دسمبر ۲۰۲۳

2024ء کے لوک سبھا الیکشن

2024ء کے لوک سبھا الیکشن سر پر ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی انتخابات کے لیے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں ۔قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) ایک بارپھر اقتدار میں واپسی کے لیے پوری طرح کوشاں ہے،جبکہ اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کررہی ہے۔اسی سلسلے میں اس نے اپوزیشن جماعتوں کا انڈیا الائنس بناکر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا،تاہم انڈیا اتحاد کے لیے مشکل بات یہ سامنے آئی ہے کہ سیٹ تقسیم پر ابھی تک کوئی رضا مندی نہیں بن پا رہی ہے۔
خبروں کے مطابق، پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد ہی سیٹ تقسیم سے متعلق فیصلہ کیا جائے گ،اجبکہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال کا 30 ستمبر تک سیٹ تقسیم کا فارمولہ مسترد ہوگیا ہے۔
اس چناؤ سے قبل پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سیمی فائنل کا کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، 36 گڑھ اور میزورم کے اسمبلی الیکشن کے فیصلے تین دسمبر کو آنے والے ہیں،ان ریاستوں میں لگ بھگ 20 کروڑ کی آبادی ہے،راجیہ سبھا اور لوک سبھا کی 15 فی صد سیٹیں یہیں سے ہیں۔ان انتخابات میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا کانگریس بی جے پی کو ان ریاستوں میں ہرا پائے گی؟ان الیکشنز سے یہ بات پتہ چلے گی کہ کیا کانگریس اپنی حکومت کی بنیاد پر بی جے پی کو اپنی ہی حکومتی ریاستوں میں ہرا پاتی ہے یا نہیں؟اس کے علاوہ ان ریاستوں میں کانگریس کی پالیسی 2024ء کے لوک سبھا کے لیے حکومتی ماڈل ثابت ہو گی؟
کانگریس کی طرف سے ریاست میں تعلیمی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے تمام سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے ہی انگلش میڈیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،جو اپنے آپ میں ایک قابل ستائش قدم ہے۔ اس کے علاوہ ملازمین کو پی ایس کا تحفہ دیا گیا۔
ایک اہم مدعا یہ بھی ہے کہ اتحادی پارٹیوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟قریب 34 ممبر ان پانچوں ریاستوں سے آنے والے ہیں،ابھی 245 سیٹوں میں 98 سیٹ I.N.D.I.A کے پاس ہیں جبکہ این ڈی اے کے پاس 109 سیٹیں ہیں۔
راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت نے بڑا بیان دے کر سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچا دی ہے۔اشوک گہلوت نے کہا ہے کہ 2024ء میں کانگریس کی طرف سے راہل گاندھی وزیر اعظم کے عہدے کا چہرہ ہوں گے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ 26 جماعتوں کی باہمی رضامندی سے لیا گیا ہے اور اس کے بعد ہی این ڈی آئی اے اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ جب اشوک گہلوت سے پوچھا گیا کہ این ڈی اے 2024ء کے انتخابات میں 50 فی صد ووٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے تو انھوں نے کہا کہ پی ایم مودی اس خواب کو کبھی پورا نہیں کر پائیں گے۔ جب نریندر مودی کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی،انہیں %50 ووٹ نہیں ملے تھے،اب این ڈی اے کا ووٹ شیئر بڑھنے کے بجائے کم ہوگا۔
مغربی بنگال میں سی اے اے کو نافذ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے سوکانت مجمدار نے کہا کہ بی جے پی کے پاس اپنے وعدوں کو نبھانے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ہم نے رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا اور ہم نے اسے پورا کیا۔سی اے اے ہمارا ہدف ہے اور ہم اسے حاصل کریں گے۔اسے 2024ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل نافذ کر دیا جائے گا۔
ریاست میں 2019ء کے لوک سبھا اور 2021ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران متنازعہ قانون کو نافذ کرنے کا وعدہ بی جے پی کا اہم انتخابی موضوع رہا تھا۔بھگوا پارٹی کے لیڈران اسے ریاست میں بی جے پی کی مضبوطی کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔ادھر، بنگال کی برسراقتدار جماعت ٹی ایم سی،جو سی اے اے کی مخالفت کرتی رہی ہے،اس نے کہا ہے کہ وہ ریاست میں اسے کبھی نافذ نہیں ہونے دے گی۔ٹی ایم سی نے کہا کہ بی جے پی لیڈران کی طرف سے اس طرح کے بیانات کا مقصد مرکز کی معیشت کے بندوبست میں ناکامی سے توجہ ہٹانا ہے۔
ماہرین کے مطابق 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد کانگریس سیاسی طور پر بہت کمزور ہو گئی تھی،لیکن راہل گاندھی نے تقریباً چار ہزار کیلومیٹر کی پیدل یاترا کر کے اس کو سیاسی منظرنامہ میں لا کھڑا کیا ہے۔
راہل گاندھی کی یاترا کے بعد ہونے والے متعدد سرویز میں یہ نتیجہ برآمد ہوا تھا کہ ان کی مقبولیت بڑھی اور وزیرِ اعظم مودی کی گری ہے۔ مقبولیت کا گراف اوپر جانے کی وجہ سے راہل،نریندرمودی سے مقابلے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔
ان کی یاترا کے بعد دو ریاستوں کرناٹک اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو کامیابی ملی تھی۔اس نے کرناٹک میں بی جے پی سے حکومت چھین لی،،جبکہ ہماچل پردیش میں دوسری بار اپنی حکومت کو برقرار رکھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگرچہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات الگ الگ ایشوز پر لڑے جاتے ہیں تاہم ان پانچوں اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کا اثر کسی نہ کسی طور پارلیمانی الیکشن پر ضرور پڑے گا۔
دیکھتے ہیں کہ 2014ء اور 2019ء کے بعد عوام اپنا فیصلہ کس کے حق میں سنائیں گے اور بھاجپا 2024ء میں اپنی حکومت بنا پاتی ہے یا نہیں؟

 یوپی میں حلال مصنوعات پر پابندی

ہندوستان کی سب سے کثیر آبادی والی ریاست اترپردیش میں 18 نومبر، سنیچر سےحلال سرٹیفیکٹ (سند) والی اشیاء پر پابندی لگا دی گئی ہے۔حالیہ دنوں میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں حلال مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ پابندی حلال کی سند دینے والے اداروں کے خلاف لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس تھانے میں ایک ایف آئی آر کے بعد عمل میں آئی ہے۔
خبر رساں ادار اے این آئی اور سوشل میڈیا پر جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق یوپی حکومت نے کہا ہے کہ تیل، صابن، ٹوتھ پیسٹ اور شہد جیسی ویجیٹیبل مصنوعات کے لیے حلال سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ اس سے مخصوص کمیونٹی اور اس کی مصنوعات کو نشانہ بنانے کے لیے دانستہ مجرمانہ سازش کا پتا چلتا ہے۔
حکومت کا مزید کہنا ہے کہ دوا، طبی آلات اور کاسمیٹکس سے متعلق حکومتی قواعد میں لیبل پر حلال سرٹیفیکیشن کو نشان زد کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی دوا اور کاسمیٹکس ایکٹ 1940ء اور اس سے متعلقہ قواعد میں حلال سرٹیفیکیشن کا کوئی ذکر ہے۔ دواؤں، طبی آلات یا کاسمیٹکس کے لیبل پر حلال سرٹیفیکیشن کا براہ راست یا بالواسطہ ذکر مذکورہ ایکٹ کے تحت جھوٹ ہے، جو اسے قابل سزا جرم بناتا ہے۔
جس کے بعد سے ہی اتر پردیش کے مختلف حصوں میں حلال سرٹیفائد مصنوعات کی دکانوں پر چھاپہ ماری کی جا رہی ہے اور کاروباریوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے میں جمعے کو حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں مختلف دفعات کے تحت حلال سرٹیفیکیٹ دینے والے چار اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ایف آئی آر میں چنئی کی حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ،دہلی کی جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ،حلال کونسلنگ آف انڈیا اور مہاراشٹر میں ممبئی کی جمعیۃ علماء کے ساتھ ساتھ حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر پیسے وصولنے میں ملوث کچھ نامعلوم افراد شامل ہیں۔
اس پر مختلف ملی و سماجی تنظیمیں اپنے بیانات جاری کر رہی ہیں۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور پسماندہ محاذ کے رہنما وسیم سیفی نے اوکھلا میں حلال مصنوعات پر پابندی سے متعلق ایک پریس کانفرنس کی،اجس میں انھوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں حلال سرٹیفائد مصنوعات پر پابندی عائد کرنے سے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ جو بھی نان ویج غذا تناول فرماتے ہیں ان کی صحت کے لیے حلال مصنوعات ہی فائدہ مند ہیں،کیونکہ حلال گوشت اس طریقے سے ذبح کیے جانے والے گوشت کو کہتے ہیں جس میں سے تمام خون جسم سے نکل جائے جبکہ جھٹکے والے گوشت میں خون باقی رہتا ہے،ایسے میں خون باقی رہنا بیماریوں کا باقی رہنا ہے اور اس سے لوگوں میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔یہ صرف اور صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا گیا اقدام ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس سے پہلے انڈین وزارت تجارت و صنعت کے محکمہ ایگریکلچر اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (اپیڈا) نے حلال گوشت سے متعلق ہدایت نامے سے لفظ ’’حلال‘‘کو ہٹا دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ گوشت برآمد کرنے والی سبھی کمپنیوں کو اب حلال سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہو گی،بلکہ صرف ان کمپنیوں کو ہو گی جو مسلم ممالک کو گوشت برآمد کرتی ہیں۔
یوگی حکومت کا یہ فیصلہ ملک بھر بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جہاں اسے سراہ رہی ہے وہی کچھ کچھ لوگ اسے بے وقوفی بتا رہے ہیں۔
ہندوستان میں حلال کا موضوع ہمیشہ سے چرچے میں رہا ہے۔الیکشن کے پیشِ نظر اس کو حکومت کی ایک پالیسی بھی بتایا جارہا ہے اور قوی امکان ہے کہ اس قانون کو دوسرے بھاجپا سرکار والی ریاستوں میں بھی متعارف کروایا جائے گا۔
اس طرح کی بحث کے پس منظر میں عوام کے حقیقی مسائل کہیں گم ہوتے دکھتے ہیں،اس طرح کے قانون محض لوگوں کے آپسی اتحاد و بھائی چارے کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے