مئی ۲۰۲۳
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًاؕ اِمَّا يَـبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا‏ ۞ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىْ صَغِيْرًا ۞

(بنی اسرائیل: 23،24)

تمھارے رب نے فیصلہ کر دیا ہےکہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اسی کی ، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔ اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تک نہ کہو ،نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا ۔)

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ

بے شک اللہ تعالیٰ اس کائنات کا اور اس پر بسنے والی تمام جاندار چیزوں کا موجد ہے۔ تو اے زمین و آسمان کے رہنے والو! زندوں یا مردوں میں سے کسی کی عبادت نہ کرو مگر اس ذات کی جس نے تمھیںپیدا کیا ۔تمہارے لیے رنگین دنیا بنائی، اور تمھاری خوراک کے لیے غلے اور لذیذ پھل فراہم کیے ۔ مخلوق میں کوئی ہستی کسی بھی پہلو سے اس کی کسی بھی صفت میں مشابہت نہیں کر سکتی۔ وہی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازتا ہے ۔خالق ،رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے ۔

 وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ؕ

 اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے ۔رشتے بنانے کے بعد اللہ نے ان کے حقوق مقرر فرمائے ۔ان حقوق میں سے ہر ایک کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔ اللہ نے اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد والدین کے حق کا ذکر فرمایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ اللہ کے بعد رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اللہ کی بے شمار نعمتوں اور بے پایاں رحمتوں کے احسان اور شکر کے بعد انسان پر اگر کسی کی نعمتوں اور اور احسانات کا شکر ہےتو وہ اس کے والدین ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے جہاںاپناشکرادا کرنے کا حکم دیا ہے، وہیں والدین کی شکر گزاری کا بھی حکم دیا ہے ۔

اَنِ اشۡكُرۡ لِىۡ وَلِـوَالِدَيۡكَؕ اِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ ۞

(میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو ۔میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔)
رحم مادر میں بچے کی بتدریج تخلیق قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے ۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بالکل کمزور اور عاجز ہوتا ہے ۔ اس میں حرکت کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی ۔اس وقت سے ماں باپ ہی اللہ کے بعد اس کاسہارا بنتے ہیں ۔ تو گویا اس کے وجود کی بقاء کے لیے اللہ کی قدرت کے بعد انہی کی شفقت و محبت کام کرتی ہے ۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کی فرضیت میں بہت سی احادیث ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ،پھر فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر فرمایا اس شخص کی ناک خاک آلود ہو ۔جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (صحیح مسلم: 6510)
ابو بکرہ ؓ سے روایت ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں تمھیںاکبر الکبائر نہ بتاؤں؟ ‘‘تین مرتبہ آپ نے فرمایا ۔ہم نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں اے اللہ کے رسول !‘‘آپ نےفرمایا:’’ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کو ستانا۔
(صحیح بخاری: 5976)
اگر والدین غیر مسلم ہوں پھر بھی ان کے ساتھ نیک سلوک واجب ہے۔ حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ میری والدہ میرے پاس آئیں ۔وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مشرکہ تھیں ۔ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :’’یا رسول اللہ! وہ اسلام سے اعراض کرتی ہیں ۔کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہاں تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔‘‘
(صحیح بخاری: 2620، صحیح مسلم: 1003 )
سعد بن ابی وقاص کی والدہ ایمان نہیں لائی تھیں۔ آپﷺ نے ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی ۔حضرت ابو ہریرہؓ کی والدہ ایمان نہیں لائی تھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتی تھیں ،پھر بھی آپ ﷺ ان کو اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے۔
والدین اگر معصیت اور نافرمانی کا حکم دیں مثلاً پردہ کرنے سے روکیں ، غیرساتر لباس پہننے کو کہیں تو ان معاملات میں والدین کی اطاعت نہیں ۔البتہ دنیا میں حسن اخلاق ، حسن سلوک اور تحمل کے ساتھ ان کاساتھ دینا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے :

وَاِنۡ جَاهَدٰكَ عَلٰٓى اَنۡ تُشۡرِكَ بِىۡ مَا لَيۡسَ لَكَ بِهٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡهُمَا‌ وَصَاحِبۡهُمَا فِى الدُّنۡيَا مَعۡرُوۡفًا‌ۖ وَّاتَّبِعۡ سَبِيۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَىَّ ‌ۚ ثُمَّ اِلَىَّ مَرۡجِعُكُمۡ فَاُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ۞ (سورہ لقمان: 15)

(اگر وہ دونوں (والدین)تجھ پر کوشش کریں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے، جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان۔ اور دنیا میں اچھی طرح ان کاساتھ دے ،اور میری طرف رجوع کرنے والے راستے پر چل۔ پھر میری ہی طرف تمھیں پلٹ کر آنا ہے تو میں تمھیںبتاؤں گا جو کچھ تم عمل کرتے تھے۔ )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انما الطاعة فی المعروف

(اطاعت صرف معروف اور نیکی کے کام میں ہے۔)
مزیدفرمایا:

 لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق

(خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔ )(صحیح بخاری)
اولاد کی پرورش اور ان کے تابناک مستقبل کے لیےماں باپ دونوں اپنے دائرے اور حیثیت کے بقدر محنت و مشقت کرتے ہیں ،لیکن باپ پر ماں کو تین درجہ فوقیت حاصل ہے ۔ یہ فوقیت کیوں؟ اس کا جواب بھی قرآن میں ہے :

ووصّینا الانسان بوالدیہ احسانا حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا وحملہ وفصالہ ثلاثون شھرا(الآیة)

آیت میں ماں باپ دونوں کے ساتھ احسان کی تاکید ہے ،مگر ماں کی تین قربانیوں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے ۔پہلی یہ کہ وہ حمل کی پوری مدت اسے اٹھائے پھرتی ہے ۔اس دوران اسے تھکاوٹ اور دن بدن کمزوری کی سی بھی حالت آتی ہے ۔
سورہ لقمان میں ہے:

 حملتہ امہ وھنا علی وھنٍ

(اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں تھک تھک کر اٹھائےرکھا ۔)

ووضعتہ کرھا

 دوسری قربانی وضع حمل کا نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہے ۔اس مرحلے میں ماں اپنی جان کو داؤ پر لگا کر بسا اوقات اپنی جان کی قربانی دے کر اپنی اولاد کا دنیا میں استقبال کرتی ہے ۔تیسری قربانی دو سال تک اپنا خون دودھ کی صورت میں پلاتے رہنا ہے ۔ یہ دور ماں کی قربانیوں کا مجموعہ ہے ۔ماں اپنے بچے کے آرام کی خاطر دن کا سکون رات کی نیند تک قربان کرتی ہے۔ ان تین قربانیوں کی وجہ سے ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے ۔
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہنے لگا :’’یا رسول اللہ! لوگوں میں میرے حسن سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ تیری ماں۔‘‘اس نے کہا :’’پھر کون؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ تیری ماں۔‘‘ اس نے کہا:’’ پھر کون؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ تیری ماں۔‘‘ اس نے کہا :’’پھر کون؟‘‘ آپ نے (چوتھی مرتبہ)فرمایا :’’تیرا باپ۔‘‘ (بخاری: 5981)

اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ

یوں تو والدین کی خدمت و اطاعت زندگی کے ہر لمحے میں فرض ہے،لیکن والدین کی خدمت و اطاعت کا اصل وقت ان کے بڑھاپے کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ بڑھاپے کی کمزوریاں انھیں دوسروں کی خدمت و اعانت کا محتاج بنا دیتی ہیں، اور اولاد اپنی جوانی کی امنگوں اور عیش پرستیوں میں کھو کر اپنے محتاج و کمزور ماں باپ کی خدمت کی طرف سے لا پرواہی برتتی ہے ۔والدین کو ان کی عمر کے کسی بھی حصے میں اف کہنے یا ڈانٹ پلانے کی اجاز ت نہیں ہے۔بڑھاپے میں محتاجی اور جسمانی ضعف کی وجہ سے ان کادل انتہائی حساس ہو جاتا ہے، اور مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے ۔بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے ۔پاکی اور پلیدی کی بھی خبر نہیں ہوتی۔جس کی وجہ سے اف کا لفظ بھی ان کےکلیجہ پر نشتر بن کر اترتا ہے،ان کو سخت سست کہنا تو درکنار، اف تک کہنا بھی جائز نہیں۔اف کہنا اذیت کا ادنیٰ مرتبہ ہے ۔اس کے ذریعہ اولاد کو تنبیہ دی گئی کہ ان کو ادنیٰ سے ادنیٰ تکلیف بھی مت دو۔ عبد اللہ ابن عباسؓ کا ارشاد ہےکہ اگر عربی میں اس سے بھی کوئی ہلکا لفظ ہوتا تو وہ بھی استعمال کیا جاتا ۔

وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا

بڑھاپے میں ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے ۔بعض دفعہ والدین اولاد کی صحیح اور جائز باتوں پر بھی غصہ کرتے ہیں۔ایسے میں تلقین کی گئی کہ ان کی بات کاجواب تعظیم وتوقیر کے ساتھ دیا جائے۔ان کی تحقیر و توہین نہ کی جائے ۔ سعید بن مسیب نے فرمایا کہ خطاکار زر خرید غلام جس طرح اپنے سخت مزاج اور ترش رو آقا سے بات کرتا ہے، اس سے بھی نرم لہجے میں بات کی جائے ۔

وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ

ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکے رہنا ۔حضرت عروہؓ سے کسی نے پوچھا کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ والدین کے کسی بھی عمل پرجو آپ کوناگوار گزرے، ترچھی نگاہ سے بھی نا دیکھا جائے،بلکہ ان کے ساتھ تواضع اور انکساری کا معاملہ کیا جائے ۔
پہلے قولاً والدین کو سخت سست کہنے اور اف تک کہنے سے منع کیا گیا ۔پھر عملاً ایسا رویہ اختیار کرنے سے منع کیا گیا ،جس سے والدین اپنی توہین محسوس کریں ۔ نظروں کا اتار چڑھاؤ انسان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے ۔

 وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا

 قرآن حکیم نے والدین کی دل جوئی اور راحت رسانی کے احکام کے ساتھ انسان کو اس کا عہد ِطفولیت یاد دلایا کہ کسی وقت تم اپنے والدین سے زیادہ اس کے محتاج تھے ۔ جس قدر وہ آج تمہارے محتاج ہیں ۔ تو جس طرح انھوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقل باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا، اب جب ان پر محتاجی کا وقت آیا ہے تو عقل و شرافت کا تقاضا ہےکہ ان کےسابق احسان کا بدلہ بحسن و خوبی ادا کرو۔اس کے ساتھ تاکید کی گئی کہ خالی ادب ، تواضع اور شفقت پر اکتفاء نہ کرو، کیونکہ یہ سب چیزیں فانی ہیں بلکہ دعا بھی کرو کہ اللہ تعالی اپنی رحمت سے ان کی دستگیری کرے ۔
حدیث سے یہ بات ثابت ہےکہ نیک اولاد اپنے والدین کے لیےصدقہ جاریہ ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہیکہ جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں۔
1 : صدقہ جاریہ یعنی کنواں کھودوا دینا، مسجد مدرسہ بنا دینا وغیرہ
2 :وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہو۔
3 :نیک اولاد جو اس کے لیےدعا کرے۔ (مسلم: 4223)
والدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے حق میں دعا ظاہر ہے ،لیکن اگر مسلمان نہ ہوں تو ان کی زندگی میں یہ دعا اس نیت سے جائز ہےکہ اے اللہ! تو ان کو اسلام کی ہدایت دے ۔کافر کے حق میں ہدایت سے بڑھ کر کوئی رحمت نہیں،لیکن اگر والدین کی وفات حالت کفر میں ہوں تو ان کے لیے دعاء رحمت و مغفرت جائز نہیں ۔ قرآن کریم میں رب کا فرمان ہے:

مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ لَوۡ كَانُوۡۤا اُولِىۡ قُرۡبٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ ۞(سورۃ التوبة : 113)

( نبی اور اہل ایمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، اگرچہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، جبکہ ان کے لیے یہ واضح ہو چکا ہو کہ وہ جہنّمی ہیں۔)
موجودہ دور نفسا نفسی اور مادیت پرستی کا دور ہے ۔دنیا کی چاہت اور طلب نے ہم کو بے حس بنا دیا ہے ۔رشتوں کی اہمیت اور قدروقیمت کھو چکی ہے۔اب اولاد اپنے career کو لے کر اتنی حساس ہےکہ والدین کو اولڈ ہومز میں چھوڑ دیتی ہے ،یا اگر ساتھ رکھتی ہے تو ردی کے سامان کی طرح والدین گھر کے کونے کھدرے میں پڑ ے ہوتے ہیں ،جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔یہ مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا نتیجہ ہے ۔جہاں اولاد والدین کے ساتھ ایک دن گزارکر ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا حق ادا کردیا ۔
تاریخی اعتبار سے مدرز ڈے کاآغاز 1870 ءمیں جولیا وارڈ نامی عورت نے اپنی ماں کی یاد میں کیا تھا۔بعد ازاں 1877 ءمیں امریکہ میں پہلا مدرز ڈے منایا گیا ۔ تب سے اب تک یہ مغربی تہذیب وثقافت کا حصہ ہے۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب مسلم معاشرے میں مغرب کی اندھی تقلید کا چلن عام ہو رہا ہے ۔ ہماری نوجوان نسل بھی سال میں ایک دن مدرز ڈے اور فادرز ڈے مناکر، سوشل میڈیا پہ والدین کے ساتھ رنگ برنگی سیلفیاں اپ لوڈ کر کے خودکو والدین کے حقوق سے بری الذمہ کر لیتی ہے ۔ہمارا اسلام تو ہمیں یہ تعلیم دیتاہےکہ ہمارا ہردن ، دن کا ہر لمحہ ، ہر سیکنڈ مدرز ڈے اور فادرزڈے ہے ۔ایک دن منا لینے سے ہم والدین کے حقوق سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ۔ہماری زندگی کا ہر لمحہ ان کی خدمت کا تقاضا کرتا ہے ۔والدین کی خدمت اور رضا میں ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔اللہ پاک ہمیں مغربی رسوم کی اندھی تقلید سے بچائے اوراسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا بنائے !

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے