مئی ۲۰۲۳

اس سیشن کا افتتاح سورۃ الحشر کی ابتدائی چار آیتوں سے ہوا۔ عبد الحکیم صاحب(ناندیڑ) نے تذکیر کی۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی یہ آیتیں مومنین کے لیے بڑی ہی امید بڑھانے والی تھیں، اور موجودہ ہندوستان کے حالات کے پیش نظر بھی ہمارے لیے بڑی ہی ہمت بندھانے والی ہیں۔اس کے بعد اوپن سیشن تھا۔پہلے حصے میں ارکان نے تنظیمی نوعیت کے سوالات پوچھے۔حلقہ کے متعلقہ ذمہ داران نے اطمینان بخش جوابات دیے۔
دوسرے حصے میں ارکان کو یہاں پر مرکز جماعت کے اپروچ ا ور کارکردگی سے متعلق سوالات کااختیار تھا، اور امیر جماعت بنفس نفیس جواب دینے کے لیے تشریف فرما تھے۔آڈینس امیر جماعت پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔بڑی سی ا سکرین پر سوال ڈسپلے ہورہا تھا۔سوال کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے،جس سے کئی افراد مستفید ہوتے ہیں۔دوسرایہ کہ جواب کس انداز سے دیا جائے کہ سائل مطمئن ہوجائے۔یہ بھی ایک علم ، حکمت اور آرٹ کی بات معلوم ہوتی ہے۔مجھے مرد ارکان کی جانب سےخواتین کے پردے کے متعلق کیے گئے ایک دو سوالات پر بہت حیرت ہوئی۔ یہ سوالات ایک رکن جماعت کی جانب سے ہوئے تھے، لگ ہی نہیں رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بیرون جماعت فرد پوچھ رہا ہو۔واقعی جماعت میں جو جتنا بڑا ذمہ دار ہو، اسے اتنا ہی صبر و برداشت کرنا ہوتا ہے۔
اس سیشن میں مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا۔فاستعیذ باللہ!
اس کے بعد کے دلکش منظر کو میں کیسے پیش کروں؟نئے ارکان کے ساتھ ہی تمام مرد و خواتین ا راکین جماعت نے تجدید عہد کیا۔بہت ہی پر وقار مجلس تھی۔نغمۂ توحید سے مرتضی ٰپور کا وہ قطعہ ٔزمین معمور تھا۔سب نے ایک ہی خواب دیکھا تھا ، اور اس کی تعبیر کی کوشش کے لیے یہاں جمع تھے۔ اللہ کی سر زمین پر اللہ کے قانون کے نفاذ کے لیے،ظلم و نا انصافی کے خلاف، امن و امان کے قیام کے لیے،اقامت دین کے لیے۔
امیر حلقہ رضوان الرحمٰن خان صاحب نے اپنے خطاب میں اسی نصب العین پر روشنی ڈالی کہ اس اجتماع میں شریک 2003 ارکان اپنے اپنے مقام پر مینار نور بنیں ۔ امیر کی سوچ، فکر اور پیغام مامورین تک پہنچے۔اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کا دین غالب ہوکر رہےگا، اللہ قوت والا عزت والا ہے ۔یہی احساس ہمارے لیے ہتھیار کا کام کرتا ہے۔قنوطیت و مایوسی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیں۔سب سے اہم بات سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے بغیر ہم اقامت دین کی اس عظیم کام کو انجام نہیں دے سکتے۔اس کے لیے قرآن سے مضبوط تعلق قائم کریں، ملت میں جائیں انھیں بھی رجوع کریں۔’’میرے دست و بازو تم ہو‘‘ اس عنوان کے تحت بہت دل سوزی کے ساتھ انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
عبد الجلیل صاحب( رکن شوریٰ مہاراشٹر) نے محترم تجمل حسین کی نظم ’’ جگنو ‘‘ سنائی۔اب پروگرام اپنے اختتام کو تھا۔ زاد راہ کے لیے محترم امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی کو مدعو کیا گیا۔آپ نے کیمپ کا مقصد بتایا کہ یہ ریوایول (Reviwal) ہوتا ہے ، تاکہ ہمیں ہماری غلطیوں کا احساس ہو،اصلاح کا جذبہ پیدا ہو ، عزائم ا ور حوصلوں کو مہمیز ملے۔اپنے آپ کو بدل کر نئ شخصیت بن کر نیا حلقہ بن کر ہم اپنی رفتار تیز سے تیز کردیں۔کردار کے اعتبار سے ideal بن جائیں۔ model بن جائیں، اسلام کا عملی نمونہ بن جائیں۔پوری 35 منٹ کی تقریر میں محترم مقرر نے اسی بات پر بہت زور دیا۔
تحریک اسلامی کے اندر اخلاق کی حساسیت کی کمی ہے، ان معاملات میں بھی ہمیں حساس ہونا چاہیے۔دین کی ہر تعلیم کی ہم دعوت دیتے ہیں ،اس پر پہلے ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ ارکان جماعت کو تجارت و مالیات کے تعلق سے اسلامی احکام کی جانب خصوصی طور سے متوجہ کیا۔ قرآنی آیت
(سورۃ البقرہ،آیت: 282) اور حدیث کا حوالہ دے کر فرمایا کہ تجارتی و مالی معاملات کو باقاعدہ لکھ لینا چاہیے۔ اس پر دستخط کیے جانے چاہئیں، گواہ بنانے چاہئیں، اگر ایسا نہیں کرینگے تو ہم اللہ کے غضب کا شکار ہوں گے۔تجارتی معاملات میں بے احتیاطی سے تنازعات جنم لیتے ہیں، مال میں برکت ختم ہوتی ہے، مسلمانوں کی اور خود اسلام کی تصویر خراب ہوتی ہے ۔خصوصا ًرکن جماعت کو اس معاملے میں حساس ہونا چاہیے۔ رکن جماعت کو ہر معمولی سود سے بچنے ،
وراثت کی تقسیم ،اسلامی طریقے سے کرنے ،اور سب کے حقوق ادا کرنے کی نصیحت کی۔
مجھے یہ تقریر سنتے ہوئے امیر جماعت کی کتاب’’ اصلاح معاشرہ: منصوبہ بند عصری طریقے ‘‘ یاد آرہی تھی۔وہاں مسلمانوں کو عمومی احساس دلایا تھا، یہاں ارکان کو خصوصی مخاطب کیا ۔جماعت کے فرد کی شناخت بنے کہ وہ معمولی کام بھی حکومت کے خلاف نہ کرے۔ایک ٹیچر ایک ڈاکٹر جو گورنمنٹ سرونٹ ہے ،اپنے اوقات کے لیے کہ وہ اپنے ڈیوٹی کے تئیں کتنا ایماندار ہے ، اللہ کے پاس جوابدہ ہے، اس کا شدت کے ساتھ امیر محترم نے احساس دلایا۔امیر و مامورین کے ذمہ داریاں یاد دلائیں اور فرمایاکہ مامورین کے ارادے سے امیر کو قوت ملتی ہے۔ایسی ہی تنظیمیں تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔مامورین کی محبت و وارفتگی سے سب ممکن ہوتا ہے۔( میرے دل نے بھی اپنے رب سے تمام ارکان کے لیے وہ جذبہ ٔاطاعت و محبت مانگا۔)
زادراہ کے تیسرے حصے کے بارے میں میں کیا بتاؤں۔آپ نے خواتین کی خوب خوب تعریف فرمائی۔ امیر جماعت کے اس اظہار سے میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔سچ کہہ رہی ہوں کہ وہ جملے میرے کانوں نے سنے ، اور حافظے نے محفوظ کرلیے۔جملے کچھ یوں تھے:
’’اپنی بہنوں ، بیٹیوں اور ماؤں سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اس اسلامی تحریک کے بہتر مستقبل میں اس کا مستقبل جب بھی روشن ہوگا، جب بھی سورج نکلےگا ، اس میں ہماری ما ؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کابہت ہی کلیدی اساسی رول ہوگا۔ جو جوش و خروش و استقلال آگے بڑھنے کا جذبہ ،
سیکھنے کا جذبہ، Dedication خواتین کے اندر نظر آتا ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اہم موڑ پر اس تحریک کو نئ قوت فراہم کرنے کا فیصلہ اللہ نے کیا ہے،وہ قوت ہمارے اپنے گھروں سے فراہم ہو رہی ہے ۔
ان شا ء اللہ آپ دیکھیں گے کہ آئندہ انسانی وسائل کی بہت سی pending ضرورتیں خواتین پوری کریں گی۔ ان سے علماء ، اسکالرز ، دانشوران و منتظمین اٹھیں گے،جو تحریک کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے راہیں ہموار کردیں۔ Technology کے اس Revolution نے آسان کردیا کہ خواتین گھر بیٹھے ورک فرام ہوم سے Contribute کریں۔اس کے لیے خدمات انجام دیں۔یہ اللہ تعالیٰ نے نئی قوت فراہم کی آپ کے لیے ۔ ان کی قدر کیجیے ، ان کو آگے بڑھائیے۔ ان کا ہر ممکن سپورٹ کیجیے۔‘‘
امیر جماعت کی پذیرائی نے خواتین کی تھکن کو دور کردیا۔ نئی تازگی، نیا جنون اور جوش سے بھری خواتین اقامت دین کے لیے پرجوش نظر آئیں۔ جملے تھے کہ انقلاب کا یقین۔اس حوالے سے کہا کہ جماعت اسلامی ہی کی یہ انفرادیت ہے کہ وہ خواتین کے صلاحیتوں کو استعمال کر رہی ہے۔جماعت کی توسیع کا short cut راستہ یہ ہے کہ خواتین میں کام کیا جائے۔اس resource کو مالا مال enrich کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
’’ھادیہ‘‘اور’’Aura‘‘ (ای-میگزینز)کے بارے میں کہاکہ ان دونوں periodicals نے خواتین کے سلسلے میں ہمارے اعتماد کو کئی گنا بڑھا دیاہے۔جب ہم نے یہ تجویز رکھی تو بہت سے لوگوں کو Doubtsتھے کہ میگزینز کو خواتین کیسے چلائیں گی۔ان کے پاس کہاں لکھنے والیاں ہیں۔’’دعوت‘‘ یا’’ زندگیِ نو‘‘ میں کیوں نہیں لکھتیں؟ لیکن جب شروع ہوا تو آپ دیکھ رہے ہیں کس کامیابی کے ساتھ یہ پورا کا پورا یہی کر رہی ہیں۔ ہمارا اس میں کوئی رول نہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیسی اچھی صلاحیتیں ان میں ہیں۔ ہم جماعت اسلامی میں شعوری طور سے دل کی آمادگی کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ ’’ھادیہ‘‘( ای- میگزین) کے باذوق قاری ہیں۔
امیر جماعت کے دل کھول کر خواتین کے کاموں کی ستائش سن کر ہمارا بھی دل بلیوں اچھل رہا تھا۔اصل میں امیر جماعت خواتین کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی رفتار کو مزید تیز گام کرنا چاہتے ہیں۔میں نے غور کیا کہ جماعت سے وابستہ ہوکر ہم خواتین کی دلچسپیاں بدل گئی ہیں۔ اب خواتین زیادہ focused ہیں۔اپنی ترجیحات کا تعین خوب کرلیا ہے۔اب کوئی چیز انہیں نصب العین سے نہیں ہٹا سکتی ۔ کیونکہ:

 لگا ہے نشہ جب سے جنت کا ہم کو
اچاٹ اپنا جی اس جہاں سے ہواہے

’’ اقامت دین ہمیشہ مستحضر رہے۔‘‘اسی زاد راہ کے ساتھ تازہ دم ہوکر میں مرتضیٰ پور سے لوٹ آئی۔

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

’’ھادیہ‘‘اور’’Aura‘‘(ای-میگزینز)کےبارے میں کہاکہ ان دونوں periodicals نے خواتین کے سلسلے میں ہمارے اعتماد کو کئی گنا بڑھا دیاہے۔جب ہم نے یہ تجویز رکھی تو بہت سے لوگوں کو Doubtsتھے کہ میگزینز کو خواتین کیسے چلائیں گی۔ان کے پاس کہاں لکھنے والیاں ہیں۔’’دعوت‘‘ یا’’ زندگیِ نو‘‘ میں کیوں نہیں لکھتیں؟ لیکن جب شروع ہوا تو آپ دیکھ رہے ہیں کس کامیابی کے ساتھ یہ پورا کا پورا یہی کر رہی ہیں۔ ہمارا اس میں کوئی رول نہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کیسی اچھی صلاحیتیں ان میں ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے