مئی ۲۰۲۳

صفحۂ ہستی پہ لکھتی ہے اصولِ زندگی
اس لئے ایک مکتبہ اسلام کہلاتی ہے ماں

کرۂ ارض میں تخلیق نوع انسانی پر دو طرح کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ حقوق اللہ و حقوق العباد۔ حقوق اللہ یعنی بندوں پر اللہ کے حقوق اور حقوق العباد جن کا تعلق بندوں کے مابین ہے۔ جس میں سب سے زیادہ مقدم رشتہ والدین کا ہے۔ والدین اولاد کی زندگی میں ایک قیمتی اثاثہ و کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں۔ دینِ اسلام نے جہاں عورتوں کو مردوں کے بالمقابل ذمہ داریاں و اختیارات کم رکھے ہیں وہیں پر عورت کو بحیثیتِ ماں ، باپ کے مقابل تین گنا زیادہ فوقیت بخشی ہے۔ یہ اجاگر کر دیا ہے کہ روئے زمین پر بشر کا ہر دن ہر پل ہر سانس ماں کے مرہونِ منت ہے۔ جس کے زمرے میں کوئی خاص دن (Mother’s Day) کا تصور ہی نہیں۔ ہر دن ماں کی موجودگی میں انسان کے لیے مرہونِ احسان ہے بعد از موت بھی ماں کا والدین کا احسان بطور صدقہ جاریہ اولاد پر لازم ہے ۔
قرآن و حدیث میں بکثرت مقامات پر ماں کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس کے درجات پر اولاد کے لئے دو ٹوک ہدایت فرما دی گئی ہے۔ جس میں ذرا سی بھی غفلت موجبِ ہلاکت ہے۔ حضرت محمدﷺ جب اپنے محبوب و حسن اعمال کو گنوایا تو ماں کی قدر و حق شناسی کو فوقیت دی۔ مصحف کی پانچ اہم سورتوں میں توحید کے فوری بعد والدین کی مقام و مرتبہ اور حقوق کی پاسداری کا تذکرہ ملتا ہے۔ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی شکر گزاری کی تاکید فرمائی گئی۔ اولاد کی پیدائش میں ماں کی مشقتوں و قربانیوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَيۡهِ اِحۡسَانًا‌ ؕ حَمَلَـتۡهُ اُمُّهٗ كُرۡهًا وَّوَضَعَتۡهُ كُرۡهًا‌ ؕ وَحَمۡلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰـثُوۡنَ شَهۡرًا‌ ؕ حَتّٰٓى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِيۡنَ سَنَةً  ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮهُ وَاَصۡلِحۡ لِىۡ فِىۡ ذُرِّيَّتِىۡ ؕۚ اِنِّىۡ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاِنِّىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۞ ۞ (سورہ الاحقاف:15)

ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاوٴ کرے۔ اُس کی ماں نے مشقّت اُٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقُت اُٹھا کر ہی اس کو جنا، اور اس کے حمل  اور دُودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پُوری  طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اُس نے کہا’’ اے میرے ربّ ، مجھے توفیق دے کہ میں تیری اُن نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تُو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں، اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تُو راضی ہو، اور میری اولاد کو بھی نیک بناکر مجھے سُکھ دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تابع فرمان (مسلم)بندوں میں سے ہوں۔‘‘

ماں نے اسے ضعف پر ضعف اٹھا کر نو ماہ تک کوکھ میں رکھا پھر جنم دیا اس کے بعد دو سال کا عرصہ دودھ چھڑانے میں لگا۔ ان تینوں مراحل جھیلنے کے سبب باپ کی بہ نسبت ماں کی عظمت کو بلند تر قرار دیا گیا ۔
ایمان ، اسلام و احسان کی ترتیب کی مناسبت سے اللہ کے نزدیک بہترین عمل کرنے والا محسن کہلاتا ہے۔ بندہ نماز اور زکوٰۃ و دیگر عبادات صحیح طریقے کے ساتھ ادا تو کر لیا تو مزید احسن طریقہ اپنایا تو گویا یہ ایک اعلیٰ درجے کا نکتہ ہے۔ لیکن جب والدین کا تذکرہ آیا تو ان کے ساتھ جو معاملہ احسن نہ ہو وہ اللہ کے نزدیک ناقابلِ قبول ٹھہرا دیا گیا۔ یہ دین کا واحد بنیادی نکتہ ایسا ہے کہ احسان سے کم کرو گے تو حرام چیزوں کی فہرست میں قرار دیا جائے گا۔ والدین پر مخصوص کر دی گئی ہے بہترین اطاعت ، بہترین صبر ، بہترین مسکراہٹ ، بہترین وقت و صلاحیتیں۔ ان کے ساتھ نرمی و عاجزی اور کندھے جھکا کر رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔
سوره الاسراء آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اور تیرا رب فیصلہ کر چکا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔۔۔ اُف کے معنی بیزاری سے منہ پھیرنے کے ہیں۔ ماں کا دائرہ کار اصلاً اس کا گھر اور اولاد کی صحیح تربیت و نشونما کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اولاد کی غلطیوں پر تنبیہہ کرتے اور ان کو صحیح راہ پر گامزن رکھتے ہوئے اس تگ و دو ماں کی ساری جوانی ڈھل جاتی ہے۔ الغرض معاشرے میں ایسی مائیں بھی پائیں جاتی ہیں جو کم عمری میں بیوہ ہونے کے باعث اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ نہیں دیتیں بلکہ گھر گھر برتن مانجھ کر اولاد کی کفالت کرتی ہیں۔
اسلام کی سرخروئی کی گن گاتی داستانوں کا راز امت کی ماؤں کی قربانی و جانفشانی میں پنہاں ہے۔ آج سماج میں کامیاب چمکتے ہوئے روشن ستارے اپنی ماؤں کی پشت پناہی کی داستان سناتی ہیں۔۔یہ وہ مائیں ہیں جن کے فرزندوں نے فولادی چٹان بن کر کفار کے وار جھیلے۔ حضرت خالدؓ بن ولید جیسا جری و قوی سپہ سالار اور محمد بن قاسم جیسا کم سن نوجوان ان کی گودوں میں پروان چڑھے جنہوں نے اسلامی تاریخ میں اپنے سنہرے چھاپ چھوڑ دیئے۔ حضرت عبداللہؓ بن زبیر حضرت اسماؓ کی تربیت کا منہ بولتا نمونہ تھے جنہوں نے حجاج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا اور شہادت کا جام نوش فرمایا۔
آج ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل ماں کے صحیح مقام و مرتبے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ماں کا ٹوکنا اور بار بار تنبیہہ اولاد کو ناگوار لگتا ہے۔ حالانکہ ان میں اولاد کے لئے سامانِ بقا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ماؤں کی عظمت کو اجاگر کرنا ہے تو قرآن و حدیث کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔۔اللہ رب العالمین ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے ۔۔آمین

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے