دسمبر ۲۰۲۳
زمرہ : اکادمیا

مسلمانوں کے گھروں میں جب بچہ یا بچی کچھ جملے بولنے کے لائق ہوجاتے ہیں، تو انھیں سماجی و معاشرتی سرگرمیوں سے متعلق کچھ باتیں ذہن نشین کرائی جاتی ہیں، ان میں چند مذہبی باتوں کے علاوہ اس سوال کا جواب بھی خاص طور سے یاد کرایا جاتا ہے کہ ’’آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے؟‘‘
ظاہر ہے بچہ تو ابھی اتنا باشعور نہیں ہوتا ہے کہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے کوئی سوچا سمجھا جواب دے سکے، لیکن والدین اس کے ذہن کو ناپختہ عمر سے ہی ڈاکٹر یا انجینیئر بننے کا جواب یاد کرواکے ایک نہایت محدود دائرے میں محصور کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت تعلیم کو بچوں کا ڈاکٹر یا انجینیئر بننا اور ان کے بہتر مستقبل کو ان ہی دو پیشوں کے دائرے میں سمٹا ہوا دیکھتی ہے۔ بہت کم ایسے والدین ہیں جو تعلیم کے میدان میں مستقبل کے منصوبے کو بہت واضح طور پر مضبوط بنیادوں پر طے کرتے ہیں۔
اکثر والدین اور طلبہ تعلیم کے میدان میں موجود مواقع سے ناواقف ہیں۔ نہ تو والدین بچے کی ذہنی صلاحیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی بچہ اپنا تجزیہ کرتا ہے کہ وہ تعلیم کے کس میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ وہ ڈاکٹر یا انجینیئرکے خول سے باہر نکل کر تعلیم کے وسیع مواقع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ جب کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بچے کے اندر کس علم کے حصول کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور معاشی حصول کے لیے کس ذریعے کو ان کا مقدر بنایا ہے۔ وہ ڈاکٹری یا انجینیئرنگ میں بچے کا مستقبل تلاش کررہے ہوتے ہیں، جب کہ ممکن ہے کہ اللہ نے اس کی فطرت میں کسی اور میدان میں کمالات دکھانے اور بلندی کو چھونے کا ہنر رکھا ہو۔ لہٰذا، مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت بچے کی ذہنی صلاحیت اور اس کی استعداد و رجحان کا تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ آج بے شمار ایسے طلبہ ہیں جو دیگر میدانوں میں اپنی خداداد قدرتی صلاحیتوں کا جوہر دکھا کر کسی ڈاکٹر یا انجینیئر سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں، کیوں کہ انھوں نے وہ میدان چُنا ہے جو ان کی خداداد صلاحیتوں کے عین مطابق ہے۔
کیریئر کاؤنسلنگ یعنی مختلف کورسوں کا تعارف اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے والدین اور طلبہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ طلبہ کا ایک بڑا طبقہ میڈیکل، انجینیئرنگ اور اب یو پی ایس سی امتحانات کو ہی تعلیم کا حاصل سمجھتا ہے اور اسی کو ہدف بنائے ہوئے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں اجتماعی و انفرادی طور پر مندرجہ ذیل کام کرنے کی ضرورت ہے:
وہ تعلیمی ادارے جہاں ملت کے طلبہ زیر تعلیم ہیں، کیریئر کاؤنسلنگ کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔ کیریئر کاؤنسلنگ کے پروگراموں کا آغاز مختلف مضامین اور کورسوں کے تعارف سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام بالخصوص ہائی اسکول کے طلبہ کے لیے منعقد کیے جائیں۔ تعارف کے بعد طلبہ کا نفسیاتی (Psychometric) ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ ٹیسٹ طلبہ کے تعلیمی رجحان، دل چسپیوں، فطری لگاؤ اور ذہنی رجحان کو جانچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے بعد ماہرین طالب علم کی سماجی، معاشی کیفیات اور دیگر عناصر کا جائزہ لے کر اس سے گفتگو کے بعد کورسوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔کسی ایک کورس کے بجائے طالب علم کے سامنے دو تین کورسوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ طالب علم کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کورس کا انتخاب کرے۔
کیریئر کاؤنسلنگ میں مصروف ماہرین کو ہمیں اس بات کی بھی تربیت دینی ہے کہ وہ طلبہ کو کورس تجویز کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ طلبہ تعلیم کے طویل المیعاد (اخروی کام یابی) اور قلیل المیعاد (دنیاوی فوز و فلا ح) مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ طویل المیعاد مقصد کے حصول کے تحت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ طلبہ ملک عزیز میں دین کے قیام، دعوت دین اور ملت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معاون کورسوں اور تعلیمی میدانوں کا انتخاب کریں۔ یہ رہ نمائی دینی مدارس کے طلبہ اور عصری علوم حاصل کررہے طلبہ کے لیے ضروری ہے۔
ملت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں اور سینٹروں میں کیریئر کاؤنسلر کا انتظام کیا جائے۔ بڑے ادارے کیریئر کاؤنسلروں کو اپنے اسکولوں میں باضابطہ اور مستقل طور پر رکھ سکتے ہیں یا پھر کنسلٹنٹ کی حیثیت سے متعین ایام میں ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کیریئر کاؤنسلنگ کے لیے درکار امتحانات کی فیس اگر طلبہ ادا کرسکتے ہوں تو ان سے لی جائے، ورنہ اسے ادارہ برداشت کرے۔ بسا اوقات فیس کے متحمل نہ ہونے کے سبب طلبہ کاؤنسلنگ میں شمولیت سے گریز کرتے ہیں۔
کیریئر کاؤنسلنگ یا مختلف کورسوں کے بارے میں شعور کی بیداری کے لیے جمعہ کے خطبات، نمازِ جمعہ کے بعد یا دیگر متعین ایام میں خصوصی لیکچروں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
کیریئر کاؤنسلنگ میں جو کاؤنسلر ہوںگے، انھیں اس بات کا شعور بھی ہونا چاہیے کہ کون سے پروفیشن مردوں کے لیے اور کون سے خواتین کے لیے موزوں ہیں۔ ان کونسلروں کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ موجودہ زمانے میں ملت کے افراد میں فرض منصبی کی ادائیگی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے کیا کورس اور کیا مضامین پڑھائے جائیں؟
دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبہ میں بھی کیریئر کاؤنسلنگ کے پروگرام ضروری ہیں۔ چندماہ قبل راقم نے کیریئر کاؤنسلنگ کا ایک پروگرام ’’جامعة الفلاح ،اعظم گڑھ‘‘میں منعقد کیا تھا۔ اس پروگرام میں طلبہ کی شرکت اور ان کی اس پروگرام میں دل چسپی غیر معمولی اور حوصلہ بخش تھی۔
دینی مدارس کے طلبہ کو بھی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے اور انھیں بھی مشورے درکار ہیں کہ موجودہ دور میں علماء کو کس طرح سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے اور وہ کس طرح عصری علوم حاصل کرکے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کرسکتے ہیں؟ یہاں ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چند بڑے دینی مدارس کی اسناد کو بعض یونیورسٹیاں اپنے یہاں داخلے کے لیے قبول کرتی ہیں۔ بیش ترمدارس کے طلبہ کو یہ مراعات اور اعزاز حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ان طلبہ کو این آئی او ایس (National Institute of Open Schooling )سے میٹرک اور بارہویں کے امتحانات دلائے جاسکتے ہیں۔ اس کی تفصیل ہم نے اس مضمون کی گذشتہ قسط میں پیش کی ہے۔
کیریئر کونسلنگ کے متعلق فولڈر اور کتابچے تیار کیے جائیں اور انھیں طلبہ تک پہنچایا جائے۔
کیریئر کاؤنسلنگ کے لیے ملک میں مختلف سینٹر زقائم ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک اہم سینٹر’’سی ٹیگ‘‘(Center for training guidance) ہے۔ اس ادارے میں کیریئر کاؤنسلنگ کے لیے باضابطہ کاؤنسلروں کی ٹیم موجود ہے۔ ’’سی ٹیگ‘‘سے طلبہ انفرادی طور پر اور ادارے بھی اپنے طور پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں اور’’ سی ٹیگ ‘‘کے مراکز اپنے اسکولوں اور شہروں میں قائم کرسکتے ہیں۔ ’’سی ٹیگ‘‘کی جانب سے ہر سال کیریئر کی رہ نمائی کے لیے پوسٹر تیار کیے جاتے ہیں،انھیں حاصل کرکے مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں چسپاں کیا جاسکتا ہے۔

سائیکلوجیکل کاؤنسلنگ (نفسیاتی مسائل میں رہ نمائی)

موجودہ دور میں بچے ہوں یا بڑے، نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کے متعدد اسباب ہیں جیسے: بدلتا ہوا معاشرتی نظام، سہولت پسند طرزِ زندگی اور موبائل فون کا بڑھتا استعمال۔ اس عادت نے دور جدید کے بچوں کی زندگی کو روبوٹ کی مانند کردیا ہے۔ ایک مخصوص نظام الاوقات کے تحت وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسکول کے بعد گھر کی چہار دیواری میں محصور ہوکر موبائل فون کے سہارے دل بہلانا اور وقت گزاری کرنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔گھر پر ان کے زیادہ تر اوقات موبائل فون کے ساتھ گزرتے ہیں جب کہ ماہرین بارہا آگاہ کرتے رہے ہیں کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں میں درج ذیل نفسیاتی کم زوریوں کو جنم دے رہا ہے:
بچے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کرکے تنہائی پسند بن رہے ہیں۔ وہ تنہائی میں آزادی کے ساتھ ڈیجیٹل ورلڈ میں من پسند سیر کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل ورلڈ میں بے لگام گردش کی وجہ سے کم عمری ہی میں بچے جنسی الجھنوں اور متشدد خیالات کا شکار ہورہے ہیں۔
طلبہ میں بہت زیادہ خود پسندی اور انفرادی سرور کی ہوس بڑھ رہی ہے۔
رشتے ناطے اور صلہ رحمی جیسے اوصاف اب حقیقی دنیا کے محض بول بن کر رہ گئے ہیں، جنھیں ڈیجیٹل ورلڈ میں رہنے والا نوجوان رجعت پسندی قرار دیتا ہے۔
طلبہ کے نفسیاتی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ان میں بڑھتا ہوا ذہنی تناؤ ہے۔ یہ تناؤ ہم جماعت طلبہ اور والدین کی طرف سے ان کے کیریئر کے حوالے سے ہوتا ہے۔ آج طلبہ کی بڑی تعداد والدین کے پسندیدہ کورسوں کے دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ دباؤ سے پیدا ہونے والا یہ تناؤ طلبہ کو خود کشی تک لے جارہا ہے۔ ہر سال بورڈ اور مسابقتی امتحانات کے بعد کئی خاندان اپنے لعل و گہر کھو دیتے ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جسے حکومت نے بھی محسوس کرتے ہوئے اب بڑے اسکولوں پر یہ لازم کردیا ہے کہ ان کے یہاں ایک سائیکلوجیکل کاؤنسلر بھی ہو۔ اسی طرح بعض اسکولوں میں کمسن لڑکیوں کے حمل کے واقعات بھی نوٹ کیے جارہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ آئندہ چند برسوں میں شدّت اختیار کرسکتا ہے۔
ان مسائل کے علاوہ ہمارے ملک کے سیاسی و سماجی حالات بھی چند مسائل کو جنم دے رہے ہیں، جن میں نفرت اور اسلاموفوبیا بھی شامل ہیں۔ آج ان مسائل سے نبرد آزما طلبہ کی تعداد ہوسکتا ہے کم ہو، تاہم بہت جلد یہ تعداد بڑی ہوجائے گی۔ چنانچہ ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں دو کام کرنے ہیں۔
اول: بڑی تعداد میں سائیکلوجیکل کاؤنسلروں کی کھیپ تیار کرنا جن کا فکر و تصور قرآن و حدیث پر مبنی ہو۔ یوں تو سماج میں سائیکلوجیکل کاؤنسلروں کی کمی نہیں ہے، لیکن یہ کاؤنسلر الجھنوں میں مبتلا مسلم طلبہ و طالبات کی رہ نمائی اسلامی نقطۂ نظر سے نہیں کرپاتے ہیں۔ اس لیے دینی علوم کے حاملین مرد و خواتین بالخصوص علماءو عالمات طبی نفسیات و غیر طبی نفسیات (Clinical psychology and non clinical psychology)کے کورس پڑھیں اور اسلامی سائیکلوجسٹ بنیں۔
دوم: پری پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک طلبہ کی رہ نمائی اور ان کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے ملی تعلیمی اداروں، مساجد اور اسلامی مراکز میں کاؤنسلنگ سینٹر قائم کیے جائیں۔
اگر اس مسئلے پر غور نہیں کیا جاتا ہے اور عملی تدابیر اختیار نہیں کی جاتی ہیں تو خدشہ ہے کہ ہماری نسل صراط مستقیم سے ہٹ جائے اور مابعد جدیدیت کی چکا چوند میں گم ہوکر اپنی ملی و دینی شناخت کو پس پشت ڈال بیٹھے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:


ملت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں اور سینٹروں میں کیریئر کاؤنسلر کا انتظام کیا جائے۔ بڑے ادارے کیریئر کاؤنسلروں کو اپنے اسکولوں میں باضابطہ اور مستقل طور پر رکھ سکتے ہیں یا پھر کنسلٹنٹ کی حیثیت سے متعین ایام میں ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کیریئر کاؤنسلنگ کے لیے درکار امتحانات کی فیس اگر طلبہ ادا کرسکتے ہوں تو ان سے لی جائے، ورنہ اسے ادارہ برداشت کرے۔ بسا اوقات فیس کے متحمل نہ ہونے کے سبب طلبہ کاؤنسلنگ میں شمولیت سے گریز کرتے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے