دسمبر ۲۰۲۳
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ يُّقۡتَلُ فِىۡ سَبِيۡلِ اللٰهِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌوَّلٰـكِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ۞
(سورۃ البقرہ : 154)
(اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مُردہ نہ کہو ، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں ،
مگر تمھیںان کی زندگی کا شعور نہیں ۔)

شہید کی دو قسمیں ہیں، حقیقی اور حکمی ۔حقیقی شہید وہ ہے جو اللہ کے راستے میں لڑتے لڑتے شہید ہو جائے یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطےکہ وہ بغیر علاج و معالجہ اور وصیت وغیرہ کے بغیر موقع پر دم توڑ جائے ۔ان پر شہید کے احکامات نافذ ہوتے ہیں ۔حکمی شہید وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ۔ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے احکام جاری ہوں گے۔مذکورہ بالا آیت کا تعلق حقیقی شہید سے ہے ۔
حقیقی شہداء کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑیں ،اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لیےلڑیں ۔اس میں کوئی دوسرا نعرہ ، کوئی دوسرا مقصد اور کوئی دوسرا نظریہ شریک نہ ہو ۔صرف اس سچائی کے لیے لڑ رہے ہوں جسے اللہ نے نازل فرمایا ۔صرف اس نظام زندگی کے لیے جو اس نے وضع فرمایا۔اسلام نے مجاہد کی پر خلوص نیت پر بہت زور دیا ہے ۔
ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم سےایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو نمائشِ شجاعت کے لیے یا اظہارِحمیت کے لیےیا ریاء کے لیے لڑتا ہے ۔ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے؟ رسو ل محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا فی سبیل اللہ صرف وہ ہے جو محض اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو ۔(مالک، بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہےکہ ایک شخص نے کہاکہ یا رسول اللہ! ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کی دنیاوی غرض بھی وابستہ ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے ۔اس شخص نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا اور ہر مرتبہ رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایاکہ اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے ۔(ابو داو‘د)
شہداء زندہ ہیں، انھیں مردہ نہ کہو ۔حقیقت یہ ہےکہ زندگی عمل و ارتقاء اورتسلسل کا نام ہے ۔موت عمل کے انقطاع سے عبارت ہے ۔جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کا عمل جاری رہتا ہے ۔ان کی شہادت معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ان کا خون پورے معاشرے کی زندگی میں ایک رنگ پیدا کرتا ہے ،اور یہ تسلسل تا قیامت رہتا ہے ۔یہ ہی زندگی بلکہ حیات جاوداںہے ۔ اس اعتبار سے تو لوگوں کی اس دنیا میں بھی وہ زندہ ہیں۔یہ جائز نہیں کہ شہداء کو مردہ کہا جائے، نہ ہی اپنے احساس اور شعور میں انھیں مردہ سمجھا جائے ۔سورہ آل عمران میں اللہ کا فرمان ہے:
لا تحسبنّ الّذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربّھم یرزقون(سورۃ آل عمران : 169)
(اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، انھیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں ۔)
یہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہےکہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ کہنا یا سمجھنا ممنوع ہے ،اور یہ آیت اس امر میں بھی قطعی ہےکہ وہ زندہ ہیں اور رب کے یہاں رزق پارہے ہیں ۔عالم برزخ میں شہداء کی زندگی کس طرح کی ہے؟ اس کا ہم صحیح تعین نہیں کرسکتے ۔ان کی زندگی کی کیا کیفیت ہے؟ اس کا ہمیں شعور نہیں ۔اس بارے میں اللہ نے خود فرمایا ہے:
بل احیاءولکن لا تشعرون
مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔ہمارے علم کا دائرہ محدود ہے، اور یہ ایسی زندگی ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے ،لیکن بہر حال وہ زندہ ہیں ۔شہداء کی زندگی کے بعض اوصاف احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔صحیح مسلم میں روایت ہےکہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت میں جہاں چاہیں اڑتی پھرتی ہیں ۔پھر وہ عرش کے نیچے معلق قندیلوں میں آکر بسیرا کرتی ہیں ۔اس کی اطلاع تو رب ذوالجلا ل کو ہوتی ہی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’تم کیا چاہتےہو؟‘‘
وہ کہتے ہیں :’’ہمارے رب ہمیں اور کیا چاہیے؟آپ نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے، جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا ہے ۔‘‘
اللہ تعالی پھر وہی سوال فرماتے ہیں۔ جب انھیں علم ہوجاتا ہےکہ جب تک وہ کچھ مانگیں گے نہیں ،جان نہیں چھوٹے گی۔ تب وہ کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹا دیں ،ہم آپ کی راہ میں مارے جائیں۔ اس لیے کہ شہادت کا اجروثواب تو وہ خود دیکھ ہی رہے ہیں ۔اللہ جل شانہ‘ فرماتے ہیں کہ میں نے لکھ دیاہےکہ شہداء پھر دنیا میں نہ لوٹائے جائیں ۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہےجو ایک بار جنت میں داخل ہو جائے اور پھر وہاں سے نکلنے کی تمنا کرے،اگر اسے تمام دنیا بخش دی جائے ۔ہاں صرف شہید اس بات کی تمنا کرتا ہےکہ وہ دنیا کو لوٹایا جائے اور ایک مرتبہ پھر اللہ کی راہ میں قتل ہو ،کیونکہ اسے نظر آتا ہےکہ شہید کی قدر کیا ہے۔ ( مسلم ، بخاری)

شہادت کا اجرو ثواب

عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جانا قرض کے سوا ہر چیز کا کفارہ ہے۔ (مسلم)
ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول محمدصلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایاکہ شہید کو قتل کیے جانے سے صرف اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے ۔(سنن نسائی و ابن ماجہ)
ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایاکہ جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ خوب جانتا ہےکہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے؟ وہ شخص جب قیامت کے دن آئے گا تو اس کے خون کا رنگ خون کی طرح ہو گا، اور اس میں خوشبو مشک کی ہوگی ۔(جامع ترمذی)
ابو موسی ٰاشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جنت کے دروازے تلواروں کے سائےکے نیچے ہیں ۔(ترمذی)

شہداء کی تجہیز و تکفین

تمام مردوں کی طرح شہداء کو غسل نہیں دیا جاتا۔انھیں ان کے ان ہی کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے، جن میں وہ شہادت پاتے ہیں۔
جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو ان کےخونوں میں دفن کرو،یعنی جنگ احد کے دن اور آپ نے ان کو غسل کا حکم نہیں دیا ۔
شہید کی دوسری قسم حکمی شہید کا ذکر احادیث سے ثابت ہے ۔ان کوعام میت کی طرح غسل دیا جائے گا ، ان کی تجہیزو تکفین بھی ہوگی۔

حکمی شہید کون ہیں؟

حضرت ربیع انصاریؓ سے مروی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کیا اللہ کی راہ میں قتل ہوجانا ہی شہادت ہے؟ تب تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے ہوں ۔ نہیں، بلکہ جو لوگ طاعون کی بیماری میں مریں، ہیضہ میں مریں، عورت جو ولادت کے وقت مرجائے ،جو لوگ آگ میں جل کر مریں یا ڈوب کر مریں ، جو لوگ نمونیہ کا شکار ہوکر مریں۔یہ سب شہادت کا درجہ پائیں گے ۔(ترغیب بحوالہ طبرانی)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے میری امت میں بگاڑ کے وقت میری سنت پر عمل کیا ،اس کےلیے سو شہیدوں کا اجر ہے۔ (طبرانی)
سعید بن زیدؓ کہتے ہیںکہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سناکہ جولوگ اپنے مال کو بچاتے ہوئےقتل ہو جائیں ،وہ شہید ہیں ، جو لوگ اپنی جان کو بچانے کے لیے،قتل کر دیئے جائیں وہ بھی شہید ہیں ،اور جو لوگ دین کے لیے قتل کر دیئے جائیں وہ بھی شہید ہیں ،اور جو لوگ اپنے بیوی بچوں اور متعلقین کی حفاظت کرتے ہوئےمار ڈالے جائیں وہ بھی شہید ہیں ۔
سوید ابن مقرن ؓسےجو روایت سنن نسائی میں آئی ہے ،اس کےالفاظ کا ترجمہ یہ ہے :’’جو لوگ کسی ظالم سے اپنا حق واپس لینے کے سلسلے میں مارڈالے جائیں ،وہ بھی شہید ہیں۔‘‘ (ابوداو‘د ، نسائی، ترمذی ، ابن ماجہ)
فی الوقت حماس اور اسرائیل کی جاری جنگ میں سیکڑوں فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے ان کا اپنی جان و مال ، آل و اولاد کی قربانی دینا یقینا ًآخرت میں اجر عظیم کی ضمانت ہے ، لیکن کیا مسجد اقصیٰ کا تحفظ صرف فلسطینی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے؟ مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے ،اور ہمارے انبیاء کا مسکن ہے ۔اس لیے بحیثیت مسلمان اس کےتحفظ کے حق دار ہم بھی ہیں ۔سوشل میڈیا پر شہید فلسطینیوں کی تصاویر اور ویڈیو اپ لوڈ کر کے ہم خود کو بری الذمہ نہ سمجھیں ۔ہم مسجد اقصی ٰکی آزادی اور ان کی پرسکون زندگی کی دعا تو کر ہی سکتے ہیں ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے