مئی ۲۰۲۳
زمرہ : النور

معمر اور شعیب نے ابن شہاب زہری سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے حدیث بیان کی ، انہیں عروہ بن زبیر نے بتایا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا :
’’میرے پاس ایک عورت آئی ، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں ، اس نے مجھ سے ( کھانا ) مانگا تو اسے میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کچھ نہ ملا ۔ میں نے وہی اس کو دے دی ، اس نے وہ کھجور لے کر اپنی دو بیٹیوں میں تقسیم کر دی اور خود اس میں سے کچھ نہ کھایا ، پھر وہ کھڑی ہوئی ، اور وہ اور اس کی دونوں بیٹیاں چلی گئیں ، پھر نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس عورت کی بات بتائی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جس کسی پر بیٹیوں کی پرورش کا بار پڑ جائے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ اس کے لیے جہنم سے ( بچانے والا) پردہ ہوں گی ۔‘‘(صحیح مسلم: 6694)
اسلام نے عورت کو جس قدر عزت اور مقام عطا کیا، وہ دنیا کے کسی مذہب نے نہ کسی قوم نے دیا ہے ۔عورت کا ہر روپ اپنی جگہ باعث عزت و حرمت ہے۔خواہ وہ ماں ہو ،بہن ہو یا بیٹی؛زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش باعث شرم وعار ہوا کرتی تھی ۔اس بات سے دنیا واقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کا کیا حال ہوا کرتا تھا،بیٹی پیدا ہونے پر گھروں میں ماتم چھا جایا کرتا تھا ۔اس کا حق یہ بھی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کو زندہ رہنے دیا جائے ۔بہت سے شقی القلب خود اپنے ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر اس کا خاتمہ کر دیتے تھے ،یا اس کو زندہ دفن کر دیتے تھے ان کا یہ حال قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہے:
’’جب ان میں سے کسی کو لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو وہ دل مسوس کے رہ جاتا ہے،لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے ،پھر ان کو منہ نہیں دکھانا چاہتا ،اس برائی کی وجہ سے جو اسے خبر ملی ہے،سوچتا ہے کیا اس نومولود بچی کو ذلت کے ساتھ با قی رکھے یا اس کو کہیں لے جاکے مٹی میں دبا دے۔‘‘(النحل)
ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے :

وَاِذَا الۡمَوۡءٗدَةُ سُئِلَتۡ۞بِاَىِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ‌ۚ ۞ ( التكوير آیت نمبر 8,9)

(جب زندہ دفن کی جانے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا؟)
اسی فضا اور پس منظر کو پیش نظر رکھ کر بیٹیوں کے بارے میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات سےامت کی رہنمائی فرمائی،چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس بندے نے تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو ہی بیٹیوں یا بہنوں کا بار اٹھایا، اور ان کی اچھی تربیت کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، اور پھر ان کا نکاح بھی کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بندے کے لیے جنت کا فیصلہ ہے۔(سنن ابو داود: 1704)
بعض روایات میں ہے کہ آپ نے تین بیٹیوں اور دو بیٹیوں پر جنت کی بشارت دی تو کسی نے عرض کیا :’’اگر کسی کی ایک ہی لڑکی ہے۔‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی جنت کی بشارت دی ۔قرآن فرماتا ہے:

يَهَبُ لِمَنۡ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنۡ يَّشَآءُ الذُّكُوۡرَ ۞

(الشورى آیت نمبر 49)

(وہ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے ،جس کو چاہتا بیٹے عطا کرتا ہے۔)
اس آیت میں اللّٰہ نے بیٹیوں کو مقدم فرمایا، جس سے ان کی بیٹوں پر فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔طرح طرح سے اسلام میں بیٹی کے والدین کو تسلی و بشارت دی گئی ہے، تاکہ دنیاوی لحاظ سے اگر چہ بیٹی کی پرورش و تربیت بار محسوس ہو بھی تو آخرت کے اجر عظیم کی تسلی رہے ۔حدیث مبارک میں ہے :
’’مبارک ہے وہ عورت جس کے پیٹ سے پہلی مرتبہ بیٹی پیدا ہو۔‘‘(قرطبی،جلد : 8،باب : 16)
اسلام نے بیٹیوں کو نعمت عظمیٰ قرار دیا ہے۔انھیںکے بطن سے اولیاء اللہ پیدا ہوتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب آپ کی بیٹی سے چلا ۔اگر بیٹیاں مبارک نہ ہوتیں تو اللہ اپنے سب سے پیارے نبیﷺ کا نسب بیٹی سے نہ چلاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کو اتنا بڑا مقام عطا کردیا کہ کہیں اسے جہنم سے خلاصی کا ذریعہ قرار دیا ہے، اور کہیں جنت کے دخول کا سبب اور سب سے بڑی بات یہ کہ قیامت کے دن آپ کی معیت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔
زمانۂ جاہلیت میں جو تھا سو تھا، ہمارے یہاں آج بھی اکثر گھرانوں میں یہ رواج چلا آرہا ہے کہ لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی پیدائش پر نا خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔یا بعض والدین بیٹے بیٹیوں کے ساتھ برتاؤ میں تفریق کرتے ہیں ۔ان کی اشیاءضرورت میں کمی کرتے ہیں ۔بیٹیوں کو گھر کے کام کاج تک محدود رکھ کر اسکول و تعلیم کا مستحق صرف بیٹوں کو سمجھتے ہیں۔
آپ ﷺ نے ایسے کسی بھی قسم کے طرز عمل پر ناپسندیدگی جتائی ہے۔ارشاد ہے کہ جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی،انہیں حسن تربیت سے مالامال کیا، یہاں تک کہ وہ سن شعور تک پہنیں۔قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح آئیں گے،جس طرح میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں ۔اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی ملا کر دکھائی ۔
(صحیح مسلم،جلد: 32،6364)
ایک دوسری حدیث مبارکہ ہے کہ جس کےیہاں لڑکی پیدا ہو پھر وہ نہ تو اسے کوئی ایذا پہنچائے اور نہ اس کی توہین اور ناقدری کرے اور نہ محبت اور برتاؤ میں لڑکوں کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ لڑکی کے ساتھ حسن سلوک کے صلے میں اسکو جنت عطا فرمائے گا۔(مسند احمد ،مستدرک حاکم)
.لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک میں تفریق تو عام چیز ہے ،لیکن اکثر گھرانوں میں اب اس سلسلے میں خاصی بیداری بھی آچکی ہے ،الحمدللہ ۔
بیٹیوں کے ساتھ ایک نا انصافی جو کھلے عام کی جاتی ہے وہ بھی صرف غیر دیندار یا تعلیم سے ناواقف لوگوں کے یہاں نہیں بلکہ بڑے بڑے عالم دین اور مبلغین بھی اس میں ملوث ہوتے ہیں ،اوروہ ناانصافی ہے بیٹی کو حق وراثت سے محروم رکھنا ۔
ہمارے یہاں یہ ایک عام چیز ہے کی بھائی بہنوں کا اور باپ بیٹیوں کا حصہ جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے، دینے میں آنا کانی کرتے ہیں، بلکہ بعض تو چاہتے ہیں کہ بہن بیٹیاں بذات خود اس سے دست بردار ہو جائیں، اور جائداد سے ہاتھ جھاڑ کر یہ اقرار کر لیں کہ ہم نے بھائیوں کو ہبہ کر دیا ۔ایسا کرنا شرعاً غلط اور حرام ہے۔ میراث کی تقسیم خود اللہ تعالیٰ نے کر کے دی ہے اور بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو ان کے حصے کے بقدر حقدار بنایا ۔
جہیزاورہندوانہ رسم ورواج والے لین دین سے ان کا حق ساقط نہیں ہوتا،یا حصہ لے لینے سے ان کا رشتہ ختم نہیں ہوتا جیسا کہ معاشرے میں رائج ہے۔ایسا کرنا مذکورہ بالا احادیث (بیٹے بیٹیوں میں تفریق)کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے