اوپن اے آئی میں سیم آلٹ مین کی واپسی
اوپن اے ائی جو کہ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کی سب سے پہلی کمپنی ہے،آج کل اپنے فیصلوں کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔اوپن اے آئی ایک امریکی مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی تحقیقی لیبارٹری ہے جو غیر منافع بخش اوپن اے آئی انکارپوریٹڈ اور اس کی غیر منافع بخش ذیلی کارپوریشن اوپن اے آئی لمیٹڈ پارٹنرشپ پر مشتمل ہے۔اوپن اے آئی ایک دوستانہ اے آئی کو فروغ دینے اور تیار کرنے کے لئے اے آئی تحقیق مہیا کرتا ہے۔ اس تنظیم کی بنیاد 2015ء میں سان فرانسسکو میں سیم آلٹمین،ریڈ ہوفمین،ایلون مسک،الیا سوٹسکیور وغیرہ نے رکھی تھی۔
17 نومبر کو کمپنی نے کو فاؤنڈر اور سی ای او سیم آلٹ مین کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔موجودہ دور میں سیم آلٹ مین،اوپن اے ائی اور چیٹ جی پی ٹی کا دوسرے نام ہیں۔اے ایف پی کی خبر کے مطابق چیٹ جی پی ٹی کو تقریباً ایک سال قبل 38 سالہ آلٹ مین نے تیار کیا تھا۔چیٹ بوٹ چیٹ جی پی ٹی کے اجراء کے ساتھ وہ ٹیک کی دنیا میں ایک سنسنی بن گئے تھے۔
اوپن اے آئی بورڈ نے ایک بیان میں کہا کہ آلٹ مین کو برطرف کرنے کا فیصلہ انتہائی غور و فکر کے ساتھ کیا گیا ہے۔بہت غور و فکر کے بعد بورڈ اس نتیجے پر پہنچا کہ سیم آلٹ مین اپنے کام کے بارے میں واضح نہیں تھے،جس کی وجہ سے ان کے لیے اپنے کام کو انجام دینا مشکل ہو گیا تھا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بورڈ کو اب اوپن اے آئی کی قیادت جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر اعتماد نہیں ہے۔مزید یہ بھی کہا گیا کہ بورڈ اوپن اے آئی کے قیام اور ترقی میں سیم کی بہت سی شراکتوں کے لیے شکر گزار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے ساتھ نئی قیادت ضروری ہے۔ساتھ ہی آلٹ مین کی جگہ کمپنی کی چیف ٹیکنالوجی آفیسر میرا موراتی کو عبوری بنیادوں پر مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
18 نومبر کو سیم آلٹ مین کی ٹویٹ کے بعد سے لوگوں میں بے چینی بڑھنا شروع ہو گئی اور قریب ہر کسی کا یہی سوال تھا کہ سیم آلٹ مین کو کیوں نکالا گیا؟اس پورے تنازعے کی وجہ سے کمپنی کا اسٹاک کافی متاثر ہوا اور اس کے انویسٹرز کو بھی اس کا خمیازہ سے بھگتنا پڑا۔
سیم کی ٹویٹ کے بعد ایک بغاوتی ماحول بن گیا اور لوگوں کو امید تھی کہ کمپنی دباؤ میں آ کر انھیں دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کر دے گی،لیکن پیر کی رات کو کمپنی نے ایمٹ شئیر کو اپنا انٹرم سی ای او چننے کا اعلان کیا۔
مائیکروسافٹ نے اوپن اے آئی ایل پی میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور جنوری 2023ء میں دوسری کثیر سالہ سرمایہ کاری کی، جو کہ جی پی ٹی -4 کے لیے 10 ارب ڈالر ڈالر بتائی گئی ہے۔ اوپن اے آئی کے اس فیصلے پر اگلے دن مائیکروسافٹ کے سی ای او ستیا نڈیلا نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ نئے سی ای او کے ساتھ تعاون کریں گے اور سیم آلٹ مین اور ان کی باقی ساتھیوں کو مائیکروسافٹ ایڈوانس اے ائی ریسرچ پر جاب دیں گے۔
اس اعلان کے بعد اوپن اے ائی کے 95 فی صد اہلکاروں نے کمپنی کو دھمکی دی کہ سیم آلٹ مین کو دوبارہ کمپنی پر رکھا جائے ورنہ وہ لوگ بھی جاب چھوڑ کر مائیکروسافٹ کی ٹیم کو جوائن کر لیں گے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق آلٹ مین کے جڑتے ہی مائیکروسافٹ کے اسٹاک آل ٹائم ہائی تک پہنچ گئے،پر اگلے دن ہی سان فرانسسکو میں موجود کمپنی اوپن اے آئی نے منگل کو رات گئے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہم اصولی طور پر سیم آلٹمین کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں، جس میں وہ ایک نئے بورڈ کے ساتھ بطورِ سی ای او اوپن اے آئی میں واپس آئیں گے۔ خبر رساں ادارے ’’ایسوسی ایٹڈ پریس‘‘کے مطابق اوپن اے آئی کا یہ نیا بورڈ اس بورڈ کی جگہ لے گا جس نے جمعے کو سیم آلٹمین کو برطرف کیا تھا۔
نئے بورڈ کی سربراہی بریٹ ٹیلر کریں گے جو ایلون مسک کی جانب سے ٹویٹر خریدے جانے سے قبل اس کے بورڈ کی سربراہی بھی کر رہے تھے۔
اے آئی سے متعلق اس مباحثہ نے قریب پوری ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ہلچل پیدا کردی تھی۔قابلِ غور ہے کہ اے آئی ہمارا مستقبل ہے اور آگے جو لوگ اس کو سمجھ کے اپنا کیریئر بنا پائیں گے وہی اس میدان میں ٹکیں گے،جبکہ جن لوگوں کو اس سے ناواقفیت ہو یا اس سے خود کو جوڑ نہیں پائیں گے،پیچھے رہ جائیں گے۔ اے آئی اپنے ساتھ کئی سارے تحفظاتی خدشات بھی لا رہا ہے،جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً سائبرکرائمس میں اضافہ، جھوٹی خبریں بنانا وغیرہ ،جس سے ایک بڑی سطح پر لوگ متاثر ہوں گے۔
ایک ہندوستانی ہونے کی وجہ سے یہ بھی سوچنا ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اس تیزی سے بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی میں کیا کردار ادا کرنے والے ہیں۔اوپن اے آئی لگ بھگ ایک سال میں صفر سے 90 بلین ڈالر کی کمپنی بن چکی ہے، جس سے اس شعبہ کی بڑھتی ہوئی طلب اور معاش پر اس کے اثر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری حکومت آئی آئی ٹی کی طرح اے آئی کے لیے کیا قدم اٹھاتی ہے؟
قطر نے آٹھ ہندوستانی بحریہ ریٹائرڈ افسروں کو سنائی سزائے موت
قطر کی ایک عدالت نے گذشتہ سال اگست میں دوحہ سے گرفتار کیے جانے والے ہندوستانی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو سزائے موت سنائی ہے۔ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ قطر کی عدالت نے ہندوستانی شہریوں کو سزائے موت دینے کا فیصلہ 26 اکتوبر کو سنایا تھا۔ تاہم اُن کو کن الزامات کے تحت یہ سزا سنائی گئی ہے، فی الحال اس کی تفصیل جاری نہیں کی گئی ہے۔
ان افسران کے نام کمانڈر (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ریٹائرڈ) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ریٹائرڈ) سوربھ وششت، کمانڈر (ریٹائرڈ) سوگناکر پکالا، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال اور سیلر راگیش ہے۔
سزا پانے والے یہ تمام افسران دوحہ میں قائم ’’الظاہرہ العالمی کنسلٹنسی اینڈ سروسز‘‘کے لیے کام کرتے تھے اور اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ۔یہ کمپنی قطر کی بحریہ کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی ایک عمانی شہری کی ہے جو رائل عمانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر ہیں۔انھیں بھی باقی آٹھ افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا،لیکن تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
ان سبھی اہلکاروں کو گذشتہ سال اگست میں حراست میں لیا گیا تھا اور ستمبر سے یہ سبھی جیل میں ہیں۔ خبروں کے مطابق انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔
یہ معاملہ سرخیوں میں اس وقت آیا جب گذشتہ سال 25 اکتوبر کو ڈاکٹر میتو بھارگو نام کی ایک خاتون نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ انڈین بحریہ کے آٹھ سابق اہلکار، جنھوں نے مادر وطن کی خدمت کی ہے، گذشتہ 57 دنوں سے دوحہ میں غیر قانونی حراست/قید میں ہیں۔ہندوستانی حکومت اپنے افسران کے لیے کیا کر سکتی ہے؟
اگر قطر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1916ءسے یہ برطانیہ کی سرپرستی میں تھا۔1939ءمیں قطر میں خام تیل کا پتہ چلا۔کچھ سالوں بعد 1971ء میں برطانوی حکومت یہاں سے چلی گئی اور پھر اسی سال خلیج فارس میں قدرتی گیس کی دریافت ہوئی۔دھیرے دھیرے قطر ترقی کرتا گیا اور معاشی طور پر خوش حال ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی قطر کے تحفظ کا مسئلہ بھی بڑھتا گیا۔ چونکہ قطر ایک کم آبادی والا ملک ہے ،2021ء تک گنتی کے مطابق قطر کی آبادی26.9 لاکھ ہے،لہٰذا قطر نے باہری ملکوں سے تحفظاتی ایکٹ سائن کیے، جس میں اقوام متحدہ اہم ہے۔قطر کا 35 ہزار کیلومیٹر سے بھی زیادہ کا علاقہ سمندر سے گھرا ہوا ہے،لہٰذا بحری تحفظ قطر کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
قیدی افسران کے متعلق اندازاہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے جاسوسی کی ہے اور کچھ معلومات قطر سے باہر بھیجا ہے۔قید کے ایک مہینے تک ان افسروں کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتہ تھا۔ان سب کو الگ الگ جیل میں تنہا رکھا گیا، اگست میں ان سب کو ایک جیل میں منتقل کر دیا گیا اور انھیں اپنے فیملیز سے ملنے اور فون پر بات کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ان سب کو دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ان افسروں کا کیس آگے بڑھ رہا ہے،لیکن 26 اکتوبر کو قطر کے کورٹ میں ان سب کے خلاف سزائے موت سنا دی گئی۔
اگر ہندوستان چاہے تو اس مسئلے کو قطر کے ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی ذاتی طور پر قطر کے امیر سے بات کریں تو بھی معاملے کا حل نکل سکتا ہے،کیونکہ 18 دسمبر کو قطر کے لوگ قومی دن کی طرح مناتے ہیں،اور اس میں قطر کے امیر کئی سارے قیدیوں کو معافی دیتے ہوئے رہا کر دیتے ہیں۔لہٰذا اگر ہندوستانی حکومت ڈپلومیٹ طریقے سے قطر پر دباؤ بناتی ہے تو امید ہے کہ ان افسران کو معافی مل جائے، تیسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ 2015ء میں جب قطر کے امیر ہندوستان آئے تھے اس وقت ہندوستان اور قطر کے مابین ایک ڈیل سائن ہوئی تھی، جس کے مطابق قطر کے قیدی اپنے ملک میں اور ہندوستانی قیدی اپنے ملک میں سزا کاٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان اس کیس کو بین الاقوامی عدالت میں بھی چیلنج کر سکتا ہے۔
٭ ٭ ٭
0 Comments