیا تو نہال کو اچھی طرح تیار کیا گیا۔ نئے کپڑے، ہاتھوں میں مہندی، پھول۔اس کے ساتھ ساتھ افرحہ بھی اتنا ہی تیار ہوئی تھی۔روزانہ کی طرح سب بچے اور نہال پڑوسیوں کے گھر افطاری دینے کے لیے گئے۔آج تمام رشتے دار،پڑوسیوں کو بھی افطار کی دعوت دی گئی تھی۔نہال اور افرحہ کی سہیلیاں اور دایان اور اذہان کے دوست،تمام کزنزبھی مدعو تھے۔سب نے نہال کو دعائیں دیں۔ دادا جان بلند آواز میں دعائیں کررہے تھے۔ سب آمین کہہ رہے تھے۔پھر دادا جان نے رَمَضان کے آخرے عشرے کی دعا بھی پڑھائی۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّا تُحِبُّ العَفوَ فَا عفُ عَنَّا
(اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، پس ہمیں معاف فرما دے۔)
امی اور چاچی نے خواتین، مردوں اور بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ دسترخوان بچھائے۔ دسترخوان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بکھری تھیں۔ برکتوں کا نزول تھا۔کھانے میں بریانی کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کی غذائیں اور مشروبات تھے۔ پھل تھے۔جو کہ نماز کے بعد نوش کیے جانے تھے۔ بچوں کا دل کھانے کی چیزیں دیکھ کر للچا رہا تھا۔رونقوں سے بھرپور سماں تھا۔ رحمتوں کی بارش مسلسل برس رہی تھی۔تمام روزے داروں حتیٰ کہ ننھے روزے داروں کے چہرے اللہ سبحان و تعالیٰ کے نور سے دمک رہے تھے۔ افطار کا سائرن بجا تودادا جان نے روزہ کھولنے کی دعا پڑھائی۔
اَللَّہُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ فَتَقَبَّلْ مِنِّی۔
(اے اللہ بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کیا۔تواسے قبول فرما۔)
کھجور کھاکراور پانی پی کر روزہ کھولا گیا۔ کہ یہ سنت طریقہ ہے۔مرد حضرات نماز کے لیے چلے گئے تو عبیر نے خواتین اور بچوں میں شربت روح افزاء تقسیم کیا۔اور وہ بھی نماز کے لیے چل دی۔ اب اسے لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے طاق راتوں کااہتمام کرنا تھا۔ کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔عبیرنے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس نے اور اس کے بہن بھائیوں نے اس ماہ صیام میں جتنی بھی عبادتیں کی ہیں،اللہ تعالیٰ انھیں قبول فرمائے۔ اور جو چھوٹ گیا، اسے بخش دے۔اللہ تعالیٰ اس کے تمام اگلے گناہوں کو اور لغزشوں کو درگزر فرمائے۔اس نے جتنی رحمتیں، برکتیں اور انوار سمیٹے ہیں ان کے طفیل اس کی آنے والی زندگی میں روشنیاں ہی روشنیاں ہوں۔ خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔آمین یارب العالمین۔
٭٭٭
0 Comments