دسمبر ۲۰۲۳

ملک کی جمہوریت کی بقا کا راز ہی عوام کے رائے دہی کے شعور سے جڑا ہوا ہے۔

 الیکشن قریب ہیں،عوام الناس میں ووٹر لسٹ میں اپنے نام کی جانچ کرنے اور 18 سالہ عمر کے بچوں کا اندراج کروانے کا شعور پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ووٹر لسٹ سے ناموں کا اخراج بہت بڑی آبادی کو ملک کی جمہوریت میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش بلکہ سازش ہے،ایک طرح سے یہ شہریت ہی کا خاتمہ سمجھ لیجیے۔ اپنی سماجی بیداری کا ثبوت دیں اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں۔اس سلسلے میں ھادیہ ای میگزین نے ایک سروے کیا ہے،جس میں ہمارے سوشل فعال افراد نے اپنے رائے دی ہے،ذیل میں وہ پیش کی جارہی ہے۔اسے پڑھ کر ہر فرد اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اطراف کے لوگوں میں حق رائے دہی کا شعور پیدا کرے ۔

 ایڈیٹر ھادیہ ای میگزین

حق رائے دہی کا شعور وقت کی اہم ضرورت

پارلیمانی الیکشن 2024ء کا بگل بج چکا ہے۔آزادی کے بعد سے تمام ہی پارلیمانی الیکشنز بہت اہمیت کے حامل رہے ہیں،لیکن 2024ء کا الیکشن کئی پہلوؤں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے،اور صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ملک کی تاریخ کا انتہائی فیصلہ کن موڑ ہے۔اس الیکشن میں پوری آگہی و شعور اور عملی کاوشوں کا مظاہرہ جہاں ملک کو تعمیری رخ دے سکتا ہے،وہیں بےخبری و بے شعوری اور بے عملی پورے ملک وملت کو نا قابل تلافی نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔اس حوالے سے سماج میں زبردست بیداری کی ضرورت ہے۔
جیسے جیسے الیکشن قریب آتے ہیں،دانشوروں کے فورمز سے لے کر گلی اور نکڑ تک مباحثے کا میدان بن جاتے ہیں،لیکن اس عرصہ میں ہم اس بہت ہی کارگر وسیلہ سے بے نیاز رہتے ہیں جو الیکشن پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ وسیلہ ہے حق رائےدہی یا ووٹ کا۔الیکشن میں ووٹ کو تبدیلی کا سب سے مؤثر ہتھیار مانا جاتا ہے،جو وقت اور عرصہ ووٹ کے اس ہتھیار کو تیار کرنے،تیار رکھنے،زبردست تعداد میں جمع کرنے کا ہوتا ہے،اس موقع کو ہماری بڑی تعداد چائےخانوں میں بیٹھ کر انتخابی جنگ کی تصوراتی منظر کشی،غیر عملی سیاسی مباحثوں اور خیالی منصوبوں میں صرف کردیتی ہے۔نتیجۃً ایک ایک حلقۂ انتخاب میں ہزاروں افراد ووٹر لسٹ میں درج نہیں ہوتے۔آج بھی خود ہماری ریاست میں ہمارے لاکھوں افراد ہیں جنھوں نے ووٹر کارڈ نہیں بنوائے ہیں یا درستگی کی کارروائی نہ کرنے کے سبب کارآمد نہیں ہیں۔
پھر دوسرا تشویشناک رویہ لسٹ میں موجود ہونے کے باوجود حق رائےدہی یا ووٹ ڈالنے کے عمل میں سستی، بیزاری اور بے نیازی کا رویہ ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سات کروڑ ووٹرز کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کردیے گئے ہیں۔ جس میں ایک معتدبہ تعداد مسلمانوں کی ہے،مگر افسوس کہ ووٹر رجسٹریشن سے متعلق مسلمانوں میں کوئی بیداری اور شعور نظر نہیں آ رہا ہے۔ملکی ،صوبائی اور مقامی سطح پر ملت کی طرف سے کوئی منصوبہ بند کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔
ووٹ جیسے قیمتی وسیلہ کے ساتھ ایسی بے نیازی اور ایسے غیر سنجیدہ رویے کے ساتھ کوئی نتیجہ خیز تبدیلی کیسے آسکتی ہے۔ ووٹر لسٹ میں نام کےاندراج نہ ہونے اور لسٹ میں نام کے باوجود ووٹ نہ ڈالنے والوں کی تعداد کئی حلقوں میں بیس تا تیس فی صد ہوتی ہے،اور فسطائی طاقتیں ایسے کئی حلقوں میں پانچ تا دس فی صد ووٹوں سے جیت جاتی ہیں۔
ہمارے معاشرہ کی اس روش کے پیچھے کئی عوامل ذمہ دار ہیں،لیکن یہ غلط سوچ بھی کارفرما ہے کہ میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا؟ووٹ کسی کو بھی دیں تو ایک ہی پارٹی کو جاتا ہے،ہم جس کو ووٹ دیں وہ بھی سودا کر لیتے ہیں،کوئی بھی سیکولر نہیں ہے وغیرہ۔
آنے والا الیکشن ملک و ملت کے لیے بہت اہم ہے۔ برسر اقتدار طبقہ ملک کے جمہوری تانے بانے کو بکھیر دینا چاہتا ہے۔مسلمانوں کو سیاسی اعتبار سے بالکل بے وزن کر دینا اور دوسرے نمبر کا شہری بنانا بھی اس کا مقصد ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں یہ شعور اور سمجھداری پیدا کی جائے کہ جس مرحلہ میں پارٹی چننے کا موقع ہوگا،اس وقت اسٹرٹیجی اختیار کی جائےگی لیکن اس وقت وہ پارٹیوں اور سیاسی اتھل پتھل کی بحثوں میں نہ پڑ کر سب سے پہلے ووٹر لسٹ میں سو فی صد اندراج کو یقینی بنائیں۔
اس کے لیے ریاست مہاراشٹر میں 8 اکتوبر کو ممبئی میں برادران ملت و برادران وطن کی اہم شخصیات پر مشتمل مہاراشٹر ڈیموکریٹک فورم قیام عمل میں لایا گیا۔

فورم کے بنیادی مقاصد

٭ پارلیمانی حلقہ میں ترقی کا مشترکہ لائحۂ عمل
٭ چیلنجز اور امکانات
٭ پسماندہ طبقات کے حقوق و مفادات کو کیسے محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟
٭ پولٹیکل پارٹیوں پر دباؤ بنانا
٭ ووٹوں کی تقسیم روکنا اور ووٹروں کے درمیان ٭اتحاد کو فروغ دینا
٭ ووٹرز رجسٹریشن اور ووٹر انرالمنٹ کا بڑے پیمانے پر کام
٭ بوتھ لیول پر والنٹیز کی ٹیم تیار کرنا،ان کی تربیت کرنا اور الیکشن کے دن صد فی صد ووٹنگ کرواناالحمدللہ فورم نے 20 پارلیمانی حلقوں میں ووٹر رجسٹریشن کے کاموں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جس میں فورم کے بینر تلے جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر ، ایم پی جے، یوتھ ونگ حلقۂ خواتین، ایس آئی او ،جی آئی او کے ممبران کے ساتھ ہی مقامی سطح کے سماجی جہد کار بھی حصہ لے رہے ہیں۔
اسی کے ساتھ ریاست مہاراشٹر کی تمام دینی جماعتوں کے ذمہ داران علماء کرام و زعماء ملت کے ذریعے اپیل جاری کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے تین اہم ویڈیو کلپس بعنوان لاپروا،اسمارٹ چائے والا ،اور ووٹر رجسٹریشن کیسے کریں پر مشتمل ویڈیوکلپس،خاکے،مضامین،واٹس ایپ امیجزبناکر وائرل کیے گئے ہیں۔
ھادیہ میگزین کے ذریعے ہم ملت اسلامیہ سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیں کہ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات کے ضمن میں وہ کچھ اہم کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور ترجیحی بنیاد پر ان کاموں کو انجام دینے کے لیے فوری منصوبہ بندی کرے۔

(1)فہرست رائے دہندگان میں ناموں کا اندراج

ہمارے خاندانوں اور گھروں میں جو نوجوان مرد وخواتین 18 سال کی عمر کے ہو گئے ہیں ،ان کے ناموں کا اندراج ووٹر لسٹ میں کروانا بہت ضروری ہے۔ لیکن سروے کے نتیجے میں یہ صورت حال سامنے آئی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کئی لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہونے کے باوجود ان کے نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں کیے گئے ہیں۔ حکومت ہر الیکشن سے پہلے فہرست رائے دہندگان کو اپ ڈیٹ کرتی ہے ابھی بھی اپڈیشن کا کام جاری ہے ۔9 دسمبر 2023ء اس کی آخری تاریخ ہے۔
آپ تمام کی ذمہ داری ہے کہ اپنے وارڈ اور محلے میں اپڈیشن سینٹرز قائم کریں،جہاں لوگوں کے ناموں کا اندراج ووٹر لسٹ میں کیا جائے۔کسی بھی قسم کی غفلت اور سستی ہمارے لیے نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔

(2)ووٹر لسٹ میں ناموں کا کنفرمیشن

مختلف حلقہ ہائے انتخاب میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت منصوبہ بند طریقے سے رائے دہندگان کے نام ووٹر لسٹ سے حذف اور غائب کر دیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی کروڑوں نام ووٹر لسٹ سے غائب ہیں۔ ایسے لوگ انتخابات کے دن ووٹ دینے سے محروم ہوجاتے ہیں۔اس لیے ہمیں وقت سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے نام ووٹر لسٹ میں موجود ہیں۔

(3)ڈاکومنٹیشن کا کام

ان دونوں کاموں کے لیے ضروری کاغذی کارروائی( ڈاکومنٹیشن) کے سلسلے میں ہمیں سستی اور لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے،ورنہ افسوس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔یہ ڈاکومنٹیشن اس لیے بھی ضروری ہے کہ این آر سی اور سی اے اے کی تلوار ابھی بھی ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ویسے بھی کاغذات اور ریکارڈ کی درستگی ایک ذمہ دار شہری کی علامت ہے۔
ہم ملت اسلامیہ کے ایک ایک فرد سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ درج بالا نکات پر فوری توجہ فرمائیں اور مناسب لائحہ عمل ترتیب دے کر ان کاموں کو انجام دیں۔امید کہ اپنے بہتر مستقبل کے لیے ملی بیداری کا ثبوت دیں گے۔

عبدالمجیب

(سکریٹری:شعبۂ ملی و ملکی امور،مہاراشٹر)

 حق رائے دہی:بیداری اور پرنٹ میڈیا کارول

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، اور میڈیا کو جمہوری معاشرے میںجمہوریت کا چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے میڈیا ،بالخصوص پرنٹ میڈیا کا کردار لوگوں میں اپنے ووٹ کے حق کے استعمال کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں بہت اہم ہے ۔ہمارے پاس میڈیا کی بہت سی دوسری شکلیں ہیں، جیسے ٹی وی چینلز،ڈیجیٹل میڈیا اور معلومات کو پھیلانے کے لیے مختلف قسم کے سوشل میڈیا، لیکن الیکٹرانک میڈیا ان لوگوں کے لیے مکمل استعمال کیا جا سکتا ہے، جن کے پاس ٹی وی سیٹ اور ٹی وی کنکشن ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا صرف ان لوگوں کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے، جن کے موبائل فون پرانٹرنیٹ کنکشن ہے یا جن کے پاس پرسنل کمپیوٹرزہیں۔
ہندوستان میں ایک بڑی آبادی کے پاس انٹرنیٹ کنکشن نہیں ہے،لیکن ان کے گھروں میں ٹی وی چینلزہیں۔ یہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں ہے ،جہاں لوگ اب بھی معلومات حاصل کرنے کے لیے روایتی اخبارات اور پرنٹ میڈیا کی دیگر اقسام پر انحصار کرتے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس صورت حال میں پرنٹ میڈیا عوام کو ان کے ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ایسے وقت میں جب کسی جگہ پر الیکشن میں جیت اور ہار صرف ایک یا دو ووٹوں کے فرق سے ہوتی ہے، ہر ووٹ بہت اہم ہوتا ہے۔ اخبارات اور رسائل میں مضامین اور خبروں کے ذریعے ہم ووٹرز کو آگاہ کر سکتے ہیں کہ ان کا ووٹ کسی اچھے امیدوار یا کسی خاص پارٹی کے امیدوار کی جیت کو یقینی بنانے میں فیصلہ کن ہو گا، جو تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے۔
اسی طرح پرنٹ میڈیا ووٹرز میں ووٹ کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے لوگوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ترغیب ملے گی کہ ان کے نام ووٹر لسٹ میں موجود ہوں ،اور وہ انتخابات کے دن اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر جائیں۔ پرنٹ میڈیا میدان میں موجود امیدواروں کی اسناد کی تفصیلات بھی شائع کرتا ہے، جس سے لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے؟ پرنٹ میڈیا ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے منشور بھی تفصیل سے شائع کر سکتا ہے۔
اگر سیاسی ایجنڈا اور پارٹی کے منشور ووٹرز کو دستیاب ہوں تو وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ انتخابات میں کس کی حمایت کی جائے؟ مجموعی طور پر پرنٹ میڈیا اب بھی انتخابات کے دوران رائے کو متاثر کرنے میں بہت اہم ہے ،کیونکہ اس کی رسائی گاؤںاور دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی ہے۔

سید خلیق احمد

( چیف ایڈیٹر: ’’بھارت کل‘‘، نئی دہلی)

حق رائے دہی:بیداری اور الیکٹرانک میڈیا کارول

میڈیا عوام سے روابط پیدا کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے ۔ میڈیا کمیونیکیشن کے ذریعہ رائے کی ہمواری اورعوامی بیداری کا فریضہ انجام دینا آسان ہوتا ہے۔ میڈیا ایک ایسا میڈیم ہے جو کم وقت میں معلومات، خبریں ، تفریح اور دیگر مواد کو عوام تک پہنچانے میں ایک بڑا اور اہم رول انجام دیتا ہے۔ عوام الناس تک رسائی کے لیے میڈیا کی مختلف شکلیں ہیں، جیسے ٹیلی ویژن، ریڈیو، نیوز پیپر، میگزین ، نیز جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ،مثلا ً:ویب سائٹس، سوشل میڈیا، پوڈ کاسٹ اور آن لائن اسٹریمنگ ۔
میڈیا آنے والے 2024 ءکےالیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے عوامی بیداری کومخصوص شناختی تقاضوں سےمتعلق اپنا خاص اور اہم رول ادا کر سکتا ہے۔
جب بھی الیکشن آتا ہے، ایسے موقع پر اس طرح کی خبریں سامنے آتی ہیں کہ میرا نام پچھلے الیکشن میں تھا مگر اس الیکشن میں سےغائب ہے ،یا 18 سال کی عمرکو پہنچنے والے لڑکے لڑکیوں کا الیکشن آئی ڈی وقت پر تیار نہیں ہو پاتا ،اور وہ ووٹ نہیں دے پاتے ۔ اس طرح کے واقعات ملک کے مختلف گوشوں میں ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے موقع پر میڈیا کیا رول ادا کر سکتا ہے؟ جس سے سماج میں اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔
ہم ٹیلی ویژن کو ایک کمیونیکیشن میڈیم کی نظر سے دیکھیں اور یہ سمجھیں کہ وہ اس بیداری میں کیا رول ادا کر سکتا ہے؟ اس میں جو بات سب سے پہلے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ میڈیابیداری کے لیے اسپیشل اسٹو ڈیو بیس شوز ڈیزائن کر سکتا ہے، عوامی بیداری کے لیے عوام کے درمیان کچھ ایسے لائیو شوز کا اہتمام کرے، جس کے مثبت اثرات عوام پر ہوں اور وہ اپنے آئی ڈی کارڈز الیکشن سے پہلے درست کروا لیں ۔میڈیا شہریوں کے درمیان انتخابی قوانین ، بشمول ووٹر آئی ڈی میں جو تبدیلی ہو رہی ہے، اس کی معلومات کے لیے بھی پروگرام ڈیزائن کرسکتا ہے۔
میڈیا حقائق کی جانچ پڑتال اور انتخابی شناختی تقاضوں سے متعلق عوام میں غلط معلومات کو ختم کرکے صحیح معلومات فراہم کرنے میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔میڈیا شناختی کارڈ آگہی کے لیے ماہرین کے ساتھ انٹرویوز، میگزین میں اداریے، آرٹیکل کے ذریعہ بیداری کی مہم چلا سکتا ہے۔جب کبھی انتخابی شناختی قوانین سے متعلق تبدیلیاں ہوں تو میڈیا کوریج ضروری ہے۔
اس سے عوام الناس کو قانونی فیصلوں کے مضمرات اور ووٹنگ کے طریقہ ٔکار پر ممکنہ اثرات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔میڈیا آؤٹ لیٹس مکمل ووٹر گائیڈ تیارکر سکتے ہیں، جس میں شناختی تقاضوں، پولنگ کے مقامات اور دیگر ضروری تفصیلات کے بارے میں معلومات شامل ہوں۔ یہ رہ نمائی ووٹرز کے لیے وسائل کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
ووٹر کی شرکت جمہوری ملک میںکس طرح اہمیت کی حامل ہے؟میڈیا اس طرح کے خاص پروگرام تیار کرے، اور ایسی گراؤنڈ رپورٹنگ کرے،جو لوگوں میں حق رائے دہی کے شعور کو بڑھا سکتاہے، ساتھ ہی ان کی حوصلہ افزائی کرے، تاکہ ان کی مجموعی تعداد میں اضافہ ہو جائے۔
میڈیا عوام کی براہ راست آگہی کے لیے سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کر سکتا ہے۔ میڈیا سوشل میڈیا پر مختلف ہیش ٹیگز اور کمپینز چلا سکتا ہے، تاکہ لوگوں کو ووٹنگ کی اہمیت کا احساس ہو، اور وہ اپنے دوستوں کو بھی ووٹ کرنے کے لیےتیار کر پائیں۔
جب بھی کوئی قانونی تبدیلی ہوتی ہے یا قانونی چیلنجز آتے ہیں، میڈیا اس پر براہ راست رپورٹ کرکے لوگوں کو اس کے اثرات کے بارے میں آگاہ کر سکتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے کسی بھی حکومت یا الیکشن کمیشن کے نمائندے کو پریس کانفرنس یا انٹرویو میں شرکت کرنے کی دعوت دے کر عوام کو حقائق روشناس کروا سکتا ہے۔ میڈیا عوام کو ووٹ کرنے کی مہم میں شامل کرکے انھیں حکومتی امور میں شرکت کرنے کی اہمیت کا احساس دلانے میں مدد کر سکتا ہے۔

محمد ارشاد عالم

(سینیئر ملٹی میڈیا پروڈیوسر:’’د ی کوئنٹ‘‘)

٭ ٭ ٭

ویڈیو :


ایک رپورٹ کے مطابق سات کروڑ ووٹرز کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کردیے گئے ہیں۔ جس میں ایک معتدبہ تعداد مسلمانوں کی ہے،مگر افسوس کہ ووٹر رجسٹریشن سے متعلق مسلمانوں میں کوئی بیداری اور شعور نظر نہیں آ رہا ہے۔ملکی ،صوبائی اور مقامی سطح پر ملت کی طرف سے کوئی منصوبہ بند کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے