دسمبر ۲۰۲۳
زمرہ : ٹی ٹائم

فیصلہ

ایک سکہ جب انگوٹھے کے ناخن پر رکھ کر اچھالا جاتا ہے تو ہیڈ یا ٹیل آنے کے امکانات 50/50 فی صد ہوتے ہیں۔البتہ اسٹین فورڈ کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ٹاس کرنے سے پہلے انگوٹھے پر ہیڈ ہو یا ٹیل، جو سمت اوپر ہوگی اس کا امکان ایک فی صدبڑھ جاتا ہے۔یعنی اگر ہیڈ اوپر ہے تو ہیڈ کا امکان 51/49 ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگ فیصلہ کرنے میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔دو چیزوں، دو باتوں میں کسی ایک کا چناؤ ان کےلیے امتحان بن جاتا ہے۔آپ بھی اگر ایسے ہی ہیں تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔آپ سکہ نکالیں! سکے کی دونوں سمتوں سے ایک ایک فیصلہ منسوب کریں،سکہ اچھالیں اور واپس اسے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر آنے دیں۔جیسے ہی سکہ ہتھیلی پر آئے ،دوسرے ہاتھ سے اسے چھپا لیں۔اب آپ کا دل کون سی سمت دیکھنے کا کر رہا ہے؟
یہی آپ کا فیصلہ ہے، سکہ بغیر دیکھے جیب میں رکھ لیں۔

اسلوب کا اثر

حضرت والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ آغاز شباب میں دوسروں کی تردید کے لیے بڑی شوخ اور چلبلی تحریر لکھنے کا عادی تھا، اور تحریری مناظروں میں میرا طرز تحریر طنز و تعریض سے بھرپور ہوتا تھا۔ ’’ختم نبوت ‘‘میں نے اسی زمانے میں لکھی تھی ،لیکن اس کے شائع ہونے کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے میرے انداز تحریر کا رخ بدل دیا ۔
اور وہ یہ کہ میرے پاس ایک قادیانی کا خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب میں جو دلائل دیے ہیں وہ بنظر انصاف مجھے بہت مضبوط معلوم ہوئے۔ اس کا تقاضا تھا کہ میں مرزا صاحب کی اتباع سے تائب ہو جاؤں، لیکن آپ نے کتاب میں جو اسلوب اختیار کیا ہے، وہ مجھے اس اقدام سے روکتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ حق پر ہوتے ہیں، وہ دلائل پر اکتفا کرتے ہیں، طعن و تشنیع سے کام نہیں لیتے۔ اس لیے میں اب تک اپنے مذہب پر قائم ہوں، اور آپ کے طعن و تشنیع نے دل میں کچھ ضد بھی پیدا کر دی ہے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ ان صاحب نے یہ بات کس حد تک صحیح لکھی تھی ،لیکن اس واقعے سے مجھے یہ تنبہ ضرور ہوا کہ طعن و تشنیع کا یہ انداز مفید کم ہے اور مضر زیادہ۔ چنانچہ میں نے اس کے بعد کتاب پر اس نقطۂ نظر سے نظر ثانی کی اور اس میں سے ایسے حصے حذف کر دیے جن کا مصرف دل آزاری کے سوا کچھ نہ تھا، اور اس کے بعد کی تحریروں میں دل آزار اسلوب سے مکمل پرہیز شروع کر دیا۔

کتاب:میرے والد میرے شیخ اور ان کا مزاج و مذاق،از: مفتی محمد تقی عثمانی

انتخاب

‏جب اسٹیو کنگ نے مایوسی کے عالم میں اپنا پہلا ناول ردی کی ٹوکری میں پھینکا تو اس کی بیوی نے اسے لے کر ایک پبلشنگ ہاؤس کو بھیج دیا، جو بعد میں شائع ہوا۔اب دنیا بھر میں اس کی فروخت شدہ کاپیوں کی تعداد 350 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔
لہٰذا، زندگی میں ایسے شخص کا انتخاب کریں جو آپ کی صلاحیتوں پر آخری حد تک یقین رکھتا ہو، جب آپ بے چین ہوں وہ آپ کی امید اور آپ کا سہارا ہو۔ جب دنیا آپ سے نفرت کرتی ہو، اسے تب بھی آپ سے محبت ہو۔

بوجھ نہیں،بھائی

جاپان میں جنگ کے دوران ایک لڑکےنے اپنے مردہ بھائی کو دفنانے کےلیے اپنی پیٹھ پر لاد رکھا تھا۔یہ دیکھ کر ایک سپاہی نے اس سے کہا کہ تم اس بوجھ کو نہیں اٹھا سکتے،کیونکہ تم بہت تھکے ہوئے لگتے ہو اور اس بوجھ کے ساتھ آگے چلنے کے قابل نہیں ہو۔
معلوم ہے اس بچے نے کیا جواب دیا؟اس نے کہا کہ یہ بوجھ نہیں،میرا بھائی ہے۔سپاہی اس کے احساسات سمجھنے کے بعدخوب رویا۔
تب سے مردہ بھائی کی لاش اٹھائے اس لڑکے کی تصویر جاپان میں ہمدردی اور باہمی تعاون کی علامت ہے۔
آج ضروری ہے کہ ہم زندگی میں اس جملے کو نمونۂ عمل بنائیں۔کوئی بھی ضرورت مند شخص ملے تو سوچیں کہ یہ بوجھ نہیں،یہ میرا بھائی ہے۔وہ گر جائے تو اٹھالیں،تھک جائے تو اس کی مدد کریں،کمزور ہو تو اسے سہارا دیں،غلطی کرے تو معاف کریں،اور اگر دنیا اسے چھوڑ دیتی ہے تو اسے اپنے کندھوں پر لے لیں، کیونکہ وہ بوجھ نہیں،آپ کا بھائی ہے۔

تحریر:سُکھ پال گجر،ترجمہ:احمد بن نذر

مشورہ

مشہور ادیب ’’ ہنری ملر‘‘ نے ایک مرتبہ پیرس میں کسی دکان پر سیب کا رس پیا، گلاس لوٹاتے ہوئے اس نے دکاندار سے پوچھا:
’’تم دن بھر کتنے سیبوں کا رس بیچ لیتے ہو ؟‘‘
’’تقریباً ایک من سیبوں کا۔‘‘ دکان دار نے بتایا۔
ہنری نے کہا :
’’میں تمھیں ایک مشورہ دیتا ہوں، جس پر عمل کرکے تم تقریباً دو من سیبوں کا رس بیچ سکتے ہو۔‘‘
’’ کیسے ؟‘‘ دکاندار بے قرار ہو گیا۔
’’ پوراگلاس بھر کردیا کرو ۔‘‘ہنری نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا۔

عوام کےحقوق

جرمنی کے فرنکفرٹ ایئرپورٹ کے قریب ایک گاؤں جس کا نام ٹرائیر تھا،وہاں کی رہائشی ایک بوڑھی عورت نےفرنکفرٹ انٹر نیشنل ائر پورٹ کے خلاف عدالت میں کیس دائر کر دیا۔ جس کی وجہ عورت نے کچھ یوں بیان کی کہ رات کے وقت جہازوں کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں رات کو سو نہیں سکتی، جس کی وجہ سے میری طبیعت اکثر خراب رہتی ہے۔
عدالت میں جج نے اُس بوڑھی عورت کی پوری بات سننے کے بعد عورت سے پوچھا کہ آپ اب کیا چاہتی ہیں؟اس شور کے عوض آپ ایئر پورٹ سے کچھ معاوضہ حاصل کرنا چاہتی ہیں یا ایئر پورٹ سے دور ایک عدد گھر حاصل کرنا چاہتی ہیں؟
عورت نے جواب میں کچھ یوں کہا کہ میں یہاں اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہوں، اور عرصۂ دراز سے یہاں زندگی گزار رہی ہوں۔ چونکہ اب میری طبیعت اس قدر شور برداشت نہیں کر سکتی، اسل لیےاس مسئلے کا کوئی اور معقول حل تلاش کیا جائے ،ساتھ ہی اس عورت نے یہ بھی کہا کہ نہ تو مجھے پیسوں کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں جانا چاہتی ہوں۔
اس بات سے اُس وقت کے موجودہ حکام بھی بہت پریشان ہوئے کہ اب اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے؟ نہ تو عورت یہاں سے جانا چاہتی ہے اور نہ اتنے بڑے ایئر پورٹ کو کہیں اور منتقل کیا جا سکتاہے۔ ایئرپورٹ کے حکام نے عورت کو کیس سے پیچھے ہٹ جانے کےلیے بے شمار پیش کشیں کیں۔ایئر پورٹ سے دور شان دار گھر اور ساتھ بڑی رقم دینے کی پیش کش بھی کی، لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
تھک کر جج نے کہا کہ اگر ہم آپ کی نیند کے ٹائم کو مینیج کر لیں،آپ سو رہی ہوں، تب ایئر پورٹ پر کوئی فلائٹ نہیں اترے گی۔ کیا آپ کو یہ فیصلہ منظورہے؟
عورت نے مطمئن ہوکر اس فیصلے پر ہامی بھری اور اسے منظوری دی۔چنانچہ تب سے لے کر آج تک فرنکفرٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر رات 11 سے لے سے لے کر صبح 5 بجے تک کوئی فلائٹ نہیں اترتی۔
یہ ہے عزت کا وہ مقام و انصاف جو جرمنی اپنے عوام اور ٹیکس پیئر لوگوں کو دیتا ہے۔یہاں ہر انسان کے حقوق برابر ہیں اور ہر ایک کےلیےانصاف کا معیار یکساں ہے۔

پچیس لفظوں کی کہانی
کامیاب

جاب نہیں مل پائی۔ کاروبار شروع کیا ، ڈوب گیا۔ کھیتی میں لگا ، نقصان اٹھانا پڑا۔
اب ’’موٹیویشنل اسپیکر‘‘ہوں، کامیاب ہونے کے طریقے بتاتا ہوں ۔

احمد بن نذر

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے