مئی ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

انسان فطرتا ًامن پسند واقع ہوا ہے۔ وہ اپنی ذات، مذہب ، مال و متاع اور اپنی نسلوں کا تحفظ چاہتا ہے۔ ہر قوم کا اپنی خواتین اور لڑکیوں کی عصمت و عفت کی حفاظت کے تئیں حساس ہونا بھی فطری امر ہے۔ موجودہ حالات میںمسلم لڑکیوں کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں نے ہر مسلمان کو بے چین کر رکھا ہے، ہرشخص فکر مند نظر آتا ہے، شرپسند افراد اپنے بیانات کے ذریعہ مزید ہمیں بے چین کرتے ہیں ۔وہ تو ایسا ہی کریں گے۔قرآن میں اللہ فرماتا ہے:

وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ ۚ وَأُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ.

(وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے، حتی کہ اگر ان کا بس چلے، تو تمھیں اس دین سے پھیر لے جائیں۔ اور یہ خوب سمجھ لو کہ تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔)(سورۃ البقرہ، آیت: 217)
موجودہ حالات میں باطل اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہے، وہ جانتا ہے کہ مسلمان دیگر قوموں کے مقابلے اس حوالے سے بہت حساس ہے،اس نفسیاتی اٹیک کی وجہ سے اس کے مذموم مقاصد کار گر ہوجائیں۔ ان مقاصد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اضطراب میں مبتلا کرنا

ناانصافی پر مبنی کسی بھی نظام کے لیے ضروری ہے کہ اس کی رعایا نااہل اور غیر تعلیم یافتہ ہو، اور مکمل غلامی اس کا شعار ہو۔ عوامی شعور کو پروان چڑھانا ظلم اور ناانصافی پر مبنی نظام کے لیے سم قاتل ہے۔ مسلم لڑکیاں بڑے پیمانے پر تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اس بات کا ڈیٹا بھی اظہر من الشمس ہے۔ لڑکیاں تعلیم کے میدان میں زیادہ سنجیدہ ہیں، لڑکیوں کی تعلیم و تربیت ہی دراصل پورے خاندان کی تعلیم وتربیت ہے۔لڑکیوں کی تعلیم باشعور نسلوں کا پیش خیمہ ہے۔مسلمانوں میں پچھلی چند دہائیوں سے تعلیمی شعور بہت پختہ ہوا ہے۔
حجاب کو ایشو بناکر کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں مسلم لڑکیوں پر تعلیم کا حصول مشکل بنایا گیا، دوسری طرف یہ ایک نفسیاتی حملہ ہے، تاکہ اس کی تشہیر مسلمانوں کو ضرورت سے زیادہ حساس بنادے ۔وہ اپنی لڑکیوں کی کڑی نگرانی کرنے لگیں،ان کا اعتماد اپنی بچیوں سے ختم ہوجائے۔ اوور کانشیس(over consciousness) ہوجائیں اورضرورت سے زیادہ توجہ دینے لگیں، جو حقیقتاً والدین اور طالبات کے رشتے کے درمیان عدم اعتماد کی بنیاد بنتاہے، عدم اعتماد کا ماحول تنفر پیدا کرتا ہے،اس سے نسلیں متنفر ہوتی ہیں۔ اس دباؤ کے ماحول میں نسلیں اسلامی قوانین سے نفرت کرنے لگتی ہیں، اسلام سے متعلق زہر افشانی کرنے والی ویڈیوز انہیں حقیقت لگنے لگتی ہیں، والدین اور اولاد کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت کسی بھی گھر کو کمزور بنادیتی ہے۔
نوجوان نسل سے والدین کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، اور دباؤ کے ماحول سے طالبات پریشان ہوجاتی ہیں ۔حالیہ عرصے میں اس طرح کی بیان بازیوں سے جو نفسیاتی ٹریپ اور نفسیاتی جال لگانے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے ہمیں خود کو نکال کر خاندانی نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔بیدار قومیں نہ باطل کی سازش سے بے خبر رتی ہیں، نہ ہی اپنی صفوں کو درست کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کرنا  ہیں۔

اسلامی احکام سے خائف بنانا

آپ نے سوشل میڈیا پر ہندو مہاسبھا کی خواتین کی وائرل ویڈیو دیکھی اورسنی ہوگی، جس میںوہ مسلمان لڑکی کو کسی ہندو سے شادی کے فوائد بتاتی ہیں۔ دراصل یہ نوجوان نسل کو جنسی بے راہ روی کی کھلی دعوت ہے۔اسی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امن پسند رہبر اپنی نسلوں کو بے حیائی سے بچانے کی کوشش میں رہتے ہیں،جبکہ ہندومہاسبھا کی اسپیکرز وائرل ویڈیو میں برائی پر اکسا رہی ہیں، یہی بات اچھائی اور برائی کی تمیز پیدا کرنے والی ہے ،جبکہ قرآن کریم میں رب العالمین کا فرمان ہے:

ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر

یعنی مسلمانوں کی بنیادی عبادت ہی بے حیائی کے خاتمے کی صفت رکھتی ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں ہر قسم کی بے حیائی سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے، ہم کسی بھی نامحرم سے تعلقات بنانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق نوعمری کا یہ زمانہ Stress and Strom یعنی جنسی دباؤ کا دور کہلاتا ہے، نوجوان اس دور میں تمیز کھودیتے ہیں ۔جس طرح ایک رینگے والا بچہ رینگتے ہوئے ہر چیز منہ میں ڈال کر چکھنا چاہتا ہے اور والدین اس کو روکتے ہیں، بچہ کبھی کبھی جھنجھلاہٹ کا شکار بھی ہوتاہے،کیونکہ ایک طرف بچے کی بھوک ،دوسری طرف تجربہ کرنے کی تڑپ اینگزائٹی بڑھادیتی ہے۔ کیا اس مثال میں والدین کی خیر خواہی واضح نہیں ہے ؟والدین نرمی سے بچے کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اسے اپنی جبلت پر کنٹرول سکھادیتے ہیں ۔اسی طرح نوعمری میں بھی والدین اور بچوں کے درمیان بہت ہی حکمت پر مبنی میکانزم بنانے کی کوشش کریں مضبوط اور پر اعتماد تعلق ہی اس میکانزم کو ترتیب دے سکتا ہے ،اسلام نظام حیات ہے اور یہ نظام بھی فطرت کے عین مطابق ہے اس لیے بہت ہی معقولیت کے ساتھ آپ ایڈریس کریں تو بچہ اسے لازما قبول کرتا ہے یا قبول نہ بھی کرے تو کم از کم اس کی سوچ کو نیا زاویہ مل جاتا ہے ۔اسی لیے انسانوں کی جبلتوں کو خدا خوفی، حیااوپاکیزگی کا تصوردیتا ہے، اسے ایک ذمہ دار انسان بناتا ہے ۔ اسے سکھانے کے لیے بچوں اور والدین میں اعتماد کا ماحول چاہیے ۔خوف پیدا کرنا اور عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرناانھیں اپنے مذہبی نظام سے متنفر بنادیتا ہے، جو باطل قوتوں کا مقصد ہے ۔

خاندانی نظام کو غیر مستحکم بنانا

موجودہ حالات میں نوعمر بچے سوشل میڈیا پر آئے دن صنفی تفریق کی بحث پڑھتے ہیں ۔ان کا کچا ذہن ہر بات پر دیر تک سوچتا ہے، مشاہدہ کرتا ہے،پرکھتا ہے۔ وہ اپنے مشاہدے میں اپنے والدین کے درمیان کے تعلقات کا مشاہدہ کرتے ہیں، سماج کا مشاہدہ کرتے ہیں،اور سماج میں بالخصوص مسلم سماج میں بھی وہ ظلم و ناانصافی کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ اپنے والدین کے درمیان عدم توازن پاتے ہیںکہ ماں تو بہت کام کرتی ہیں لیکن انھیںوالد کی جانب سےتوجہ نہیں مل پاتی، یا بیشتر مائیں بھی اپنی بےجافرمائشیں پوری نہ ہونے پر پیٹھ پیچھے والد کی برائی کررہی ہیں، ان سے نالاں ہیں یا وہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان کی تفریق کو دیکھتے ہیں۔یہی بات انھیں اپنے مذہبی معاملات سے بیزار اور کبھی کبھی مایوس بنادیتی ہے۔
فحش تعلقات کے خارجی عوامل ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اپنے درمیان کا احترام لمحہ بھر کے لیے بھی کمزور نہ پڑنے دیں ۔مائیں قطعاً خود کو مظلوم ظاہرنہ کریں اور شوہر کو ظالم، کبھی کبھی خواتین اس معاملے میں زیادتی کا شکار بھی ہوجاتی ہیں، بعض معاملات میں وہ واقعی مظلوم ہوتی ہیں، لیکن زیرک والدین اس کی تپش سے بچوں کو محفوظ رکھتے ہیں، تاکہ وہ کسی غلط راہ پر نہ چلے جائیں ۔اس سلسلے میں ماؤں کو بڑی حکمت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

رشتوں میں تاخیر/ رد ہونے سے بیزاری

کچھ واقعات میں، لڑکیوں کی بے راہ روی کی جو وجوہات سامنے آئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
غیرمسلم سے شادی کے رجسٹر کرنے کی خبر پر ذمہ داروں نے ملاقات کی۔غیر مسلم کے ساتھ شادی کا فیصلہ کرنے والی لڑکیوں نے کہا کہ میں سو سے زیادہ رشتوں والوں کے ذریعہ ریجکٹ ہوچکی ہوں، معمولی صورت شکل کی لڑکی ہوں، جب میرے کولیگ نے شادی کا ارادہ ظاہر کیا تو میں تیار ہوگئی ۔ایک دوسرے کیس میں لڑکی نے بتایا کہ وہ ایک غیر مسلم ڈاکٹر سے شادی کا فیصلہ کرچکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی والدہ نے معیارمتعین کیا کہ انھیں ڈاکٹرہی کا رشتہ چاہیے اور میری عمر 35 سال ہوچکی ہے، اس لیے یہ فیصلہ لیا۔یہ واقعات سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرےمیں ریجکشن کی روش بھی ہے اور معیار کے لیے شادی میں تاخیر بھی۔دونوں لڑکیاں سوالی ہیں کہ اس میں ہمارا کیا قصورہے؟
بادی النظر میں یہ قصور بلاشبہ معاشرے کا نظر آتا ہے، چونکہ یہ معاشرہ اسلامی اقدار پر مبنی معاشرہ ہے ہی نہیں۔
کچھ وجوہات کی بنیاد پر کی گئی مسلم لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے واقعات کو ہم ارتداد نہیں کہہ سکتے ۔
لفظ مرتدکے معنی ہے التراجع فی الدین مطلب دین سے پھر جانا یا بنیادی عقائد کا صریح انکار کرنا ۔جس طرح کبائر کا مرتکب مرتد نہیں ہوتا اسی طرح کچھ وجوہات کی بنیاد پر ان لڑکیوں کا غیر مسلم سے شادی کرنا ارتداد کیسے ہوا ؟ زور و شور سے لفظ ارتداد کو ایک بڑی تعداد سے جوڑ دینا بھی باطل قوت کی تقویت کا سامان ہے ۔دین اسلام عین اسلام کی فطرت کے مطابق جوں جوں انساں اسلام سے قریب ہوتا ہے اس کی حقانیت کا قائل ہوتا ہے ۔ بلا تحقیق ہمارا یہ کہنا کہ کئی لاکھ لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں دین اسلام کے مخالفین کا سپورٹ کرنے کے مترادف ہے ۔ یہ واقعات دراصل بے راہ روی اور کبائر کا احساس نہ دلانے کے سبب ہے ۔ہمیں اس معاشرے کو اسلامی اقدار سے متعارف کرانے کی سعی کو مزید تیز کرنا ہوگا ۔ہم اسے ارتداد کہہ کر پہلو تہی نہیں کرسکتے ۔
لیکن جہاں معاشرے کا رول نادرست ہے وہیں خاندان کا بھی بڑا قصورہے۔ کیونکہ یہاں مسابقتی امتحان کی،فیشن کی اور آزادی کی تعلیم تو ہے، اپنے فیصلے خود کرنے کا احساس بھی ایک بالغ لڑکی کو ہے، تاہم اسے اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہی نہیں ہے۔خدا خوفی اورخدا کے سامنے جوابدہی کا احساس اس کے اندر پیدا نہیں کیا گیا ۔اپنا ذاتی مفاد حاصل ہوتو اسلام پر عمل اور مفاد کا حصول مشکل ہوجائے تو اسلامی احکام پس پشت ڈال دیے جائیں؟
اوپر مذکور سورۂ بقرہ کی آیت سے ہم نے سمجھا کہ مرجائیں لیکن دنیا کی طمع میں کبھی بھی اسلام اور اسلامی احکام کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔انہی مسلم گھرانوں میں ’’مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے‘‘ کے الفاظ گونجا کرتے تھے ۔جدید تعلیم یافتہ گھرانے بھی اسلامی اقدار کی پاسداری جانتے تھے۔

حرمت کا خاتمہ

محرم رشتوں کا احترام اور غیر محرم رشتوں سے دوری کا جو تصور اسلام سورۂ نور میں دیتاہے، وہ مسلمان خاندانوں سے اب رخصت ہورہا ہے ۔بیشتر گھروں میں بلا تامل چچا زاد، پھوپھی زاد، تایا زاد بھائیوں کا آنا جانا ان سے کھلے ڈلے تعلقات کے حوالے سے کوئی قباحت مسلم لڑکیوں میں اب سرے سے نہیں رہی۔ ٹی وی ڈرامہ سیریل نے مزید اس کی قباحت کو ختم کردیا ۔لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں میں بھی اپنی نظریں نیچی رکھنے اورنامحرم لڑکیوں سے دوری بنانے کی تعلیمات گھروں میں نہیں دی جاتیں۔کسی چیز کی قباحت ہی جب دل سے ختم ہوجائے تو فحاشی کے راستے بہت آسان ہوجاتے ہیں۔مغربی دنیا اور دیگر مذاہب کے آزاد تصورات نے مادر پدر آزادی کا جو تصور دیا ہے، اس کی سنگینیوں کا احساس کچھ وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔
بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں بچپن سے ہی اپنا احترام کرنا سکھائیں، یہ احساس دلانا بے حد ضروری ہےکہ کسی کے سامنے جذباتی طور پر ایکسپوز ہونا اپنی خودی کی ارزانی ہے۔نگاہیں جھکانے کے حکم میں یہ بھی ایک حکمت ہے کہ جذباتی کمزوری کا پردہ رہ جاتا ہے، انسان کسی کے سامنے مجروح ہونے سے بچ جاتا ہے۔جب انسان کمزور ہوتا ہے تو دوسرے سے جذباتی سپورٹ مانگتاہے۔انسان بہت کم ظرف واقع ہواہے۔ جب وہ کمزوری جان لے تو آپ کو بے حیثیت اور بے وقعت بنادیتا ہے۔ اس طرح استوار ہونے والا رشتہ کبھی کبھی مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہوتا، چاہے مرد کمزور پڑے یا کوئی خاتون، تعلقات کی بنیاد کاآغاز ناقدری سے ہوتاہے ۔
کالج کیمپس میں کسی لڑکے کے تعاون کے لیے آمادہ رہنا، یا کسی سے اتنی مرعوبیت رکھنا کہ قریب ہونے کی کوشش کی جائے، ایک دوسرے کو بغیر کسی رشتے کے دوست سمجھ لینا، یہ سب احساس کمتری میں شمار ہوتا ہے۔ہینگری کی جاب فرم کے تجربات بیان کرتے ہوئے ہم سایہ ملک کے ایک رائٹر نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے:
’’ ان دنوں میں ہینگری میں تھا۔ایک فرم میں میری جاب تھی۔ وہاں کچھ لڑکیاں بھی ہماری اسٹاف ممبر تھیں۔ لنچ ٹائم ہوتا تو ہم ایک مخصوص ہوٹل جاکر لنچ کرتے، جہاں کھانا قدرے کم قیمت تھا۔ وہاں کیب میں ایک ساتھ جایا کرتے تاکہ آمد ورفت کا خرچ بھی کم ہو۔ایک دن ہم نے کھاناکھایا،سب اپنااپنا بل ادا کررہے تھے، ان میں ایک لڑکی کو میں نے دیکھا وہ اپنا بل ادا کرنے کے لیے پرس میں پیسے تلاش کررہی ہے، پریشانی اس کے چہرے سے عیاں ہے۔میں چونکہ کبھی اس سے اچھی علیک سلیک رکھتا تھا، اس خیال سے آگے بڑھ کر پیسے دینے چاہے۔اس نے غضبناک نگاہوں سے مجھے دیکھا اور آگے بڑھ گئی۔ اس کی آنکھوں میں اتنا غصہ تھا کہ میں نے اپنے پیسے اپنے جیب میں رکھ لیے۔ کیب میں آتے ہوئے وہ قریب آئی اور کہاکہ ہماری کمیونٹی میں لڑکیاں کسی اجنبی سے کسی قسم کا تعاون لینا جرم سمجھتی ہیں،کیا آپ نہیں جانتے؟ ہم صرف اس شخص سے مدد لیتے ہیں جو ہماری زندگی کا ساتھی بن چکا ہو، آئندہ خیال رکھنا ۔اس کا لہجہ اتنا پاٹ دار اور صاف تھا کہ مجھے قرآن کا حکم یاد آیا اور میں نےدل میں سوچا کاش میں ساری مسلم لڑکیوں کو اتنا پر اعتماد بنتا دیکھوں ۔‘‘
اللہ نے تو ہر دو کو نظریں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے، اور برائی اور کمزور آغاز پر قدغن لگاتے ہوئے اعتماد کے ساتھ جینے کا حکم دیا۔مضبوط بنیاد پریکساں حقوق اور جذبات کے ساتھ رشتے کی ہمواری کے لیے بزرگوں کی شمولیت اور نکاح کا نظام ترتیب دیا ہے۔یاد رہے کہ مرد ہو یا عورت، جو بھی اپنی کمزوری پر قابو رکھتے ہیں، جسے نفس پر کنٹرول کہا جاتا ہے، ان کا اعتماد ان کی شخصیت میں بحال رہتا ہے۔

ہم جماعتوں کا گروہ(Peer group)

ہم جماعت نوعمروں کا گروپ اس عمر میں سب سے زیادہ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔مخلوط تعلیمی نظام میں یہ چیز اور بھی بھیانک شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ٹی وی اورموبائل پر آزاد معاشرے کے تصور نے کمرشیل ایڈز کے ذریعہ اس کو مزید ارزاں کیا ہے۔حتی ٰکے بچوں کے سوشل سائنس کے نصاب میں یہ تعلیم دی جارہی ہےکہ’’ شادی ایک سماجی ضرورت ہے۔ بلا تفریق رنگ ، نسل، گروہ، طبقہ، قبیلہ، اور مذہب کے شادی کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک کانٹریکٹ کا نام ہے ۔‘‘
اس فہرست میں بلا تفریق صنف کا لاحقہ بھی لگادیا گیا ہے ۔اس طرح کی تعلیم کے ساتھ یہ بچے مخلوط نظام تعلیم کو بھی جھیل رہے ہیں، اور طرہ یہ کہ گھروں میں اس فکر کے رد کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔گھروں میں آپ نے تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم سے آراستہ بہو پر رنگ ،ناک نقشے اور قد کو ترجیح دی ہے تو جان لیں کہ ان نسلوں کی نہ تو مائیں بچوں سے ان کے اسکول، نصاب، اور بچوں کے تعلقات پر گفتگو کے قابل ہیں اور نہ اساتذہ اس بات کو اسلام کی روشنی میں سمجھانے کے قابل ہیں۔ بصورت دیگر تو آپ جانتے ہیں کہ حالت دگرگوں ہے۔بچوں کا فکری رد تو کجا، ان سے بات کرنے اوران کی گفتگو سننے کا وقت نہ بچوں کے پاس ہے نہ ہی والدین کے پاس۔یقین کریں! یہ اسباق بچے ساتویں جماعت میں پڑھ لیتے ہیں اور یہیں سے ان کی فکر پروان چڑھتی۔اس عمر میں بچے پڑھی ہوئی معلومات پر دیر تک سوچتے ہیں۔ اس عمر کو اوور تھنکنگ کی عمر بھی کہا جاتا ہے ۔ان کا دماغ اسی فکر کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔
ان دنوں آپ اپنے شہر کے ساتویں تا دسویں جماعت کے کسی اسکول کا سروے کریں، اس ایج گروپ کے بچے آپ کو BTS کورین بینڈ کے دیوانے ملیں گے۔ اس بینڈ میں نوجوان ڈانسر لڑکوں کو لڑکیاں اپنا کرش مانتی ہیں۔ان کی تصویر کتابوں میں رکھتی ہیں۔گھروں میں والدین کو نہ اسکول کے اساتذہ کو اتنا شعورہے کہ اس عمرکے بچوں کو کس طرح سمجھایا اور روکا جائے۔جب بھی کسی استاذ کے پاس شکایت ہو تو وہ سخت جارحانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔اس عمر کو جنریشن زیڈ کہا جاتا ہے اور اس عمر میں کسی بات سے روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ صرف ایڈریس کریں،آمادگی خود ان میں پیدا ہونی چاہیےیا غیر محسوس طریقے سے تکنیک اختیار کرنی چاہیے۔
اس سلسلےمیں صحبت صالح کی تکنیک کارگر ہوسکتی ہے۔ بچوں کے پاس اسکول کے علاوہ کا ایک گروہ ہو،چلڈرن سرکل ہو ،جہاں کسی بزرگ کی نگرانی انھیں مل سکے ،وہ ان کے مافی الضمیرکے اظہار اور سوالات کی اجازت دیں، تحمل سے اسے سنیں، ان کی بات کا جواب بہت ریشنل طریقے سے دیں، لاجک کے ساتھ ان سے گفتگو کریں ۔ نصاب کے علاوہ دیگر کتابیں انھیں پڑھنے کےلیے دی جائیں، مطالعے کی عادت بھی ان کو مطمئن کرسکتی ہے۔ بچپن ہی سے قرآن سے رجوع کرنا سکھایا جائےتاکہ وہ سمجھنے لگیں کہ ہر پڑھی اور سنی ہوئی بات کو اللہ کے احکام کی کسوٹی پر پرکھ کر قبول کرنا ہی ہمارا شعار ہے۔

والدین میں اظہار محبت کی کمی

اس میں دو رائےنہیں کہ والدین اپنے بچوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں،لیکن اس میں بھی کوئی دوارئے نہیں کہ ہمارے معاشرے میں والدین اور بچوں کے درمیان اظہار محبت کا بڑا فقدان پایا جاتا ہے۔ایک خاتون سے کاؤنسلنگ کے دوران جب وہ اپنی بیٹی سے بات بات پر جھگڑے کی شکایت کررہی تھی، پوچھا گیا کہ آپ اپنی بیٹی کو Hug /معانقہ کرتی یا گلے لگاتی ہیں؟ بیٹی سے پوچھا کہ اپنی ماں سے گلے لگے کتنا عرصہ ہوا ہے؟ تو کہنے لگی بچپن میں امی کی گود میں سر رکھتی تھی۔ یہ بتاتے ہوئے رونے لگی کہ کاش! میری امی مجھے کبھی گلے لگائیں،ان کے کاندھے پر سر رکھ کر سوری کہہ سکوں، یہ میری خواہش ہی رہی۔
جذباتی طور پر گھروں کی یہ بے رنگی دراصل ان بچیوں کو کسی اجنبی کے جملوں پر فریفتہ کرتی ہیں۔اسی طرح والد کی محبت اور شفقت سے بچیاں گھروں میں محروم رہتی ہیں۔ پیارے نبی ﷺ سفر سے لوٹتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے۔ اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے۔ پیشانی پر بوسہ دیتے۔ اپنے نواسوں سے کھیلتے، حتیٰ کہ پیارے نبیﷺ کےپاس وقت نزع بھی بی بی فاطمہ آئیں تو پیارے نبیﷺ نے خود سے قریب کیا، پیشانی پر بوسہ دیا۔والد کا بیٹی سے محبت بھرا تعلق والد کی عزت کے پاس ولحاظ کا احساس اجاگر رکھتا ہے،اعتماد بخشتا ہے۔مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اکثر لڑکیاں اپنے والد کی جلاد صفتی سے اتنی خائف رہتی ہیں کہ کسی تنگ کرنے والے اجنبی سے صرف اس لیے دوستی بنالیتی ہیں کہ اگر گھر میں شکایت کی تو والد اور بھائی تعلیم چھڑوادیں گے، اور اس طرح وہ برائی پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر رابطے کی سہولت

سوشل میڈیا پر روابط کی سہولت نے تعلقات کی راہ کو مزید آسان بنادیا ہے۔ یہاں ہر فریق کو سوائے خدا خوفی اور آخرت کی جوابدہی کے کسی قسم کی نگرانی، سختی اور پابندی نہیں بچا سکتی۔اور ان ہی اوصاف کا پیدا کرنا بہترین حل ہے۔کسی سے طویل گفتگو، کسی کے جذبات سے کھیلنا، وقت گزاری کرنا، رجھانے کے لیے لڑکیوں کا اپنی ڈی پی میں اپنی ذات کا اظہار کرنا، یہ ساری کوششیں انسان کے باطن میں رذالت پیدا کردیتی ہیں۔سوشل میڈیا پر جنس مخالف سے کھلی اور چھپی گفتگو ،اللہ کے سامنے جوابدہی اور خدا ہر جگہ دیکھ رہا ہے کی فکر سے بے نیاز ہونے کی علامت ہے۔یہاں حضرت لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت زیادہ کھلتی ہے کہ’’اے میرے بیٹے!اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا،وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہویا پھر زمین کے اندر(زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو ) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر فرمائیں گے،بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین وباخبر ہے۔‘‘
کھلے چھپے میں برائی کو برائی سمجھنے کا تصور ہی کسی فرد کو بچا سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل قوتوں کی کھلی اور چھپی ہر سازش کا جواب اپنی نسلوں کی تربیت کا نظام ہے۔ تربیت کا نظام انفرادی اور اجتماعی کوششوں کےنتیجے میں انجام پاتا ہے ۔انفرادی کوشش کے طور پر ہم اپنے خاندانوں میں اسلامی اقدار اور احکام خداوندی کا شعور پروان چڑھائیں۔ نہ صرف یہ کہ ہم اپنے گھر کو بچانے کی فکریں ،بلکہ سماج کے تحفظ کےلیے بھی اقدام کریں،ہماری انفرادی کوشش اور گھر کی تربیت ہمیں سماج اور معاشرے سے بے نیاز نہ کردے، کیونکہ جب آگ باہر بھی لگی ہو تو ہماری دہلیز کب تک محفوظ رہے گی؟ اس لیے ہم تماشائی بننے سے اللہ کی پناہ چاہیں!

٭٭٭

ویڈیو :

آڈیو:

ماہرين کے مطابق نوعمري کا يہ زمانہ:
Stress and Strom يعنی جنسی دباؤ کا دور کہلاتا ہے، نوجوان اس دور ميں تميز کھوديتے ہيں ۔جس طرح ايک رينگے والا بچہ رینگتے ہوئے ہر چيز منہ ميں ڈال کر چکھنا چاہتا ہے اور والدين اس کو روکتے ہيں، بچہ کبھی کبھی جھنجھلاہٹ کا شکار بھی ہوتاہے،کيونکہ ايک طرف بچے کی بھوک ،دوسری طرف تجربہ کرنے کی تڑپ اينگزائٹی بڑھاديتی ہے۔ کيا اس مثال ميں والدين کی خير خواہی واضح نہيں ہے ؟والدين نرمی سے بچے کو يہ سمجھانے ميں کامياب ہوجاتے ہيں، اسے اپنی جبلت پر کنٹرول سکھاديتے ہيں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے