مئی ۲۰۲۳

 علیزہ اور راحیلہ اس دن کچھ ضروری سامان لینے شاپنگ مال گئی ہوئی تھیں۔ وہیں ان کی ملاقات فریا کی والدہ رخسار اور اس کی تائی سے ہوئی۔ سلام دعا کے بعد خیریت دریافت کی۔ 
’’ہمیں بہت افسوس ہے فریا کا۔‘‘ راحیلہ نے فریا کی والدہ اور اس کی تائی سے کہا۔
’’جب سے فریا گم ہوئی تب سے ہم سب پریشان تھے۔ پھر علیزہ نے اس واقعے کا بتایا، تو ہم لوگ مزید پریشان اور متفکر ہوگئے۔ نیوز پیپر میں بھی خبریں آرہی تھیں فریا کی۔‘‘ راحیلہ تول تول کر الفاظ ادا کررہی تھیں۔
’’جی۔‘‘ رخسار کی آنکھیں نم ہوئیں۔
’’اب تو بس اسی امید پر جیتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور فریا ہمیں مل جائے۔ یہ سب ایک خواب ہو۔‘‘ فریا کی تائی کہہ رہی تھیں۔
’’فریا کو کوئی پریشانی تھی کیا؟ وہ شخص اسے مجبور کررہا ہو کسی بات کے لیے،ڈرا دھمکا رہا ہو۔‘‘ راحیلہ نے ان سے پوچھا۔
’’پتہ نہیں۔ ہماری خود سمجھ سے باہر ہے۔‘‘فریا کی تائی کہہ رہی تھیں۔
’’فریا کو گھر میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ کالج میں شایدوہ لڑکا اسے پریشان کرتا ہو۔‘‘ رخسار نے کہا۔
’’ علیزہ بیٹا! ایسا کچھ ہوا تھا کالج میں؟‘‘
’’نہیں آنٹی۔ فریا پورا وقت ہمارے ساتھ ہی رہتی تھی۔ ایسا کبھی کچھ نہیں ہوا۔‘‘
’’میں نے تو منت مانگی تھی فریا کے لیے۔ کتنے چڑھاوے چڑھائے تھے۔ کتنی دعائیں مانگیں، لیکن پھر بھی فریا واپس آنے کو تیار ہی نہیں ہوئی۔‘‘ فریا کی تائی نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’معاف کیجیے بہن،لیکن قبر پر دعائیں مانگنے، یا چڑھاوے چڑھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ قبر کیسے ہماری حاجتیں پوری کرسکتی ہے؟‘‘راحیلہ کہنے لگیں۔
’’تمھارا ربّ کہتا ہے:
’’مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘ (القرآن)
ولی اللہ کو پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ بے شک ولی اللہ اور تمام بزرگان دین نے اسلام کو پھیلانے کی بہت کوششیں کیں۔ بر صغیر ہند و پاک میں اسلام کو عام کرنے میں اولیاء و صوفیاء کرام نے خوب جدوجہد کی۔ اس بات کے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم تک دین پہنچانے میں ان کی بھی کاوشیں رہی ہیں۔ ان کی دعوت خود وحدہٗ لا شریک تھی،لیکن ولی اللہ خود اللہ سے مانگتے تھے، اپنی حاجتیں پوری کرنے کے لیے اللہ کو پکارتے تھے۔ تو پھر آپ لوگ کیوں ان کی قبر پر مانگتے ہو؟‘‘
’’ہم اپنے دادا کے زمانے سے یہ کام کرتے آرہے ہیں، اور ہماری دعائیں کبھی رد نہیں ہوئیں۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ ’وہی‘ آپ کی سنتا ہے۔دیکھیں!آپ برا نہ مانیں، لیکن آپ شرک میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اللہ کی ذات میں اس کی مخلوق کو شریک کررہے ہیں۔آپ کے جد امجد بھی مشرک تھے اور آپ بھی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا ناقابل معافی گناہ ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے۔‘‘راحیلہ نرمی سے کہہ رہی تھیں۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِذَا قِیلَ لَھُمُ اتَّبِعُوا مَآ اَنزَلَ اللّٰہُ قَالُوا بَل نَتَّبِعُ مَآ اَلفَینَا عَلَیہِ اٰبَآءَنَا اَوَلَو کَانَ اٰبَآؤُھُم لَا یَعقِلُونَ شَیا وَّلَا یَھتَدُونَ (البقرۃ: 170)

(اور جب ان سے کہا جائے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں: بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ وہ ہدایت یافتہ ہوں؟)
حالانکہ یہ دعا مانگنی چاہیے کہ:
’’ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تونے انعام کیا ہے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ شرک کو’بہت بڑا ظلم‘ کہتا ہے۔‘‘ 
’’اب اللہ کی دلیل سے بڑی اور ٹھوس دلیل کس کی ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید سے رجوع کیجیے!‘‘ علیزہ اپنی امی کو بولتا سن رہی تھی۔
’’رخسار بہن! یہ جو قیامت آپ پر ٹوٹ پڑی ہے۔ آپ کی بیٹی فریا،اور جو ذلت و رسوائی کا سیلاب آپ کے گھر آیا ہے، اس کی وجہ آپ کے گناہ بھی ہوسکتے ہیں۔ آپ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ راحیلہ نے ان سے کہا۔
’’اچھا! ہم چلتے ہیں۔ اللہ حافظ!‘‘ علیزہ اور راحیلہ وہاں سے چلی گئیں۔ فریا کی والدہ اور اس کی تائی وہیں کھڑی انھیں جاتا دیکھتی رہیں۔

٭٭٭

 اس دن عمیمہ سرخ کرتے ٹراؤزر میں ملبوس، آسمانی رنگ کا دوپٹہ گردن میں ڈالے، کارپٹ پر کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی۔ وہ پوری طرح نوٹس بنانے میں مگن تھی۔ اس کی گردن کے ساتھ ساتھ اس کی اونچی پونی ٹیل بھی جھول رہی تھی۔ حاشر پر میمونہ نگاہ رکھے ہوئے تھیں۔ اسے دودن سے باہر نہیں نکلنے دیا جارہا تھا۔ وہ آج کل کڑی نگرانی میں تھا۔ وہ وہیں صوفے پر بیٹھا گیم کھیل رہا تھا۔ ساتھ ساتھ عمیمہ سے باتیں بھی کررہا تھا۔عمیمہ نوٹ پیڈ پر قلم گھسیٹتے ہوئے مصروف سے انداز میں پونی ٹیل سے نکلے بال پیچھے کررہی تھی کہ اسے اپنے پاپا کی آواز سنائی دی۔وہ اسے ہی پکار رہے تھے۔وہ پہلے تو چونک گئی کہ اس وقت پاپا گھر پر کیسے؟
’’عمیمہ!‘‘ اب کی بار اس کے بڑے بھائی عاشر نے اسے آواز دی۔(حیرت ہے۔ یہ دونوں اس وقت گھر پر کیسے ہیں؟) یہی سوچتی ہوئی وہ اٹھی اور بیرونی دروازے کی طرف گئی۔وہاں پاپا، ممی اور بھائی موجود تھے۔
’’جی پاپا!‘‘اس نے ان تینوں کو دیکھا۔
’’موبائل کہاں ہے تمھارا؟ ‘‘اس کے پاپا نے پوچھا۔
’’ادھر رکھا ہے۔ کیوں؟‘‘
’’آج استعمال کیا اسے؟ دیکھا سوشل میڈیا پر کچھ؟‘‘
’’کیا؟ کیا دیکھنا تھا؟‘‘ پاپا کی غصے سے بھری آواز پر اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ دیکھو! دیکھو یہ، کس کی فوٹوز ہیں یہ؟‘‘ اس کے بھائی نے فون پر اسے فوٹوز دکھائیں۔وہ انسٹا گرام پر اپ لوڈ کی گئی پکچرز تھیں۔ کل چار تصاویر تھیں۔ جن میں عمیمہ کھڑی نظر آرہی تھی۔ نہایت ہی بے ہودہ انداز میں۔ اس کے عقب میں ایک فحش تصویر لگی تھی۔ ہر تصویر میں اس کے عقب میں فحش بیک گراؤنڈ تھا۔ دوسری پکچر میں وہ اور ایک لڑکا کھڑے تھے۔ نیز تمام تصاویر میں بے ہودگی کی انتہا کر دی گئی تھی۔ پکچرز کے نیچے کئی ہزار لوگوں کے کمنٹس تھے۔ کئی طرح کے فقرے اس پر کسے گئے تھے۔ سینکڑوں لوگ اس پکچر کو تفریح کا ذریعہ بنائے ہوئے تھے۔عمیمہ نے انھیں دیکھتے ہی سختی سے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دیے۔ اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کس نے اپ لوڈ کردی ہیں۔ اس کا ان پکچرز کو دیکھنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا، لیکن پھر بھی وہ بس انھیں دیکھے جارہی تھی۔
’’کیا ہے یہ؟ کہاں گئیں تھیں تم؟‘‘ عاشر نے چیختے ہوئے اس سے استفسار کیا۔ وہ بولنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ لیکن اسے کچھ بولنا تو تھا۔ اپنی صفائی میں کچھ تو کہنا تھا۔
’’میں کہیں نہیں گئی تھی پاپا!اور یہ تصاویر میں نے نہیں لیں۔ بھائی! میرا یقین کریں۔‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ شرم اور خوف کے مارے اس کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔
’’کون ہے یہ لڑکا تمھارے ساتھ؟ اسی نے اپ لوڈ کی ہیں فوٹوز تمھاری۔‘‘
’’میں نہیں جانتی یہ کس نے اپ لوڈ کی ہیں۔‘‘ اس نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ حالانکہ وہ دیکھ چکی تھی کہ وہ اس کی اور ارحم کی پکچرز تھیں۔
’’اتنی بے حیائی سے جس کے ساتھ کھڑی ہو اسے نہیں جانتیں تم؟‘‘ اس کے بھائی نے اس کے گال پر تھپڑ دے مارا۔
’’عاشر! بہن پر ہاتھ نہ اٹھاؤ۔ ہم پوچھ رہے ہیں ناں اس سے۔‘‘ اس کی ممی نے سختی سے کہا۔
’’تم نے اور سعد نے مجھے ذلیل کرنے کی قسم کھارکھی ہے عمیمہ؟ میرے آفس کے دوست نے مجھے بتایا کہ تمھاری بیٹی’ عمیمہ رئیس ‘کے نام سے سوشل میڈیا پر کیسے کیسے کمنٹس پاس کیے جارہے ہیں۔ اس نے مجھے تمھاری فوٹو دکھائی تو میں تو شرم کے مارے زمین میں گڑ گیا۔‘‘
’’کہاں جاکر کھنچوائیں تم نے ایسی فوٹوز؟‘‘ وہ مشتعل ہورہے تھے۔
پاپا! یہ پکچرز ایڈٹ کی ہوئی ہیں۔ میرا یقین کریں۔‘‘ عمیمہ نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ رورہی تھی۔
’’کیسے مان لوں میں؟‘‘
’’پاپا! میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میری کلاس میں ایک لڑکا ہے، ارحم، اپنے فرینڈز کے گروپ کے ساتھ سیلفی لے رہا تھا۔ میں وہاں سے گزر رہی تھی، مجھے بھی روک کر اس نے سیلفی لی۔ اور اسی کو ایڈٹ کرکے اپ لوڈ کردی ہوگی اس نے۔’’ اس نے روتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں اس پر خوب گرج رہے تھے۔ خوب برس رہے تھے۔
’’میرے دوستوں کے میسجز آرہے ہیں۔ کیسی کیسی باتیں کررہے ہیں وہ۔‘‘ اس کے بھائی نے غصے سے کہا۔
’’تمھیں ہم کالج اس لیے بھیجتے ہیں کہ تم ایسی حرکتیں کرتی پھرو؟ کون ہے وہ لڑکا؟ نمبر ہے تمھارے پاس اس کا؟‘‘پاپا کے بلند آواز میں پوچھنے پر اس نے فوراً موبائل لاکر انھیں ارحم کا نمبر نکال کر دیا۔ اس کے پاپا ارحم کے ساتھ جو بھی کریں، اسے پرواہ نہیں تھی۔
’’اگر اس میں تم بھی انوالو ہو، ایسا مجھے کچھ پتہ چلا عمیمہ، تو خدا کی قسم تمھیں گولی مار دوں گا۔‘‘ اس کے بھائی نے شدید اشتعال کے عالم میں اپنے آپ پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔ممی چپ چاپ کھڑی تھیں۔ عمیمہ خاموش کھڑی آنسو بہاتے ہوئے اپنے پاپا کو دیکھ رہی تھی، جو اپنے موبائل پر نمبر ملارہے تھے۔
’’ابھی تو وہ فون نہیں اٹھا رہا، لیکن وہ میرے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا۔ اسے میرے اثر و رسوخ کا اندازہ نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اس نے کس کی بیٹی کی پکچرز وائرل کردی ہیں۔‘‘ پاپا موبائل صوفے پر اچھالتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’اور تم… اب کالج نہیں جاؤ گی۔ ٹانگیں توڑ کے رکھ دوں گا تمھاری۔ میری عزت کو نیلامی میں لگا رکھا ہے۔ چند دن پہلے سعد تھانے جا آیا، اور اب تم…‘‘
’’اس کی فوٹوز ڈیلیٹ کیسے ہوں گی سوشل میڈیا سے؟‘‘تھوڑی دیر بعد پاپا ذرا ٹھنڈے ہوئے تو ممی پوچھ رہی تھیں۔
’’سائبر کرائم برانچ سے کانٹیکٹ کرنا پڑے گا۔ لیکن جنھوں نے ڈاؤن لوڈ کرلیں سو کرلیں۔ انھیں نہیں ہٹایا جاسکتا۔‘‘ پاپا کہہ رہے تھے۔
’’تم جاؤ۔‘‘ممی نے اسے اشارہ کیا۔ وہ تیزی سے وہاں سے نکلی۔وہ جانتی تھی، کالج نہ جانے کی دھمکی، وقتی غصہ تھا۔ وہ کل پوچھے گی ارحم سے، اس نے ایسا کیوں کیا۔ لیکن وہ کالج میں سب کی تضحیک آمیز نظروں کو کیسے سہہ پائے گی؟

٭٭٭

 علیزہ لان میں دیوار کے سائے تلے دھوپ سے پرے گھاس پر بیٹھی تھی۔یہ قیلولہ کا وقت تھا۔ سب آرام کررہے تھے۔ صرف وہی تھی جو یہاں بیٹھی تھی۔ سائیڈ میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ جس سے ظاہر تھا کہ وہ ابھی پڑھائی سے فارغ ہوئی ہے۔ آج سنڈے تھا۔ آج وہ صبح سے پڑھ رہی تھی۔ اور اب اس پر تھکن طاری ہونے لگی تو اس نے کتابیں بند کرکے رکھ دیں۔ اور اٹھ کر چہرے پہ پانی کے چھینٹے مار آئی۔آج ڈنر پر اس نے سحرش کو دعوت دی تھی۔ ساتھ ہی عمیمہ کو بھی انوائٹ کرلیا تھا۔ سحرش آج اپنی امی کے گھر آنے والی تھی، یہی معلوم ہونے پر اس نے اسے دعوت دے ڈالی تھی۔
Invitation وہ اسے دودن پہلے ہی دے چکی تھی۔ اب اسے دعوت کی تیاریاں کرنی تھیں۔امی نے اس سے مشورہ لیا کہ دعوت کا مینیو کیا رہے گا، تو اس نے انھیں ان کی مرضی کی ڈشز بنوانے کو کہا۔ اسے اتنی بہتر کوکنگ نہیں آتی تھی۔ گھر کے لیے کھانا تیار کرنا ہوتا تو وہ کر لیتی۔ لیکن مہمانوں کے لیے وہ نہیں کر پاتی تھی۔ یہ کام امی اور بھابی کے ذمے تھا۔ وہ صرف بہترین ڈیزرٹ بنا سکتی تھی۔ سو وہ کچن کی طرف چلی گئی۔ تقریباً ایک گھنٹے کی تگ و دو کے بعد ڈیزرٹ تیار تھا۔ اس نے باؤل میں بھر کے اچھی طرح کور کرلیا اور اسے فریج میں رکھ دیا۔ اس نے اپنا آف وائٹ سوٹ زیب تن کیا، اور واپس لان میں آگئی۔ سحرش آئی تو پہلے امی سے ملنے اندر گئی، اور پھر واپس آکر وہ بھی لان میں اس کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگی۔ شام اپنا آنچل پھیلا رہی تھی۔
ماحول میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ وہ گھاس پر ننگے پیر چلتے ہوئے سرسراتی، لہراتی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے لگیں۔
’’میں نے سوچا ذرا جلدی آجاؤں گی تو زیادہ باتیں کرسکیں گے۔‘‘
’’اچھا کیا۔ میں ویسے بھی بیٹھی ہوئی ہی تھی۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرنے لگیں۔
’’تم واقعی کالج نہیں آؤگی پھر؟‘‘ علیزہ کو اچانک یاد آیا تو اس نے پوچھ لیا۔
’’نہیں۔ ایگزام کے لیے آؤں گی صرف۔‘‘
’’اسٹڈی کیسے ہوگی سحرش؟‘‘
’’کرلوں گی۔ کیا کرسکتی ہوں اس کے علاوہ۔ عورت مظالم سہنے کے لیے ہی پیدا ہوئی ہے۔‘‘
’’ایسا بھی نہیں ہے۔ غیر تعلیم یافتہ طبقات میں ہی چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنایا جاتا ہے ، ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔‘‘ علیزہ نے کہا۔
’’امیر طبقات میں بیٹی کو خوب جہیز سے لاد کر سسرال میں بھیجا جاتا ہے۔ جس کی اندھی تقلید غیر تعلیم یافتہ، غریب اور متوسط طبقات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘ سحرش نے برا سا منہ بناکر کہا۔ اور دوپٹہ سر پر درست کیا۔ اس عمل کے دوران اس کے دائیں بازو کی آستین کچھ اوپر اٹھی۔ علیزہ کی نظر اس کے بازو پر پڑی۔ وہاں ایک سیاہ نشان تھا۔ دو انگلیوں جتنا لمبا نشان۔ برن مارک۔ ’’سحرش! یہاں کیا ہوا تمھیں؟‘‘ علیزہ نے اس کے ہاتھ کی جانب اشارہ کرکے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔ بس…‘‘ سحرش نے سرعت سے اپنا بازو آستین میں چھپا لیا۔
’’یہ جلا ہوا ہے۔اتنا زیادہ کیسے جل گیا تمھارا ہاتھ؟‘‘ علیزہ نے تشویش سے پوچھا۔
’’ایسے ہی جل گیا۔‘‘ اس نے نظریں چرائیں۔ یہی عمل علیزہ کو کھٹکا۔
’’سچ کہہ رہی ہو؟ ادھر میری طرف دیکھ کر کہو۔‘‘
’’میری نند نے جلا دیا تھا۔‘‘سحرش نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’سحرش!‘‘ علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
’’ہاں علیزہ،بہت مار کھاتی ہوں میں سب کی۔ بہت ظلم ہوتا ہے میرے ساتھ۔ تمھیں نہیں پتہ، نچلے طبقات میں رہنے والی لڑکیوں کو کیسے کیسے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تمھیں یقین نہیں آتا ناں کہ صرف جہیز کی وجہ سے کوئی کیوں ایسی نیچ حرکت کرے گا۔ لیکن ایسا ہوتا ہے علیزہ،بہت برداشت کرتی ہوں میں۔‘‘ سحرش کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔
’’تمھارے پیرنٹس کچھ نہیں کرتے؟‘‘
’’امی اور دادی ماں صبر کرنے کو کہتی ہیں۔ ابا دل کے مریض ہیں۔ انھیں یہ بات نہیں معلوم۔ اگر انھیں پتہ چلا تو ان کی صحت پر برا اثر پڑے گا۔ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں وہ۔ میرا یہ غم سہہ نہیں پائیں گے۔‘‘اس نے دھیرے دھیرے ہر بات علیزہ کو بتا دی۔سحرش جو اتنے ماہ سے سارے غم اور سارے درد اپنے دل کے اندر چھپاتی آئی تھی، اس کا دل اتنا بھر چکا تھا، کہ اسے کسی کے کندھے کی ضرورت تھی۔ لیکن کہیں کندھا میسر نہیں آرہا تھا۔ آج اس سرمئی شام میں اسے علیزہ کا کندھا ملا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کررودی۔ علیزہ نے اسے رونے سے نہیں روکا۔ وہ اس سے اس کی داستان سنتی گئی۔ سحرش اتنا روئی اتنا روئی کہ اس کے دل کاسارا غبار آنسوؤں کی صورت بہہ نکلا۔ اس کی جب ہچکی بندھ گئی تو علیزہ اٹھی اور اس کے لیے پانی لے آئی۔ اسے پانی پلایا۔ سحرش چپ ہوکر آنسو صاف کرنے لگی۔
’’سحرش!تم اپنے والد کو سب بتا دو۔ کب تک ظلم سہتی رہوگی؟ والد سائبان ہوتا ہے سحرش،کڑی سے کڑی دھوپ اور سخت سے سخت طوفان سے ہمیں بچا لیتا ہے۔ تم انھیں بتاؤ۔ وہ کچھ نہ کچھ راستہ نکال لیں گے۔‘‘علیزہ نے اس سے کہا۔
’’یہ عمیمہ ابھی تک کیوں نہیں آئی؟‘‘ علیزہ نے گیٹ کی طرف دیکھا۔ تبھی بیل بجی۔
’’آگئی۔‘‘ علیزہ ہنستے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سحرش مسکرادی۔ علیزہ گیٹ تک گئی اور گیٹ کھول کرکے ایک طرف ہوگئی۔ لان میں بیٹھی سحرش ادھر ہی دیکھنے لگی۔’’ہم ابھی تمھیں ہی یاد کررہے تھے۔ سحرش تو کب سے آئی بیٹھی ہے۔ تم ہی لیٹ ہو۔ ہم نے سوچا تھا تم بھی آجاؤ تو خوب باتیں…‘‘ آگے اس سے کچھ کہا نہیں گیا۔ کیونکہ نووارد عمیمہ نہیں تھی۔ اسے دیکھ کر علیزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے