مئی ۲۰۲۳

اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو تخلیق کیا، اور ان میں سب سے افضل و اشرف مخلوق انسان کو پیدا کیا اور انسانوں میں دو اصناف بنائیں : مرد اور عورت۔
ان کے اندر کئی طرح کے جذبات و میلانات ودیعت کیے اور ان کی تسکین کے لیے حدود متعین کیے، ان میں سے ایک جنسی میلان ہے۔اس کی تسکین کے لیے نکاح کی حد مقرر کی۔ نکاح کے شرائط اور اصول و ضوابط، زوجین کے حقوق و فرائض اور دائرۂ کار مقرر کیے۔ نکاح کے ذریعے ایک اجنبی مرد اور اجنبی عورت پاکیزہ بندھن میں بندھتے ہیں، اور ایک خاندان وجود میں آتا ہے۔ نکاح کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد نسل انسانی کا تسلسل ہے۔
خاندان سماج کا بنیادی ادارہ ہے۔ اس ادارے میں سربراہ کی حیثیت مرد کو حاصل ہے۔ مرد اور عورت اس ادارے کو ایک خوش گوار ادارہ اسی صورت میں بنا سکتے ہیں جب وہ حقوق اور فرائض میں اعتدال رکھیں۔ حقوق کی طلب سے زیادہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہوں ۔مستحکم اور مضبوط خاندان کی بنیاد تعلقات کی خوش گواری یعنی محبت، عزت، احترام، عفو و درگزر اور ایثار و قربانی جیسی صفات پر استوار ہوتی ہے ۔ضروری ہے کہ گھر میں شوہر اور بیوی کے تعلقات، اولاد اور والدین کے تعلقات اور بھائی بہنوں کے تعلقات مضبوط ہوں۔ ایک فرد سماج میں بہتر کارکردگی اسی وقت انجام دے سکتا ہےجب وہ ایک پرسکون گھر کے ماحول میں پرورش پا رہا ہو۔ اگر گھر میں اطمینان، فرحت، الفت و محبت ہو تو وہ باہری دنیا میں بھی یہی کچھ تقسیم کرنے والا ہوگا اور اپنی سماجی اور معاشی زندگی میں بہتر طور پر کام کر سکے گا، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو وہ گھر اور سماج کہیں بھی خوشیاں بانٹنے والا نہیں بن سکے گا اور ذاتی زندگی میں بھی اپنے فرائض کی انجام دہی بہتر طریقے سے نہیں کر سکے گا ۔
آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، وہاں خاندانی نظام بری طرح متاثر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ زیادہ دور نہیں، صرف ایک نسل پیچھے جاکر اپنے خاندانی نظام اور اقدار پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ اور خاندانی نظام میں کتنی تبدیلیاں آگئی ہیں؟ زوجین میں محبت و مودت اوروفاداریاں،والدین اور بزرگوں کا احترام، بھائی بہنوں کی آپسی محبت،مل جل کر ایک دوسرے کی تکالیف اور پریشانیوں کو دور کرنا، گھر کے افراد کی مشکلات کو دور کرکے خوشی اور اطمینان محسوس کرنا، باپ کا اپنی اولاد پر محنت کی کمائی کو خرچ کرنا اور ماں کا اولاد کی پیدائش اور پرورش میں اپنے جسم و جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا خون جگر پلانا وغیرہ ، موجودہ دور میں اکثر گھروں میں یہ سب باتیں قصہ ٔپارینہ بن گئی ہیں۔
خاندان کے اس انتشار پر غور کرتے ہیں تو اس کے کچھ اسباب سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ امت مسلمہ کے اندرون میں پائے جاتے ہیں اور کچھ کا تعلق بیرون سے ہے۔ امت مسلمہ میں خاندانوں کے انتشار کا اہم سبب دینی اور اسلامی تہذیب سے دوری ہے۔تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ جب تک امت مسلمہ اللہ کی کتاب قرآن مجید اور سنت رسول پر عمل پیرا رہی تب تک نہ کسی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوئی اور نہ ان کے عائلی نظام زندگی میں کوئی تہذیب شگاف ڈال سکی۔
دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ ہندوستانی تکثیری سماج کے اثرات کے زیرِ اثر بہت سی برائیوں اور اسلام مخالف رسوم روایات کو قبول کیا گیا اور دینی و اسلامی اقدار و روایات کو چھوڑ دیا گیا، جیسے عورتوں کا مقام و مرتبہ، وراثت کا اسلامی نظام، جہیز کی لعنت وغیرہ ۔
تیسرا اہم سبب جس نے امت مسلمہ کے خاندانی نظام کو درہم برہم کیا وہ دینی تعلیمی نظام سے دوری اور مغربی تعلیمی نظام کو اپنانا ہے ، جس میں مرکزیت نہ انسان کو حاصل ہے اور نہ اللہ کو، بلکہ اس کا اصل کام سرمایہ داروں کے لیے ورک فورس تیار کرنا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی تہذیبی اقدار کو متاثر کرنے میں اسی تعلیمی نظام اور اس سے بننے والی سوچ کا بڑا دخل ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے اسباب ہیں جن کا تعلق عالمی سطح پر ہونے والی سرگرمیوں اور نظریات سے ہے ، جس میں سرمایہ داری، مادیت اور انفرادیت وغیرہ ہیں۔ ان نظریات نے لوگوں کے طرز فکر اور عقائد کو متاثر کیا ہے اور لوگوں کو دولت اور مادی فوائد حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا دیا ہے ،اور ان کا حصول ہی خوشی اور کامیابی کی اصل بنیاد قرار پایا۔اس کی وجہ سے خاندان کی اکائی ،جس کی بنیاد محبت اور ایثار و قربانی پر قائم ہے۔ لوگ شادی اور بچوں کی پرورش کو بھی مالی نفع و نقصان کے پیمانوں پر ناپنے لگے۔خاندان کے بزرگ بوجھ بن گئے ، کیونکہ مادی مفہوم میں اب وہ بےکار ہو چکے۔ مختلف تحقیقات کے مطابق گھریلو تشدد اور طلاق کے واقعات میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ مادی نظریہ کی وجہ سے ہے ، جس نے لوگوں کے سوچنے کے انداز کو بدل دیا ہے۔ سرمایہ داری، مادہ پرستی اور انفرادیت یہ تمام ایک دوسرے سے باہم متعلق تصورات ہیں۔انفرادیت پسندی میں لوگ بس اپنی پسند اور ناپسند پر ہی توجہ دیتے ہیں۔ اس چیز نے نوجوانوں میں ’’میری زندگی میری مرضی‘‘ کا تصور پیدا کردیا۔ لوگ بہت زیادہ خود غرض بنتے گئے۔ والدین اولاد اور دوسرے رشتہ داروں کو ایک پریشانی سمجھنے لگے۔جدید دنیا کی ایک اور نظریاتی بنیاد (Permissivness) یا اباحیت پسندی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر وہ چیز جائز ہے جو انسان کو لذت اور خوشی سے ہم کنار کرتی ہو، یا دل اس کی طرف راغب ہوتا ہو۔ اس نظریے نے بے شمار ایسی چیزوں کو قانونی جواز فراہم کیا ہے ،جو گذشتہ زمانے میں مذہبی، معاشرتی اور سماجی اقدار کے مطابق غلط اور ناجائز تھیں اور انھیں برائی سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریے نے انسان کے جذبۂ جنس کو تسکین دینے والی چیزوں کو نہ صرف جائز اور قانونی حیثیت دی ، بلکہ ان کو فروغ بھی دیا۔
پہلے مرحلے میں شادی کے بغیر جنسی زندگی کا رواج شروع ہوا ، جسے’’لیو ان رلیشن شپ‘‘ کا نام دیا گیا ، جس کے نتیجے میں جنسی آوارگی عام ہوگئی اور خاندان کا ادارہ تیزی سے متاثر ہونے لگا۔دوسرے مرحلے میں جنسی رجحانات کا تصور عام ہوا۔ فلسفیوں نے اسے انصاف اور مساوات کے تصور سے جوڑ ڈالا۔ کہا گیا کہ جنسی تعلق مرد اور عورت کے درمیان ہو، یہ ضروری نہیں، بلکہ مرد اور مرد یا عورت اور عورت کے درمیان بھی قائم ہو سکتا ہے، بلکہ مرد اور مرد یا عورت اور عورت مل کر ہم جنس خاندان بناسکتے ہیں ۔اب تیسرے مرحلے میں مشینوں اور مصنوعات کے ساتھ جنسی تعلق کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے۔ جنسی کھلونے اور اس مقصد کے لیے بنائے گئے روبوٹ اب مغربی معاشروں میں ہی نہیں ، بلکہ مشرقی معاشروں میں بھی عام ہونے لگے ہیں۔ان سب بےہودہ تصورات اور رواجوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام پوری طرح تباہ ہو گیا۔ خاندان کا خاتمہ انسانی تہذیب ہی کا نہیں، بلکہ انسانی نسل کا خاتمہ ہے۔ ان حالات کے پس منظر میں قرآن مجید کی سورہ النساء کی آیت نمبر119 ذہن میں گونجتی ہے، جہاں شیطان نے اللہ تعالیٰ  سے آدم کی تخلیق کے وقت کہا تھا:

 فلیغیرن خلق اللہ

یعنی یقیناً خدائی ساخت میں ردوبدل کروں گا۔ آیت کے اس حصے کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ:
’’ انسان کسی چیز سے وہ کام لے، جس کے لیے خدا نے اسے پیدا نہیں کیا ہے اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے۔‘‘
اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں مثلا ًعمل ہم جنس پرستی ، جنس تبدیل کرنا، ضبط ولادت، رہبانیت، برہمچاریہ، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا، مردوں کو خواجہ سرا بنانا، عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔یہ اور اس طرح کے دوسرے بےشمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کررہے ہیں، دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالق کائنات کے ٹھہرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔
خاندان کے انتشار کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ الٰہی تعلیمات کو چھوڑ کر خواہشات نفس کی پیروی کی جائے تو اسی طرح تباہی و بربادی پیدا ہوتی ہے۔
الٰہی تعلیمات میں فطری، عملی، سادہ اور متوازن خاندانی نظام کو پیش کیا ہے اسلام ہی اب خاندان کا آخری قلعہ باقی رہ گیا ہے۔ان حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ اسلام کے خاندانی نظام کو موضوع بحث بنائے خاندان کی اصلاح کے سلسلے میں بیداری لائے۔سب سے پہلے تو ہم اسلام کے خاندانی نظام کو اس کی پوری روح کے ساتھ اچھی طرح سمجھیں۔س کی عائلی تعلیمات، عائلی زندگی کی قدریں، عائلی زندگی سے متعلق احکام، اسلامی شریعت کے مقاصد ان سب کا گہرا فہم حاصل کریں۔ دوسرے سماجی تبدیلی کے لیے جو علم اور صلاحیت درکار ہے وہ حاصل کریں۔مغربی تہذیب کو پھیلانے کے لیے نہایت منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں، ان کا مقابلہ روایتی طریقوں سے ممکن نہیں، اس کے لیے سماج اور سماجی مسائل کا شعور اور سماجی تبدیلی کے وسائل پر قدرت ضروری ہے ۔ذرائع ابلاغ میں میڈیا اور سوشل میڈیا ، سیمینار، ورکشاپ، ڈبیٹ، جمعہ کے خطبات کا مؤثر استعمال ہو۔مسلم معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کی وقت پر شادی کی جائے اور شادی کو آسان بنایا جائے، غیر ضروری رسم ورواج کو ختم کرکے عورتوں کو اسلام کے عطا کردہ حقوق سے واقف کروایا جائے۔ مسلم خواتین کو مغربی طرز زندگی کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے ۔مستحکم خاندان کے لیے سماجی سپورٹ کا نظام بھی قائم کیا جائے۔مثلاً: شرعی پنچایتیں، کاؤنسلنگ کے مراکز، شادی سے قبل تربیتی پروگرام، وراثت کی تقسیم میں مدد کا نظام وغیرہ؛مسلمانوں کو عملاً اسلامی خاندان کا نمونہ پیش کرنا ہوگا، جس کی برکتوں اور منفعتوں کو ساری دنیا اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ سکے اور محسوس کرسکے ۔

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے