دسمبر ۲۰۲۳

عصر کی نماز ادا کرکے مما جائے نماز پر بیٹھی دعا کرہی رہی تھیں کہ ڈور بیل کی مسلسل ڈنگ ڈانگ ڈنگ ڈانگ سے گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ نہ جانے کون بے صبرا بندہ کال بیل پر ہاتھ دھرے کھڑا ہے!‘‘ تیزی سے جا کر دروازہ کھولا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی ۔ فرزین زار و قطار روتا ہوا کھڑا تھا۔
’’ اللہ خیر! کیا ہوا میرے بچے؟‘‘وہ فرزین کو سینے سے لگا کر اندر لے آئیں۔صوفے پر بٹھایا، رومال سے آنسو صاف کیے اور پانی پلایا۔مما نے فرزین کا چہرہ گیلے ہاتھوں سے صاف کیا، پھر بھی اس کی ہچکیاں ہی نہیں رک رہی تھیں۔مما نے اس کی ہتھیلیاں اور گھٹنے چیک کیے، کہیں چوٹ یا گرنے کے نشان بھی تو موجود نہیں تھے۔
’’فرزین بیٹا!ابھی تو مسجد گئے تھے آپ، کیا ہوا؟ ذرا بتائیے مجھے!‘‘
’’میرا کان مروڑا ہے مولانا نے۔ بہت ڈانٹا ہے سبھی بچوں کو ، اور مسجد میں آنے سے منع کیا ہے۔ اوںاوں…اب میں نہیں جاؤں گا مسجد۔‘‘ فرزین نے پھر رونا شروع کردیا۔اتنے میں دادی اماں بھی نماز سے فارغ ہوکر تسبیح لیے وہیں آگئیں۔
’’ دلہن ! میں پوچھتی ہوں کیوں چھوٹے بچے کو اکیلے مسجد بھیجتی ہو؟‘‘ وہ فرزین کی دوسری جانب بیٹھ گئیں۔
’’میرا راجہ !ابوکے آفس سےآنے کے بعد ان کے ساتھ مغرب کی نماز کے لیے مسجد جانا۔ عصر کی نماز گھر میں ادا کرنا۔ ‘‘
بس ۔فرزین کو تو یہی چاہیے تھا۔جلدی سے گھر میں عصر کی نماز ادا کرکے دوستوں کے ساتھ گراؤنڈ میں کھیلنا۔جماعت کے انتظار میں اس کے کھیلنے کا وقت جو کم ہوجاتا تھا۔عصر سے مغرب، اسی وقت تو اسے گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت تھی۔
فرزین کی جینیئس مام نے غور سے فرزین کا چہرہ دیکھا۔دادی اماں کے سینے سے لگ کراپنے درد کو بھلا کر وہ نارمل ہورہا تھا۔
مما نے اب یہاں سے اٹھنا مناسب سمجھا اور کچن میں جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ ایسا تمھارے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ مولانا صاحب نے یہی درگت بنائی تھی تمھاری۔‘‘ دادی ماں نے پوتے کا کان سہلاتے ہوئےپیار کیا۔
’’ مما کہتی ہیںکہ جماعت سے نماز ادا کرنا23 گنا افضل ہے گھر میں پڑھنے کی بہ نسبت۔‘‘فرزین نے وجہ بتائی۔
’’صحیح کہتی ہیں تمھاری مما۔‘‘ابو آفس سے لوٹ کر گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہنے لگے۔
’’سبھی باتیں اسی معصوم کو سکھاؤ!‘‘ دادی اماں طیش میں آگئیں۔
’’ ان مولانا کو کون بتائےگا کہ پیارے رسولﷺ بچوں کے ساتھ کیسے پیار سے پیش آتے تھے۔مسجد میں دیہاتی آکر فارغ ہوجاتا تب بھی اس کے ساتھ سختی نہیں کرتے۔ صبر سے نصیحت کرتے۔بچوں نے پانی سے کھیلا، بس پانی ہی ضائع کیا،ایسا کیا گناہ کردیا؟‘‘
دادی اماں نے فرزین کے ساتھ پیش آیا سارا واقعہ سنایا۔ نل کھلے چھوڑ کر شریر بچے تو بھاگ نکلے تھے، ننھا فرزین پکڑ میں آگیا تھا۔فرزین دل ہی دل میں خوش تھا کہ دادی ماں کی باتوں پر اب ضرور کچھ ایکشن لیا جائےگا۔اتنے میں مما چائے اور سینڈوچ کی ٹرے لیے آگئیں۔
ابو نےفرزین کو پیار سے سینڈوچ کھلایا اور اطمینان دلایا کہ وہ CIO (چلڈرن اسلامک آرگنائزیشن ) کے ذمہ دار شعیب صاحب سے کہیںگے کہ خصوصاً عصر کی نماز کے لیے کالونی کے سبھی بچوں کو ذمہ داری سے مسجد لے جائیں اور بعد میں گراؤنڈ پر گیم بھی لیں۔
پیارے بچو! آپ تو جانتے ہیںکہ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے۔یہاں شور مچانا ، مذاق کرنا، دنیا کی باتیں کرنا مسجد کی بے ادبی ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں رکھیں اور پیارے نبیﷺ پر درود پڑھتے ہوئے داخل ہوں۔پھریہ دعا پڑھیں:
’’اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجیے۔‘‘
ابن حبان کی حدیث ہے:
’’ نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے والے کا ہر قدم ایک نیکی بڑھاتا ہے اور ایک گناہ کو مٹاتا ہے۔‘‘
ابن ماجہ کی حدیث ہے:
’’مسجد کو صاف ستھرا رکھنا ، مسجد میں خوشبو لگانا جنت میں لے جانے والے کام ہیں۔‘‘
بڑوں کی بھی یہ ذمہ داری ہےکہ بچوں کو اپنے ساتھ مسجد لے جائیں ۔پابندی سے نماز باجماعت ادا کرنےوالے بچوں کو انعام دیں تاکہ بچوں میں مسجد آنے کا شوق پیدا ہو۔بچے شرارت کریں یا شور کریں،ان کے ساتھ نہایت نرمی و محبت کا سلوک کریں۔
فرمان الٰہی ہے:
’’ اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں ، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبہ : 18)

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. عروسہ طیبہ

    ماشاءاللہ بہت عمدہ کہانی ۔۔مساجد کو آباد رکھنے کا پیغام

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے