دسمبر ۲۰۲۳

 عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے: ‘‘ کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں ۔’’
اسی طرح ایک مفکر کہتا ہے :
‘‘ کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلندیوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ اور حصولِ علم و معرفت کا وسیلہ ہے۔’’

آہا ! من موہ لینے والی تصویر۔
درحقیقت انسان کو اندھیرے سے اجالے کی اور لانے والا اور مہیب شب میں تھرکتی ایک لو مطالعہ ہے۔ ایک ایسا جہان جہاں کبھی اقبال فلسفۂ خودی بیان کر رہے ہیں تو کہیں مفکرِ اسلام مولانا مودودیؒ کا فلسفۂ توحید و رسالت فکر و قلب میں ایک نئی روح پھونک رہا ہے۔ کہیں آگ کا دریا تو کہیں آگے سمندر ہے۔کبھی ہر فن مولا ، اردو ادب کے تقریباً تمام اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے مراد علامہ شبلی نعمانیؒ تو کبھی توبۃ النصوح نے جکڑا ہوا ہے، کہیں دیوانِ غالب تو کہیں دیوانِ حافظ کی محفل سجی ہے۔
مطالعہ کا مادہ طلوع سے ہے اور طلوع پردۂ غیب سے عالمِ ظہور میں آنے کو کہتے ہیں۔ مطالعہ حصولِ معرفت کا ذریعہ ہے۔ ایک تنگ و تاریک ذہن میں عقل و فہم کے در وا کرنے والی چیز مطالعہ ہے۔ مطالعہ تنہائی کا بہترین اور قابلِ اعتماد ساتھی ہے۔ جس کی صحبت کے نتیجے میں شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور زندگی کا ہر شعبہ نورِ علم سے جگمگا اٹھتا ہے۔ گویا مطالعہ انسانی زندگی کی تکمیل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیراً کثیراً ( البقرہ: 269)
(اور جسے حکمت ملی اسے خیرِ کثیر کا خزانہ ملا۔)
جیسے مشک بھری شیشی سے خوشبو ضرور پھیلتی ہے، ٹھیک اسی طرح جب ایک داعی کا مطالعہ وسیع و گہرا ہو تو اس کی تقریر و تحریر میں قوت و اثر ہوتا ہے، ورنہ تحریر کمزور ، پھسپھسی اور بے جان ہوتی ہے۔ عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے: ’’ کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں ۔‘‘
اسی طرح ایک مفکر کہتا ہے :
’’ کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلندیوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ اور حصولِ علم و معرفت کا وسیلہ ہے۔‘‘
کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہِ عمل کی جستجو ہوتی ہے، وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی ، طبیعت میں نشاط ، نگاہوں میں تیزی اور ذہن و قلب کو تازگی بھی بخشتا ہے۔
زندگی بھر کی سیاحت کے باوجود ہماری رسائی دنیا کے بہت سے حصوں سے ناممکن ہے۔ ہم ماضی میں سفر کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ انسانی تجربات کے بہت سے گوشوں میں جھانک بھی نہیں سکتے ،البتہ مطالعہ ہمیں ان سب سے جوڑتا ہے۔ بنی نوع انسان کے تمام مشاہدات فکر و تدبر کے نتیجے میں ہماری دسترس میں آجاتے ہیں۔

کامیاب مطالعہ کے چند اصول

پر سکون ماحول اور بہترین کتابوں کا انتخاب۔کچھ کتابیں صرف چکھنے کی ہوتی ہیں ، کچھ نگل جانے کی اور کچھ کتابیں چبانے اور ہضم کرنے کی ہوتی ہیں۔ضروری نہیں کہ ہر کتاب لائقِ تفصیلی عمل سے گزاری۔

اہم نکات درج کرنا

 ایک کامیاب قاری جب کتابی راہوں سے گزرتا ہے تو آنے والے کارواں کے لیے اپنے مخصوص نقشِ پا چھوڑ جاتا ہے۔

صاف ذہن اور غیر جانبدار رویہ

مطالعہ ذہن کو جلا بخشنے اور اس کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ مطالعہ میں جوہرِ انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے۔ جہاں مطالعہ قاری کے عقل و شعور کو بیدار کرتا ہے اس کے برعکس فحش اور فضول کتابیں تمام تعمیری قوتوں کو سلب کر کے ذہن و قلب کو مردہ کر دیتی ہیں۔
میکالے کے مطابق :’’ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے بہتر شخص وہ ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں ۔‘‘
آئیے! اپنے ذہن و فکر کی مٹی کو زرخیزی بخشنے کی خاطر رنگ برنگے ، علم و ادب کے بیج بوتے ہیں تاکہ ہمارا چمن دلکش و خوشنما پھولوں سے اٹھے۔ ان بیجوں کو تسلسل برقرار رکھتے ہوئے بونا ہے۔ آپ کے سامنے دو طرح کے بیج ہیں۔ آپ گلاب چنتے ہیں یا پھر ببول ،یہ اب آپ پر منحصر ہے۔

اندھیری شب میں ہمیشہ سے علم والے لوگ
کتاب پڑھتے ہوئے روشنی بناتے ہیں

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے