یو پی کوفرقہ وارانہ رنگ میں رنگنےکے لیے تصدیق شدہ حلال پروڈکٹس پر سیاست کی جا رہی ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے یہ بات ہم اچھی طرح سے محسوس کر رہے ہیں کہ یو پی سرکار، جو کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی میں چل رہی ہے، اس کے پاس ماحول کو گرم کرنے کے لیے مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ایک کے بعد ایک معاملے کو لے کر سیاست کی جا رہی ہے اور ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی کھلی جگہ نماز پڑھنے پر، کبھی لاؤڈ اسپیکر میں اذان پر پابندی، اور اب تازہ ترین مثال’’تصدیق شدہ حلال مصنوعات پر مبنی اشیاء پر پابندی‘‘اور ریاستی حکومت کے ذریعہ مذہبی مقامات سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا معاملہ ہے۔ حلال سرٹیفیکٹ والی اشیاء پر پابندی کو لے کر بین الاقوامی سطح پر انھیں پذیرائی حاصل ہوئی اور عالمی سطح پر میڈیا نے اس کو کور کیا، تاہم تعجب اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ یوگی سرکار نے یو پی میں گھریلو بازاروں میں بھی حلال پروڈکٹ کی تیاری اور اس کی ذخیرہ اندوزی اور اسے فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
محکمہ فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن (FSDA) کا استدلال ہے کہ حلال سرٹیفیکیشن جاری کرنے والوں کے پاس اس بات کی تصدیق کرنے کی مہارت نہیں ہے کہ آیا حلال مصنوعات حلال کے اسلامی معیارات کے مطابق ہیں یا نہیں؟ اور اسلامی نقطۂ نظر سے ملاوٹ سے پاک ہے؟ ایسی مصنوعات کا استعمال ان مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی خلاف ورزی ہوگی جو حلال مصنوعات کو سب سے زیادہ خالص اور صاف سمجھتے ہیں۔ان باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آخر حکومت کا منشاء کیا ہے ؟حکومت اگر مخلص ہے اور اس کی تشویش اگربجا ہے تو وہ انتہائی قابل تحسین ہے، لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت انھیں حلال مصنوعات کی برآمد کی اجازت کیسے دے رہی ہے؟ اگر کوئی مخصوص حلا ل پروڈکٹ ملک میں استعمال کے لیے ٹھیک نہیں تو وہ دوسرے ممالک کے لیے کیسے اچھاہو سکتا ہے؟
یہ با ت غور طلب ہے کہ اگر اتر پردیش یا باقی ہندوستان میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات اس سے مجروح ہوتے ہیں کہ اگر ان کو فروخت کی جانے والی حلال مصنوعات میں اسلامی طور پر ممنوعہ اجزاء کی ملاوٹ ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔
ہندوستان میں مختلف کمپنیوں کے ذریعے تیار کردہ زیادہ تر حلال مصنوعات غیر مسلموں کی ملکیت ہیں۔ملیشیا ،انڈونیشیا اور مسلم عرب ممالک ان تمام مسلم اکثریتی ممالک کی منڈیوں میں یہ پروڈکٹس برآمد کی جاتی ہیں۔ کیا کسی ملک کے لیے یہ اخلاقی طور پر قابل قبول ہے کہ وہ ایسی مصنوعات برآمد کرے جس پر صرف اس بنیاد پر پابندی عائد کی ہوکہ اس کے حلال ہونے پر اعتراض یا اس کی سند (Authenticity)کمزور ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ صرف ملکی منڈیوں میں اس کی فروخت پر پابندی لگانے کے بجائے اسے تمام تر برآمد کنندگان کے خلاف کاروائی ہو اور ایسی تمام برآمدات پر اور ان کے لیے استعمال ہونے والے را مٹیریل(خام مال) کو ضبط کرنا چاہیے، کیونکہ نقلی مصنوعات کی خرید و فروخت یا برآمدات پر اعلیٰ سطحی کاروبار ایک سنگین جرم شمار ہوتا ہے۔
حالانکہ صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کی بھارتی کمپنیوں کے تیار کردہ 99 فی صدسے زائد حلال مصنوعات صرف برآمد کے لیے ہیں۔ ہندوستان میں تیار ہونے والی کل حلال مصنوعات کا بمشکل تمام ایک حصہ ہی اندرون ملک کے بازاروں میں فروخت ہوتا ہے، اس لیے مقامی مارکیٹ میں حلال مصنوعات پر پابندی سے انڈسٹری کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اس لیے تمام حلال پروڈکٹس تیار کرنے والی انڈسٹریز اس پابندی سے بالکل پریشان نہیں ہیں،اس سے صنعتوں کو حلال سرٹیفیکیشن جاری کرنے والے ٹرسٹوں اور کمپنیوں پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ انھیں بھی صرف برآمدات کے لیے ہی حلال تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، جو انھیں کاروبار میں بڑھاوا دیتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس پابندی کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ حلال کا لفظ آتے ہی مسلمانوں سے اس کا تعلق نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس پابندی سے مسلم عوام کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا، لیکن اس سے جنونی اور بنیاد پرست ہندوتوا کو یہ پیغام ملتا ہے کہ یوگی حکومت مسلمانوں پر سخت ہے اور ریاست کے بازاروں میں حلال مصنوعات کی فروخت کی اجازت بھی نہیں دے رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے وزیراعلیٰ اور ان کی پارٹی کو اپنے ووٹروں کو خوش رکھنے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر معاشرے کی تقسیم کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے جس سے انتخابات کے دوران فائدہ ہوتا ہے۔
حلال مصنوعات پر بحث و مشکل ختم ہی ہوئی تھی کہ یو پی حکومت نے مذہبی مقامات پر نصب لاؤڈ سپیکر کے مخصوص ڈیزیبل لیول کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اور سرکلر جاری کیا، مہم کے چند دنوں کے اندر ہی مذہبی مقامات کے ہزاروں لاؤڈ سپیکر کو احاطے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ بہانہ بنادیا گیا کہ اس کا ڈسیبل لیول مقررہ سطح سے اوپر تھا، حالانکہ انتظامیہ اس ڈسیبل لیول کو کم کر سکتی تھی اور اسے جاری رکھنے کی اجازت دے سکتی تھی۔
اطلاعات کے مطابق یہ بات سامنے آتی ہے کہ تازہ مہم سے متاثر ہونے والے زیادہ تر مذہبی مقامات اور مساجد ہیں۔ کئی مقامات پر تو پولیس نے مسجد انتظامیہ سے کہا کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی آواز مسجد سے باہر نہ جائے ،یہ حکومت کے سرکلر کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ حکومت کے حکم نامے میں صوتی آلودگی سے بچنے کے لیے مذہبی مقامات پر آواز کی مخصوص سطح کو برقرار رکھنے کی ہدایات دی گئی ہیں، یہ ذکر نہیں ہے کہ باہر لاؤڈ اسپیکر کی آواز نہیں سنائی دے گی۔
اس سے قبل بھی یوگی حکومت نے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا، جنھوں نے بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے پیغمبر اسلام(ﷺ ) کے خلاف توہین آمیز تبصروں کے خلاف جمہوری احتجاج کی قیادت کی تھی، حالانکہ اگر احتجاج کرنا جرم تھا تو بھی کوئی قانون مجرموں کے گھر گرانے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم حکومت نے دلیل دی کہ یہ غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ تقریباً 30 کروڑ کی آبادی والی ریاست میں ان ہی لوگوں کے گھر غیر قانونی تھے کیا ؟حکومت نے دیگر غیر قانونی طور پر بنائے گئے گھروں کا کوئی سروے کیا؟ اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی؟ حکومت نے انھیں گرا کیوں نہیں دیا؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یوگی حکومت یہ سب کچھ فرقہ وارانہ ماحول کو گرم رکھنے اور2024 ءکے لوک سبھا انتخابات میں اپنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے کر رہی ہے ،جو کہ صرف چند ماہ کی دوری پر ہے۔
(بشکریہ:انڈیا ٹو مارو)
٭ ٭ ٭
صنعتی ذرائع کا کہنا ہے کی بھارتی کمپنیوں کے تیار کردہ 99 فی صدسے زائد حلال مصنوعات صرف برآمد کے لیے ہیں۔ ہندوستان میں تیار ہونے والی کل حلال مصنوعات کا بمشکل تمام ایک حصہ ہی اندرون ملک کے بازاروں میں فروخت ہوتا ہے، اس لیے مقامی مارکیٹ میں حلال مصنوعات پر پابندی سے انڈسٹری کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور اس لیے تمام حلال پروڈکٹس تیار کرنے والی انڈسٹریز اس پابندی سے بالکل پریشان نہیں ہیں،اس سے صنعتوں کو حلال سرٹیفیکیشن جاری کرنے والے ٹرسٹوں اور کمپنیوں پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ انھیں بھی صرف برآمدات کے لیے ہی حلال تصدیق کی ضرورت ہوتی ہے، جو انھیں کاروبار میں بڑھاوا دیتا ہے۔
0 Comments