دسمبر ۲۰۲۳
زمرہ : ادراك

سوشل میڈیا پر اسرائیل سے تعلق رکھنے والی ایک بچی کے والد کا خط گردش کررہا ہے۔اسرائیلی بچی فلسطینی قید سے آزاد کی جاتی ہے،بچی کو جس انداز میں دیکھ بھال کرتے ہوئے فلسطینی فوج نے رکھا،اسے دیکھ کر شدت جذبات سے مغلوب ایک باپ نے کھلا خط لکھا۔اس کا یہ جملہ ہر حساس انسان کو ایک باپ کے احساسات تک رسائی دیتا ہے۔اس نے لکھا ہے:
’’آپ نے اپنی قید میں میری معصوم بچی کا خیال رکھا، اس کی ہر خواہش پوری کی،وہ کھانے کھلائے جو حالت جنگ میں آپ کے بچوں کو بھی نصیب نہیں تھے،ہماری بیٹی آپ کے یہاں سے زندگی بھر کا صدمہ (Trauma)لے کر نہیں لوٹی۔‘‘
اس جملے میں دوسرے کے درد کو محسوس کرنے کا سچا کرب موجود ہے،وہ اسرائیلی باپ فلسطینی بچوں کے کرب کو سمجھتا ہے۔
یہی اسلام کی حقانیت ہے کہ وہ حالت جنگ میں انسانی اقدار کی پاسداری سکھاتا ہے،بوڑھوں اور بچوں کے حقوق کو حالت جنگ میں ایک مومن سے جدا ہونے نہیں دیتا۔اسی طرح اللہ ان کے دلوں پر حقیقتیں کھولتا ہے ۔
فلسطینی معصوم بچوں نے یا تو شہادت پائی یا زندگی بھر کا ٹروما ان کی زندگی کا حصہ بنا،معصوم بچوں کا بے دردی سے قتل اور نسل کشی،انسانی حقوق کاجھوٹا دعویٰ کرنے والے کےاصل چہرے کو واضح کرتا ہے،وہیں اسرائیلی قید میں موجود خواتین کے ساتھ ناروا سلوک بھی اس سفاکی اور جھوٹے انسانی دعویٰ پر مہر ثبت کرتی ہے۔
مصر اور امریکہ کی ثالثی میں حماس کے ساتھ چار روزہ جنگ بندی کے تحت اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے کے پروگرام کے تحت جن 39 فلسطینیوں کو رہا کیا ان میں سر فہرست چند خواتین کی کہانیاں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

اسراء جعابیص

1984ء میں پیدا ہونے والی محترمہ جعابیص کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انھیں 2015ء میں مقبوضہ یروشلم کے مشرق میں ایک سیکیورٹی چوکی کے قریب نیم جلی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا۔محترمہ جعابیص(جو اب 37 سال کی ہیں)کو معالے ادومیم سے یروشلم جانے والی شاہراہ پر ایک چوکی کے قریب سے گزریں۔
فلسطینی حکام نے دعویٰ کیا کہ محترمہ جعابیص اپنی کار میں گھریلو سامان لے جا رہی تھیں، جس میں ان کے باورچی خانے کے لیے بیوٹین گیس کے کنستر شامل تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ محترمہ جعابیص کی کار میں مکینیکل خرابی سے آگ بھڑک اٹھی، جس نے بیوٹین کے کنستروں کو بھسم کر دیا جنھیں وہ لے جا رہی تھیں، جس سے وہ گاڑی کے اندر پھنس گئیں۔

سلنڈر کا دھماکہ ہوا اور وہ %60 جل گئی تھیں،لیکن ان کو اپنی کار میں گیس سلنڈر دھماکہ کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا، چونکہ اس حادثے میں ایک اسرائیلی پولیس افسر زخمی ہوا تھا،اس لیے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس حادثے کے نتیجے میں ان کاجسم جھلس گیا تھا۔اس حادثے کے بعد انھیں جلے ہوئے جسم کی ایک سے زائد سرجری کی اشد ضرورت تھی،تاکہ وہ اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار سکیں۔
فلسطین آن لائن ویب سائٹ نے حال ہی میں آزاد ہونے والی متعدد خواتین قیدیوں کی شہادتوں کی اطلاع دی ہے۔اس اطلاع کے ساتھ جعابیص کے متعلق کہا تھا کہ انھیں جلے ہوئے جسم کی وجہ سے شدید تکلیف کا سامنا تھا،انھیں درد کش دوا دینے سے بھی روکا ہے،اور ان کے بازو جل جانے کی وجہ سے وہ اپنے ہاتھوں کو مکمل طور پر اوپر کی طرف اٹھانے کے قابل نہیں رہیں۔ویب سائٹ نے کہا کہ جعابیص کو اپنی دائیں آنکھ کے ارد گرد اور ناک میں جلد کو درست کرنے اور ہونٹوں کے آپریشن کی ضرورت ہے،ان کے چہرے کا آدھا حصہ دھنس گیا ہے،حقوق انسانی اداروں نے قیدیوں کے حقوق میں ان کے معالجے اور طبی امداد کی گنجائش رکھی ہے،تاہم جعابیص کے ساتھ ناروا سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک جلے ہوئے شخص کے لیے درد کش ادویات ناگزیر ہیں،ورنہ اس درد کی شدت سے دماغ خبط ہوجاتا ہے،قید میں انہیں درد کش ادوایات کی اجازت نہیں دی گئی۔انھیں اپنے والدین سے رابطے سے بھی روکا گیا، جعابیص کے والدین بارہا جعابیص کی رہائی کی کوشش کرتے رہے،لیکن بے سود۔بالآخر 2023ء کی قید سے رہائی معاہدے پر وہ باہر آئیں،لیکن فلسطینی بچوں پرظلم و بربریت اور غزہ کے اجڑے مکانات کو دیکھ کر کہنے لگیں:’’مجھے شرم آرہی ہے کہ لوگوں کے گھروں میں صف ماتم ہے اور رہائی کا جشن مناؤں۔‘‘جعابیص کی رہائی کے بعد غزہ کی حالت کرب اور ظلم کی ایک الگ داستان رکھتا ہے۔

ڈین میسون موسیٰ الجبالی

قیدی میسون موسیٰ الجبالی 1995 ءمیں بیت لحم شہر کے مشرق میں واقع گاؤں الشوارہ کے ایک خاندان میں پیدا ہوا، وہ 7 بھائیوں اور 5 بہنوں کی بہن ہے۔ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، اس نے انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ابو دیس میں القدس یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن اس نے اپنی تعلیم مکمل نہیں کی، کیونکہ الجبالی کو 29 جون 2015 ءکو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس نے ایک اسرائیلی خاتون فوجی کو ’’ریچلز ڈوم‘‘ چوکی پر چاقو سے وار کیا تھا، جس کے نتیجے میں اسے معمولی اور درمیانی چوٹیں آئیں، لیکن اسرائیلی فوجی اسے قابو کرنے میں کامیاب رہے۔ اور اسے 2015 ءمیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔15 سال قید کی سزا سنادی گئی ۔
19 سالہ میسون کو اسرائیلی اہلکاروں نے بے دریغ مارا پیٹا اور اس کے ساتھ زد و کوب کیا تھا۔اس کے بعد اسرائیلی فورسز نے میسون کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اس میں موجود تمام سامان کو تباہ کردیا۔ ایک پورے سال تک جاری تفتیش، جسے اس نے ایک سخت تحقیقات کے طور پر بیان کیا، یہاں تک کہ اسے 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔اس سال رہائی کے وقت ان کی عمر 27 سال ہے ۔خواتین قیدیوں میں ڈین میسون کی کہانی بھی تکلیف کا احساس دلانے کے لیے کافی ہے ۔
میسون نے تقریباً 9 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے،میسون کے اہل خانہ میسون کے انتظار کی سخت گھڑیاں گزریں، ان کے کان اپنی بیٹی کی رہائی کی خبر سننے کے لیے ترس گئے تھے، رہائی پانے والے قیدیوں کے ناموں میں اس کا نام سن کران کے کانوں میں راحت کی آواز گونجی۔
میسون کو ’’ڈین آف فی میل پریزنرز‘‘ کا خطاب ملا، ان کی حراست کے طویل عرصے کی وجہ سے، جو اسرائیلی قبضے کی جیلوں، خاص طور پر ڈیمن جیل میں کسی فلسطینی قیدی کے لیے طویل ترین مدت بن گئی۔
میسون نے ایک باوقار تعلیمی زندگی گزاری اور جب اسرائیلی قبضے نے انھیں گرفتار کیا تو وہ ابو دیس کی القدس یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے شعبہ میں پہلے سال میں زیر تعلیم تھیں۔
اسرائیلی قبضے نے میسون کو اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کی خواہش سے محروم کر دیا، اور جیل نے اسے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے سے روک دیا، لیکن وہ سوشل سروس ڈیپارٹمنٹ میں فاصلاتی تعلیم کے ذریعے اسے مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔

راوان نافع محمد ابو مطر

قیدی راوان کی پیدائش 1994 ءمیں ہوئی تھی، اور اس کے آباءو اجداد رام اللہ ضلع کے بیتلو گاؤں کے قدیم رہائشی ہیں ۔15 جولائی 2015 ءکو اسرائیلی فوج نے اسے قصبے کے داخلی راستے پر زخمی کیے بغیر براہ راست گولی مار دی، پھر قابض فوجیوں نے ان پر حملہ کیا، اس کے ساتھ شدید زدوکوب کیا اورانھیں گرفتار کر لیا۔ اسے ’’آفر‘‘ کے تفتیشی مرکز میں منتقل کیا گیا، جہاں ان سے سخت پوچھ گچھ کی گئی۔
قابض حکام نے راوان پر ایک فوجی پر چاقو سے حملہ کرنے اور اسے معمولی زخمی کرنے کا الزام عائد کیا، عدالتی کارروائی مکمل کرنے کے بہانے اس کے مقدمے کی سماعت 11 بار ملتوی کی گئی، پھر 2016 ءمیں انھیں 9 سال قید اور 4000 شیکل جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
گرفتاری کے دوران ان پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں وہ گردن اور کمر کے فریکچر، پیٹ اور ناک کی متعدد بیماریوں میں مبتلا ہوگئیں ،اور جیل انتظامیہ کی جانب سے اس کی صحت کی حالت کو نظر انداز کرنے اور جان بوجھ کر اسے علاج سے محروم رکھنے کی وجہ سے وہ مسلسل بگڑتی ہوئی صحت کا شکار ہیں۔اب رہائی کے وقت بھی وہ بیمار اور نحیف اور کمزور نظر آرہی تھیں ۔

شوروق صلاح ابراہیم دویات

اسرائیل کی قید میں سب سے کم عمر 12 سالہ اسیرہ نے رہائی حاصل کی۔ شوروق یرشلم کےرہائشی ہیں، جنھیںخودکش حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔شروق دویات نامی فلسطینی اسیر کی رہائی پر خوشی کے باوجود غم زدہ تھیں۔ شروق نے میڈیا کو بتایا کہ ہم قیدیوں پر حالات بہت سخت کردئیے گئے تھے۔
صہیونی حکومت کی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور اس بات پر زور دیا کہ قابضین قیدیوں پر نفسیاتی دباؤ اور طویل انتظار مسلط کرتے ہیں۔ شوروق نے کہا کہ اسرائیل نے حال ہی میں جیل کے اندر سخت حالات پیدا کیے ہیں، اور قیدیوں کو جبر اور بھوک و پیاس کے ساتھ اذیتیں دی ہیں۔انتہائی غلاظت اور گندی پھیلا کر انھیںاذیت دی جاتی ہے، علاج معالجے کا کوئی نظم نہیں ہے ۔
انھوں نے مزید کہاکہ اس وقت 51 قیدی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ مجھے جیل سے رہا کر دیا گیا ہے، لیکن مجھے ان خواتین قیدیوں کے بارے میں تشویش ہے جو سخت جبر اور تشدد کےساتھ جیل میں ہیں۔
انھوں نے بیان کیاکہ جیل میں میں نے کم عمر فلسطینی لڑکیوں کو دیکھا ،جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں، اور صہیونی حکومت کی جیل میں قید سب سے کم عمر فلسطینی لڑکی کی عمر صرف12 سال ہے۔ حراست کے دوران اسرائیل ہم پر شدید ترین تشدد کرتا ہے اور پوچھ گچھ کرتے ہوئے ہمیں وہ اذیتیں دی جاتی ہیں جس کا تصور بھی عام انسان نہیں کرسکتا۔

مرح جودہ موسی بکیر

12 اکتوبر 2015 ءکی صبح 16 سالہ مرح بکیر اسکول کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔ ابھی وہ اسکول کے گیٹ پر پہنچ بھی نہیں پائی تھیں کہ اسرائیلی فوجی اہلکار نے مرح پر گولیاں داغ دیں، انھیں تین گولیاں لگیں ،دو بازوؤں اور پیر میں لگی گولیوں کے سبب وہ گرپڑیں۔ مرح کی والدہ سوسن المبیض نے بتایا کہ ہم نے صبح صبح گولیوں کی آواز سنی۔ ہم نے دوڑ کر دیکھا کہ مرح بیچ سڑک پر لہولہان گری پڑی ہے۔ اس کی مدد کے لیے ایک فلسطینی لڑکا آگے بڑھا، تاکہ اسے ہسپتال پہنچادے ،لیکن اسرائیلی فوجی نے اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ مرح کو اسرائیلی فوجی پر چاقو سے وار کرنے کا ملزم قراردیا گیا اور مدد کے لیے آئے لڑکے کو مرح کا ساتھی بتایا گیا۔
اسرائیل کی ایک مرکزی عدالت نے زیرحراست فلسطینی دو شیزہ 16 سالہ مرح جودت موسیٰ بکیر کو یہودی آباد کاروں پر چاقو سے حملے کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کے الزام میں ساڑھے آٹھ سال قید اور 10 لاکھ شیکل جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مرح جودت بکیر کو صہیونی فوج نے 12 اکتوبر 2015ء کو حراست میں لیا تھا۔ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والی مرح کی گرفتاری سے قبل اسے قابض فوج نے تین گولیاں ماریں، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔زخمی حالت میں گرفتاری کے بعد مرح کو کچھ عرصے کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا، مگر اب وہ علاج کی سہولت سے محروم بدنام زمانہ’’ھشارون‘‘ جیل میں قید تھیں ۔
مرح اب تک الرملہ، عسقلان، ھشارون اور دامون جیسی جیلوں میں قید کاٹ چکی ہیں۔مرح زخمی حالت میں والدین کو پکارتی رہیں، انھیں تین ماہ تک ملاقات کی اجازت تک نہیں تھی ۔انھوں نے اسرائیلی قید میں رہتے ہوئے انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا اور 80 فی صد نمبروں سے پاس ہوئیں۔
مرح نے اپنے والدین کو بتایا کہ وہ دشمن کی قید میں ہیں، مگر ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ رہائی کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کریں گی۔ یہ ان کا دیرینہ خواب ہے کہ وہ قانون پڑھیں، تاکہ مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق کی قانونی جنگ لڑنےکی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے بتایا کہ میرے ساتھ اس وقت جیل میں پانچ لڑکیاں ایسی ہیں ،جو طالبات ہیں، ان میں ایک ایم اے کررہی ہے۔ یہ تمام لڑکیاں موجودہ رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔ اب مرح 24 سال کی ہیں، اور رہائی کے بعد فلسطینی نسل کشی پر دل برداشتہ ہیں، تاہم حصول علم کے لیے مرح کے حوصلے اب بھی بلند ہیں ۔
یہ اسرائیلی قابضین کی جیلوں اور عقوبت خانوں کی صورت حال ہے ،جہاں انسانیت اور انسانی ہمدردی کا دور دور تک گزر نہیں ہے ۔
سفاکی ،ظلم ،بربریت اوراذیت ناک سزائیں ان سرشت کا حصہ ہیں، جبکہ فسلطینی قید میں اسلامی اصول کی پاسداری آج بھی موجود ہے۔ کسی نابالغ ، بچے اور عورتوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا جاتا ۔افغان طالبان کی قید میں مقید ایوان ریڈلی کی کہانی پوری دنیا جانتی ہے۔ جیل میں کیا گیا حسن سلوک ہی اسے داخل اسلام کروادیتا ہے۔ ایسے ہی حالیہ جنگ میں ایک خاتون رہائی پاتے ہی فلسطین آزادی کے جنگجوؤں کا شکریہ ادا کرتی ہے اور حسن سلوک بیان کرتی ہے ۔ایسے ہی ایک بچی کے والد کا کھلا خط گردش کرتا ہے، اسلام کا ماننے والا کبھی دہشت گرد یا باغی نہیں ہوتا ،بلکہ جب اس پر جنگ مسلط بھی کردی جائے تو حالت جنگ میں رواداری اور انسانیت کی پاسداری کو ملحوظ رکھتا ہے ۔
اسرائیلی نوبل پرائزمین کی تعداد دیکھ کر لوگ اسرائیلی طریقۂ تربیت سے مرعوب ہوتے ہیں ،تاہم فلسطین کی اس جنگ نے دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ آخر فلسطینی طریقۂ تربیت کیا ہے؟ جہاں ظالم کے خلاف سینہ سپر ہونے والا ننھا بچہ بھی اپنے آخری سانسیں لیتے بھائی کو کلمہ طیبہ پڑھا رہا ہے، جہاں یہ کم عمر اسیرائیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بھی یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ ہم اپنی پڑھائی جاری رکھیں گے، اور اپنے ملک پر قربان ہوجائیں گے ،جہاں فلسطین اور مسجد اقصی ٰکی آزادی کا درس سو سال سے مائیں دودھ پیتے بچوں کو دیتی آرہی ہیں۔
عزیمت کی راہ میں ثابت قدمی سے صعوبتیں برداشت کرنے والی ان اسیراؤں کو امت کی ہر بیٹی کا سلام پہنچے!

٭ ٭ ٭


اسرائیلی نوبل پرائزمین کی تعداد دیکھ کر لوگ اسرائیلی طریقۂ تربیت سے مرعوب ہوتے ہیں ،تاہم فلسطین کی اس جنگ نے دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ آخر فلسطینی طریقۂ تربیت کیا ہے؟ جہاں ظالم کے خلاف سینہ سپر ہونے والا ننھا بچہ بھی اپنے آخری سانسیں لیتے بھائی کو کلمہ طیبہ پڑھا رہا ہے، جہاں یہ کم عمر اسیرائیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد بھی یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ ہم اپنی پڑھائی جاری رکھیں گے، اور اپنے ملک پر قربان ہوجائیں گے ،جہاں فلسطین اور مسجد اقصی ٰکی آزادی کا درس سو سال سے مائیں دودھ پیتے بچوں کو دیتی آرہی ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے