مئی ۲۰۲۳

 اس عنوان سے اپریل کے شمارے میں کیس اسٹڈی کیا تو بے اختیار قرآن کریم کی سورۃ الانبیا ءکی آیت نمبر ذہن میں آئی ،اور زبان اسے دوہرانے لگی۔آیت کا یہ پہلا حصّہ ہی کیس کو پلک جھپکتے ہی سمجھا گیا ۔
یہاں نہ معاشرے کا مسئلہ تھا ،نہ کسی قانون کی ستم ظریفی ،یہاں تو سارا معاملہ انسانی فطرت کا تھا ۔

 خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍؕ

(آدمی جلد باز بنایا گیا۔)
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جلد بازی کی زیادتی اور صبر کی کمی کی وجہ سے ،گویا انسان بنایا ہی جلد بازی سے گیا ہے، یعنی جلد بازی انسان کا خمیر ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جلد بازی کو انسان کی فطرت میں پیدا کیا گیا ہے،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب آدمی ہر کام جلدی جلدی کرنے پر مجبور ہے، کیونکہ ہمارے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے ہمیں جلد بازی(عُجلت) کے نقصانات سے آگاہ کرکے بُردباری اوراطمینان و سکون سے کاموں کو انجام دینے کی تعلیم وتربیت بھی دی ہے ،اس حوالے سے فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم موجودہیں :
(1) اطمینان اللہ پاک کی طرف سے اورجلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔
(2)جب تم نے بُردباری سے کام لیا تو اپنے مقصد کو پالیا ، یا عنقریب پا لو گے، اور جب تم نے جلدبازی کی تو تم خطا کھا جاؤ گے ،یا ممکن ہے کہ تم سے خطا واقع ہوجائے۔
(3) مومن سوچ سمجھ کر کام کرتا ہے۔
جلد بازی کو اُمُّ النَّدَامَۃِ یعنی ندامت کی ماں (Mother of regret) کہا گیا ہے ، حضرت سیِّدنا حَسَن بَصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’مومِن سوچ سمجھ کر اِطمینان و سنجیدگی سے کام کرنے والا ہوتا ہے ، اب ہم کیس کی طرف آتے ہیں۔ رملہ کے کیس میں جو کچھ ہوا ،وہ مومن ہونے کی نشاندہی نہیں کرتا ۔رملہ اور اس کی دوست دونوں ہی نو عمر اور نا تجربہ کار بچیاں تھیں۔لیکن رملہ کے والدین نے بھی والدین ہونے کا حق ادا نہیں کیا ،اور جلد بازی کے سبب خطا کرگئیں ۔اگر تھوڑا سا صبر کیا ہوتا ،اپنی اولاد کو سمجھایا ہوتا تو شاید اس مایوس کر دینے والے انجام سے دو چار نہ ہوتے ۔
قرآن کریم میں بار بار یہ الفاظ بھی آتے ہیں :

فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ

(اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوتے۔)
یہ حقیقت ہے کہ اگر اللّه کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ہر وقت انسان نقصان ہی اٹھاتا ،لیکن اس رب کریم نے ہر طرح سے اپنا فضل رکھا ہے،اپنے بندوں پر کہ اس نے دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی سے تجدید نکاح کی صورت نکالی ۔ خلع کی صورت میں چونکہ طلاق بائن ہوتی ہے، لہذا رجوع نہیں، بلکہ تجدید نکاح ہو سکتاہے ،یعنی اگر انسان سے خطا ہو بھی جائےاور اسی غلطی کا احساس ہو جائے تو فوراً اپنے رب سے معافی مانگ لے،توبہ استغفار کر لے ۔وہ رحمان و رحیم اپنے خطاکاروں کو معاف بھی کرتا ہے .اللّه خود غفور ورحیم ہے اور معاف کرنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے ،لیکن رملہ کو معاف کرنے والے نہیں ملے تھے ۔یقیناً یہ پورا کیس یک طرفہ کوتاہی یا یک طرفہ غلطی کی وجہ سے وجود میں آیا،باوجود اس کےاگر رملہ کے شوہر اور اس کےگھروالوں میں تھوڑا دین ہوتا ،اورانہونے اس بات کو سمجھا ہوتا کہ نادانی میں خلع کا مطالبہ کر لیا ہےتوسمجھا بجھا کر رشتے کو قائم رکھا جا سکتا تھا،مگر سمجھداری کا اور کم علمی کا فقدان ادھر بھی تھا، عجلت کا مظاہرہ ادھر سے بھی ہوا تھا ،رملہ کی منت سماجت بھی کوئی کام نہیں آئی ،اور محض چار ماہ میں نکاح جیسا مقدس رشتہ تار تار ہو گیا ۔
غلطی کا احساس بھی جلدی ہو گیا ،لیکن بعض اوقات زمین پر بسنے والے ’’خدا‘‘ غلطیوں کو سدھارنے کا موقع بھی نہیں دیتے۔
رہنمائی:
کیس کی رہنمائی کو لےکر اگر میں بات کروں تو سب سے آسان اور بہتر طریقہ یہ ہی ہے کہ انسان کو جلدی فیصلے صرف انہی باتوں میں لینے چاہئیں یا جلد بازی صرف انہی باتوں میں کرنی چاہیے جن کا حکم اللّه اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے۔ بُزرگان دین رحمۃ اللہ علیہم کا فرمان ہے کہ اگرچہ عُجلت(جلدبازی) شیطانی عمل ہے لیکن چھ اُمور میں عُجلت ضروری ہے : (1)نَماز کی ادائیگی میں جب اس کا وَقت ہوجائے ۔(2)میِّت کو دَفن کرنے میں جب حاضر ہو۔ (3)جب لڑکی بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرنے میں جلدی کی جائے۔ (4)قرض (Loan)بھی جلد ادا کیا جائے،جب ادائیگی کی طاقت حاصل ہو۔ (5)جب مہمان آئے تو اسے کھانا جلد کھلایا جائے۔ (6)جب گناہِ صغیرہ یا کبیرہ کا اِرتِکاب ہوجائے تو توبہ میں عجلت کی جائے۔ اور بھی کچھ امور ہیں جہاں اگر عجلت کی ضرورت ہو تو کی جائے ،مگر عام حالات میں انسان کو ہر بات اورہر معاملے میں صبر و تحمل سے فیصلے کرنے چاہئیں ۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ میں نے رب کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے پہچانا۔یہ عقلمندوں کےلیے کافی گہری بات ہے کہ انسان ہزار پلاننگ کرتا ہے ،کسی کام کو کرنے کے لیے بہت سے ارادے کرتا ہے اور پھر بھی ناکامی ہاتھ لگتی ہے تو مایوس ہونے کے بجائےرب کائنات کی مصلحت کو سمجھنا چاہیے ۔
ایسا کرنے سے ہم رب کے اور زیادہ قریب ہو جاتے ہیں اور رب ہمارے ۔جو ذرا جلدبازی کی ،ذرا بے صبرے ہونے کا مظاہرہ کیا، وہیں ہم مات کھاتے ہیں ،اور خصوصاً کر شادی بیاہ کے معاملات میں بےحدگہرے تدبر کی ضرورت ہے ۔جو بغیر سوچے سمجھے فیصلے لیتے ہیں، ان کا انجام نہ صرف شادی شدہ جوڑے کو بلکہ دو گھرانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
رملہ کے والدین کا اس کےسسرال والوں کےساتھ کمیونیکیشن گیپ رہا۔ادھر اس کا شوہر بھی بیوی کا حق ادا نہیں کر سکا ،یعنی رشتےکےفوری طور پر قطع ہو جانے کی بہت سی وجوہات رہیں ۔ ایک اور اہم بات اس کیس میں سامنے آئی کہ انسان کی زندگی میں دوست اور دوستی کتنی اہمیت رکھتی ہے ،کہ رملہ نے فورا ہی اپنی سہیلی کی دی ہوئی تجویز پر گھر کے بڑوں سے کوئی مشورہ کیے بغیر عمل کر ڈالا ۔اس لیےیہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جن دوستوں کا انتخاب کر رہے ہیں وہ حقیقی معنوں میں ہمارے خیر خواہ ہوں ۔
کیس میں جو سوالات کیے گئے ہیں، ان کےجواب میں بھی یہ ہی کہنا چاہوں گی کہ خلع کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے اسی قسم کے اقدامات ہونے چاہئیں کہ مسئلے کو جماعت کے بیچ ہونے والی کمیٹی کے ساتھ ڈسکس کرنا چاہیے ۔بات بچوں کے بیچ نہ رکھ کر بڑوں کے درمیان فیصلے ہونے چاہئیں اور ہر ممکن کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس عمل کو معیوب سمجھا جائے ۔بچوں کو بھی سمجھایا جائے کہ اللّه کے نزدیک یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔ان نوجوان بچوں کی، جن کی عمریں شادی کی ہوں، ان کی اپنے بڑوں کی سرپرستی میں لازماً کاؤنسلنگ ہونی چاہیے ۔
نکاح کے احکامات اور اس کے فوائد سمجھانےچاہئیں کہ نکاح ’’ایجاب و قبول‘‘ کے مخصوص الفاظ کے ذریعے مرد و عورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’چار چیزیں انبیائے کرام (علیہم السلام) کی سنّت میں سے ہیں: حیاء، خوش بُو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح۔‘‘(ترمذی)
٭ بے نکاح مرد اور بے نکاح عورت محتاج اور مسکین ہیں۔نکاح واحد وہ رشتہ ہے جو اگر خونی رشتوں میں سے نہ ہو تب بھی اللّه تعالیٰ نے کچھ ایسی کشش اس رشتے میں رکھی ہے کہ ایک ہی دن میں اللہ لڑکے اور لڑکی کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے ۔جیسا کہ رملہ کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنی نادانی کے تحت الگ تو ہو گئی تھی، مگر شوہر کی محبت اس کےدل میں گھر کر گئی تھی۔
چنانچہ اس پاک اور محبت بھرے رشتے کو ختم کرنے کے لیے جلدبازی نہیں کرنی چاہیے ،ورنہ پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔

٭٭٭

یقیناً یہ پورا کیس یک طرفہ کوتاہی یا یک طرفہ غلطی کیی وجہ سے وجود میں آیا،باوجود اس کےاگر رملہ کے شوہر اور اس کےگھروالوں میں تھوڑا دین ہوتا ،اورانہونے اس بات کو سمجھا ہوتا کہ نادانی میں خلع کا مطالبہ کر لیا ہےتوسمجھا بجھا کر رشتے کو قائم رکھا جا سکتا تھا،مگر سمجھداری کا اور کم علمی کا فقدان ادھر بھی تھا، عجلت کا مظاہرہ ادھر سے بھی ہوا تھا ،رملہ کی منت سماجت بھی کوئی کام نہیں آئی ،اور محض چار ماہ میں نکاح جیسا مقدس رشتہ تار تار ہو گیا ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے