مئی ۲۰۲۳

ہمیشہ کی طرح آج بھی کینٹین میں چائے کے عاشقوں کا جم‌ِ غفیر تھا۔ ہاسٹل کے گیٹ پر بائیں جانب چھوٹی سی کینٹین میں آپا کے ہاتھ کی چائے بہت مشہور تھی ،اور وہاں مغرب بعد چکر لگانا میرا روز کا معمول بن گیا تھا‌۔
بارش اب بند ہوچکی تھی ، سیاہ بادل کی اوٹ میں دھندلا آدھا چاند بہت پُرکشش لگ رہا تھا ، ہلکی سرد ہوا کے جھونکوں میں گھٹن اب کم محسوس ہو رہی تھی، میں دائیں جانب درخت کے نیچے پڑی پرانی بنچ کی طرف بڑھ گئی، جس پر میری تنہائی کے اکثر اوقات گزرتے تھے۔
شاید اُس سے اُنسیت کی یہی وجہ بھی تھی۔ خیر، بنچ کی پُشت پر ٹیک لگائے چائےکی چسکیوں کے ساتھ اِس پُر لطف نظارے کو بیزاریت کے ساتھ محسوس کررہی تھی۔پتہ نہیں کیوں بار بار زبان پر ’’ لاریب کاظمی‘‘کا یہ مصرع یاد آرہا تھا:
بروز حشر خدا سے لپٹ کر روئیں گے
مختلف تخیلات میں محو ہی تھی کہ اچانک پیچھے سے سسکیوں سے بھری ہلکی سی آواز نے دل کا شور بڑھا دیا :’’ امی! پلیز آپ ابو سے منع کریں کہ کم از کم باہر لوگوں کے سامنے تو اپنا رویہ میرے ساتھ صحیح رکھیں۔‘‘ طبیعت پر گراں گزرنے والا یہ جملہ پیچھے پلٹنے پر بے چین کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ آواز پہلے بھی ایک دو بار سنی جا چکی ہے، اور ہر بار یہی درد بھی محسوس ہوا ہے ، فون رکھتے ہی میں اس کی طرف بڑھی ، روکتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ میں نے اُس سے خیریت دریافت کرنے کی کوشش کی تو وہ جلدبازی میں’’ ہمم‘‘ کہہ کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگی ، ممکن تھا کہ اگر مزید کچھ بولتی تو اُس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا۔
کافی اصرار کرنے پر ساتھ بیٹھنے کے لیے راضی ہوگئی ۔ اب ہم دو نا آشنا لوگ ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ سوجی ہوئی سرخ آنکھیں ، غمگین سا اداس چہرہ حقیقت میں خوبصورت لگ رہا تھا۔خیر، میں سکوت کو توڑتے ہوئے نام دریافت کیا تو وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بتایا۔
’’ ماہین ‘‘ارے واہ! یہ تو چاند سا خوبصورت چہرہ کی طرح تمھارا نام‌بھی حسین ہے ، اُس کے سامنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں؟ اس کی آنکھوں میں اب آنسو اُمڈ چکے تھے، جسے وہ چھپانے کی ناکام کوشش کیے جارہی تھی۔
ماہین ؟ چاند کی طرح خوبصورت ؟ حسین ؟ اُس کا یہ سوالیہ انداز کچھ عجیب سا لگ رہا‌ تھا۔خوبصورت نام رکھ لینے سے خوبصورت قسمت تو نہیں ہو سکتی ناں۔ وہ اب ایک آہ بھرتے ہوئےماضی کے دریچے میں قدم رکھ چکی تھی۔آج سے چوبیس سال پہلے میں اپنی ماں کی گود میں چاند سی صورت کے ساتھ آئی تو میرے باپ کے چہرے پر گہن لگ گیا تھا ، چاند کے ارد گرد کے روشن ستارے میری ماں کے سر پر گردش کرنے لگیں ، امی ایک اور سخت آزمائش میں مبتلا ہو چکی تھیں ، جہاں لوگ چاند کی خوبصورتی پر شاعری کرتے ہیں ،وہیں میری پیدائش پر میرے باپ نے مرثیہ پڑھنا شروع کر دیا۔
وجہ یہ کہ میں اپنے ماں کی وہ تیسری بیٹی جس نے اپنے باپ کے بیٹے کی امید کو پھر سے توڑ دیا تھا۔ بیٹے کے خواہش کی وجہ سے ابو پہلے ہی بیٹیوں کی پیدائش پر امی کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کر لیے تھے۔ ہم تینوں اُن کے لیے رحمت نہیں ،زحمت کا سامان بن چکے تھے۔ہم آج تک سر پر شفقت والے ہاتھ کے لمس سے محروم رہیں ، اُن کی آنکھوں میں امی سے لےکرہم تینوں بہنیں خوشی دیکھنے کے لیے ترستے رہیں، اور جب بھی اس رویے پر امی سے کوئی شکایت کی تو وہ خاموش رہیں۔
ماں تو ماں ہوتی ہے ،ہماری خواہشوں کی تکمیل کے لیے محلے کے بچوں کو قرآن اور اردو پڑھاتی تھی، جس سے ہم پاس کے مدرسے میں ماہانہ کچھ روپیے فیس ادا کر تعلیم حاصل کررہے تھے۔باپ کے نفرت بھرے گھٹن زدہ ماحول میں آہستہ آہستہ بڑے ہوئے ، گھر میں پیسے کی جہاں تنگی تھی، وہیں شعور کے ساتھ علم کی تشنگی بھی بڑھتی گئی۔ دونوں بڑی بہنیں ماموں کے ضد کرنے پر تعلیم حاصل کرنے کے لیے نانی کے گھر چلی گئیں، اور میں پڑھائی کے ساتھ کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر امی کا بوجھ ہلکا کرنے کے تگ ودو میں لگ گئی۔بڑے ہوتے ہی سنجیدگی کے ساتھ ہمیشہ ابو سے بیٹے کی کمی دور کرنے کی کوشش میں لگی رہتی،لیکن کہتے ہیں ناں کہ جنم لینے والی پہلی محبت اور نفرت کا اثر دل کے کسی نہ کسی کونے میں رہتا ہی ہے۔
پھر ایک دن میں امی کے سامنے یونیورسٹی میں داخلے کے لےاپنی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ سننا تھا کہ امی بگڑتے ہوئے شروع ہوگئیں’’ تمھیں پتہ ہے ایسی جگہوں پر داخلےمیں کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟اور وہاں وہی لوگ پڑھتے ہیں جن کے سر پر باپ اور بھائی کا مضبوط سہارا ہو۔ ‘‘اُس وقت ایسا محسوس ہوا کہ شاید امی کو بھی بیٹے کی کمی کا دکھ ہے۔ لیکن میں پھر ہمیشہ کی طرح چُپ چاپ سُنتی رہی۔
روز روز کے باپ کے طعنوں سے عاجز آکر میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی مشقت برداشت کرنی پڑے ،مجھے اس گھر سے نکلنا ہے۔ یہی سوچتے ہوئے میں الماری میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔ پتہ ہے وہ کیا چیز تھی؟ میرے ٹیوشن کے پیسے سے خریدی ہوئی ایک چھوٹی لیکن میرے لیے قیمتی جمع پونجی تھی ’’ سونے کی بالیاں‘‘ ہاں !یہ وہی بالیاں تھیں جو مجھے بہت عزیز تھیں، جسے لےکر میں سنار کے پاس پہنچ گئی ، ضد کرنے پر مناسب دام میں بکنے کے بعد اُس پیسے سے امی کی نافرمانی کرتے ہوئے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
خیر، کچھ مہینے سکون کی سانس لی ہی تھی کہ پھر پریشانیوں نے آدبوچا فیس کے لیے مزید رقم کی ضرورت پڑ گئی ، امی سے کہتی تو ہاتھ سے تعلیم جانے کا خدشہ اور لوگوں سے بولتی تو عزت جانے کا خدشہ۔ بچوں کی گرمی کی چھٹی ملتے ہی ٹیوشن کی بچی کھچی رقم خرچ ہو چکی تھی ، باہر کسی ایسے کام کی تلاش تھی جس کو کرتے ہوئے خود کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی کشمکش کی زندگی میں الجھی ہوئی تھی کہ اچانک ذہن میں خیال آیا کہ ابو کو کال کروں۔ سلام کرتے ہی وہی پرانے سخت رویے کے ساتھ جواب آیا کہ اب کون سی مصیبت آچکی ہے ؟بولو !‘‘
میں نے ڈرتے ہوئے بہت ہمت کے ساتھ کہا:’’ابو فیس بھرنی ہے ،پیسوں کی سخت ضرورت ہے، جس کی وجہ سے کام کی تلاش ہے، مل جائے گا تو کچھ پیسے آجائیں گے ۔‘‘
کچھ دیر خاموشی کے بعد ابو کا جواب آیا:’’ میرے پھلوں کی دوکان کو شام تک سنبھالنا ہے، اور مہینہ مکمل ہوتے ہی تنخواہ لے لینا۔‘‘ یہ سنتے ہی میرا دل پھر پرانے دکھوں سے بھر آیا، لیکن میں دوسرے دن کلاس کے بعد دوپہر سے پھلوں کی دوکانوں کو ابو کی ڈانٹ ، کچھ لوگوں کی خراب نظروں اور مجھ پر کستے برے جملے کو سنتے ہوئے کاموں میں مشغول رہتی اور شام کے وقت آنے سے پہلے ابو کے سامنے پیسوں کا حساب کرتی، جس کے باوجود وہ مشکوک نگاہوں سے دو تین بار پوچھتے :’’پیسے پورے دئیے ہیں نا ںتم‌ نے ؟‘‘ اور میں مسکراتے ہوئے ’’جی ‘‘کہہ کے خاموش ہوجاتی۔
اِدھر یہ درد بھری داستان ختم ہورہی تھی اور اُدھر آسمان پر چاند ڈوب چکا تھا ، ہوا میں گھٹن پھیل چکی تھی ، ماحول میں پہلے سے زیادہ سکوت چھا چکا تھا ، مزید کچھ کہنے اور سننے کی صلاحیت اور برداشت کی قوت ختم ہو چکی تھی ، اور میرا ذہن منتشر ہوتے بہت رفتار سے ماضی کی طرف بڑھنے لگا ،جہاں آواز سے شناسائی حاصل ہوئی تھی۔ ہاں! وہی سنار کی دوکان پر اس لڑکی کی آنکھوں میں نمی اور دو دن پہلے پھل خریدتے وقت اس کی لرزتی ہوئی آواز جو کانوں میں پڑی تھی یہ وہی تھی۔اور میں اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے شعر کو مکمل کیا:

 جہاں میں کوئی بھی کاندھا نہیں ملا
سو ہم بروز حشر خدا سے لپٹ کر روئیں گے

٭٭٭

پھر ایک دن میں امی کے سامنے یونیورسٹی میں داخلے کے لےاپنی خواہش کا اظہار کیا۔

یہ سننا تھا کہ امی بگڑتے ہوئے شروع ہوگئیں

’’ تمھیں پتہ ہے ایسی جگہوں پر داخلےمیں کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟ اور وہاں وہی لوگ پڑھتے ہیں جن کے سر پر باپ اور بھائی کا مضبوط سہارا ہو۔ ‘‘اُس وقت ایسا محسوس ہوا کہ شاید امی کو بھی بیٹے کی کمی کا دکھ ہے۔ لیکن میں پھر ہمیشہ کی طرح چُپ چاپ سُنتی رہی۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. سیدہ ایمن

    بہت عمدہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے