دسمبر ۲۰۲۳
زمرہ : النور

وحدثنا قتيبة بن سعيد ،حدثنا ليث،عن ابن الهاد ، عن عمر بن علي بن حسين ،عن سعيد ابن مرجانة،عن ابي هريره،قال:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اعتق رقبة مؤمنة، اعتق الله بكل عضو ء منه عضؤا من النار ،حتى يعتيق فرجه بفرجه.(صحیح مسلم : 3797 )

(عمر بن ( زین العابدین ) علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب) نے سعید بن مرجانہ سے اور اُنھوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ،اُنھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے کسی مومن گردن کو آزاد کیا ،اللّہ تعالیٰ اس کےہر عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے کا وہی عضو آگ سے آزاد کرے گا ،حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کے بدلے اُسکی شرمگاہ کو بھی آزاد کردےگا ۔)

وحدثنا قتيبة بن سعيد ،حدثنا ليث،عن ابن الهاد ، عن عمر بن علي بن حسين ،عن سعيد ابن مرجانة،عن ابي هريره،قال:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اعتق رقبة مؤمنة، اعتق الله بكل عضو ء منه عضؤا من النار ،حتى يعتيق فرجه بفرجه.(صحیح مسلم : 3797 )

(عمر بن ( زین العابدین ) علی بن حسین ( بن علی بن ابی طالب) نے سعید بن مرجانہ سے اور اُنھوں نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ،اُنھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے کسی مومن گردن کو آزاد کیا ،اللّہ تعالیٰ اس کےہر عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے کا وہی عضو آگ سے آزاد کرے گا ،حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کے بدلے اُسکی شرمگاہ کو بھی آزاد کردےگا ۔)
مومن گردن کو آزاد کرنے سے مراد یہاں غلاموں کے آزاد کرنے سے ہے۔غلام دراصل وہ شخص ہوتا ہے جس سے اپنے مفاد کے لیے اس کے جسمانی و سماجی اختیارات چھین لیے جاتے ہیں اور پھر وہ معاشرے کا ایک کمزور ترین انسان ہوجاتا ہے، جس پر اس کامالک چاہے جانوروں جیسا سلوک کرےاور وہ اپنے حق کے لیے بھی آواز نہیں اٹھا پا تا ہے ۔
اس طرح سے لوگوں کو غلام بنانے کا رواج ہر زمانے میں ہر قوم میں پا یا گیا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف جنگی قیدیوں کے ساتھ خاص تھا ،بلکہ کبھی کبھی طاقتور قبیلہ اپنے سے کمزور قبیلہ کو ذاتی مفاد اور دد عیش کے لیے غلام بنالیتا تھا۔ایک دفعہ جب کسی کی گردن میں غلامی کا طوق پڑگیا تو وہ کبھی اس سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا ۔اگر کوئی خود سے آزاد ہو نے کی کوشش بھی کرتا تو اُسے اتنے سخت قوانین اور کٹھن مرحلوں سے گزرنا پڑتا کہ وہ اسی میں دب کر رہ جاتا ۔
انھیںمعمولی لغزش پر بھی سخت سے سخت ترین سزا دی جاتی ،سماجی زندگی میں ان کا کوئی رول نہ ہوتا تھا ۔غلامی کا یہی رجحان عرب میں بھی رائج تھا ۔
چونکہ اللہ رب العزت اپنی زمین پر اور اپنے بندوں پر ظلم برداشت نہیں کرتا۔ لہٰذا خالق کائنات نے اپنے انبیاء اور رسولوں کے ذریعہ ایک ایسا دین قائم کیا جو انسان کو انسانیت سے روبرو کراتا ہے ۔دین اسلام امن و سلامتی اور ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا رویہ اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔یہی وہ دین ہے جس نے عرب کے غلاموں کو نہ صرف معاشرے میں ایک بلند مقام و مرتبہ فراہم کیا، بلکہ ہر شخص کو تاکید کی گئی کہ وہ اپنے حصّے میں آنے والے قیدیوں کے ساتھ بہترین رویّہ اختیار کرے اور انھیں حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور نہ ہی انھیں’’ اےغلام! اے لونڈ ی!‘‘ کہہ کر مخاطب کرے کہ وہ بھی الله کے نزدیک تمھاری طرح ہی ایک انسان ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خرابیوں کو دور کرنے کی نہ صرف مسلمانوں کو تلقین کی، بلکہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے حقوق کی بحالی کے لیے مختلف قسم کے قوانین بنائے ،تا کہ ان کو آزادی دلائی جاسکے اور وہ خود آزادی حاصل کر سکیں ۔
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام کے استحکام کے لیے مختلف مدافعانہ جنگیں ہوئیں، جن میں کئی سارے قیدی غلام بنائے گئے ،لیکن پورے قیدیوں کو بیک وقت آزاد کردینا مناسب نہ تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی طور پر مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کردیں تو عند الله وہ اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے ۔
چونکہ غلام خدمت گار اور منافع حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہوا کرتے تھے،اس لیے مالک انھیںآسانی سے آزاد کرنے کو تیار نہیں ہو تے تھے، ایسے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انھیںغلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا اور انھیں یقین دلایا کہ یہ دنیاوی فائدے سے بڑھ کر آخرت کا فائدہ حاصل کریں ۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے گا تو الله تعالیٰ اُس کے ہر عضو کو آتشِ دوزخ سے بچائے گا ۔
اس جذبے کے تحت صحابہ ٔکرام نے بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کرنا شروع کردیا ۔ صحابہ ٔکرام آخرت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے کہ غلام تو بہت سے ہیں اور ان میں ہر قسم کے غلام ہیں ۔کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے پر زیادہ ثواب ملے گا ؟
صحابہ کے اس جوش آزادی کو دیکھ کر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو غلام تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو غلاموں میں سب سے اچھا ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کئی سارے غلاموں کو آزاد کیا ۔
اسلام غلاموں کو آزاد کرنے کی کئی صورتیں بتاتا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے ،کسی نے کسی کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو بطورِ کفّارہ وہ غلام آزاد کرے۔
یہ تمام احکام اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ کسی مسلمان غلام کو نعمتِ آزادی سے بہرہ ور کرنا بخشش و مغفرت اور جہنّم سے آزاد ی کا موجب ہے ۔
یہ انسانیت پر نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے غلامی کی زنجیروں سے انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا ہے اور غلاموں کے حقوق سے خبردار کیا ہے ورنہ غلاموں کو تو جانوروں سے بھی بدتر حالات سے دو چار ہونا پڑتا تھا ۔اس اذيت اور تکلیف سے جب کوئی مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کردے تو اللّٰہ تعالیٰ اس بندے سے بہت خوش ہوجاتا ہے اور اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے بندے کے ایک ایک عضو کو جہنّم کی آگ سے بچا لیتا ہے، یہاں تک کہ اس غلام کی شرمگاہ کے بدلے اُس کی شرمگاہ بھی آگ سے محفوظ کردی جاتی ہے ۔
موجودہ دور میں غلام بنانے کا یہ رواج تو دکھائی نہیں دیتا ،لیکن کچھ علماء کےنزدیک یہ بھی غلام آزاد کرنے کے حکم میں ہے کہ اگر کوئی مسلمان بہت زیادہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہو اور وہ اُسے ادا نہیں کرپاتا ہو تو اس کا قرض معاف کردیا جائے تو یہ بھی گردن آزاد کرنے میں شامل ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی ایسی مشکل سے دو چار ہو، جس سے نکلنے کے کوئی سبیل اُس کےپاس موجود نہ ہو تو جو مسلمان اِس کی استطاعت رکھتا ہو ،اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو اُس مشکل سے آزاد کروادے، تو الله کے یہاں اس کا بھی بہت اجر و ثواب ہے ۔( والله أعلم)

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے