دسمبر ۲۰۲۳

قبلۂ اول پہ قبضہ دشمنوں کا ہے مگر
اور مسلم دیکھئے ہےچین سے سویا ہوا
امن کےسارے علمبر دار تم سوچو ذرا
کیوں فلسطیں میں لہو انساں کا
ہے بہتا ہوا
کھیل تھا جس کے لیے طوفان کا رخ موڑنا
وہ مسلماں کیوں ہے اسرائیل سے سہما ہوا
وہ بھی راہی تھا کہ جس کو ڈھونڈتی تھی منزلیں
تو بھی راہی ہے مگر ہے راستہ بھولاہوا
آج ہم اپنی حفاظت کے لیےتو ایک ہوں
ظلم کا سیلاب بھی رک جائے گا بڑھتا ہوا
ایک بھی بستی جہاں میں بے سبب اجڑی نہیں
کیا سبب ہے ڈھونڈیئے کیوں ہے چمن اجڑا ہوا
اپنے ہی دیں سے بغاوت اپنے آقا فرار
غیر ممکن ہے کہ من جائے خدا روٹھا ہوا
سر بلندی کی تمنا سر بلندی کے اصول
یاد کرنا چاہئے پھر یہ سبق بھولا ہوا
اے فلسطیںکے مجاہد آفریں صد آفریں
عزم سے تیرے غرور کفر ہے ٹوٹا ہوا
دامن اہل عرب پر بدنما ایک داغ ہے
ہے فلسطیں کا مسلماں خون میں لتھڑا ہوا
قبلۂ اول پہ قبضہ دشمنوں کا ہے مگر
اور مسلم دیکھیے ہےچین سے سویا ہوا
کیسے آئے گی ابابیلوں کے لشکر کی مدد
مرزاؔ عربستاں ہے دیکھو عیش میں ڈوبا ہوا

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے