دسمبر ۲۰۲۳

مہمان خانے میں دوتین خواتین ملاقات کے لیے آئیں۔ ملاقات کی نوعیت کاؤنسلنگ کی تھی،وہ اپنی بہو کی کاؤنسلنگ کےلیے سفارش لے کر آئی تھیں کہ آپ فری وقت بتائیں تاکہ ہم اپنی بہو کوکاؤنسلنگ کے لیے لاسکیں۔اسی اثنا میں دو مزید ملاقاتی خواتین آگئیں، میزبان خاتون تواضع کا انتظام کرنے چلی گئیں، دونوں اجنبیوں کے درمیان گفتگو ہوئی ۔راہ ورسم اور علیک سلیک کے بعد کہیں نہ کہیں سے خواتین نسبتیں جوڑ لیتی ہیں ،بس رشتہ جوڑ کر ایک دوسرے کے سسرالیوں کی برائیاں شروع کر چکی تھیں۔ بعد میں آنے والی خواتین کے ساتھ دو بچیاں تھیں ،وہ اپنی امی کی زبان سے اپنی دادی اور چاچا تایا کی برائیاں سن رہی تھیں ،میزبان خاتون نے بچیوں کو باہر لان میں کھیلنے کا کہہ کر بھیج دیا ۔
یہ ایک مہمان خانے کا قصہ نہیں ہے ۔یہ بچوں کو کاؤنسلنگ کے لیے لانے والی اکثر خواتین کی کہانی ہے۔ جہاں دو خواتین آپس میں باتیں کریں، اپنے سسرالی رشتوں کو برا بھلا کہنا فرض سمجھتی ہیں ۔
معصوم بچے جب یہ سنتے ہیں کہ ان کے چچا ،تایا، دادی، پھوپھی سب برے لوگ ہیں، انھیںاپنا خاندان و قرابت دار برے نظر آتے ہیں ۔اپنے قرابت داروں سے متعلق کوئی اچھا تاثر بچوں کے نزدیک نہیں بن پاتا ،وہ اپنے اسکول کے ہم جولیوں کے سامنے بھی اپنے چاچا زاد، پھوپھی زاد بہن بھائیوں سے متعلق اچھی رائے نہیں دے پاتے ہیں ۔
سسرالی رشتوں سے متعلق شکایت رکھنے والی خواتین کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی قسمت سے پورے گھر میں ان کے شوہر ہی کسی قدر بہتر ہوتے ہیں۔کہیں کہیں تو وہ بھی نہیں ہوتے ۔وہ زندگی میں لوہے کے چنے چبا رہی ہوتی ہیں ۔
اس طرح کی گفتگو سے کس کا نقصان ہوتا ہے؟ آپ جانتی ہیں ؟
سب سے بڑا نقصان معصوم بچوں کاہوتا ہے، جن میں عدم تحفظ کا احساس پروان چڑھتا ہے ۔وہ بچپن سے ہی اپنی امی کی زبان سے دشمن اور برے رشتے دار جیسے الفاظ سے متعارف ہوتے ہیں ۔
احساس تحفظ انسان کی مثبت سوچ سے پروان چڑھتا ہے ۔جب آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کی ذات تمام احباب کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ ہے تو آپ کا اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ اسی طرح بچوں کو بھی یہ احساس ہوکہ چچا ،تایا،دادی، پھوپھی سب ہمیں چاہتے اور پسند کرتے ہیں۔ اس سےبچے کا سیلف سیکورٹی لیول بڑھنا شروع ہوجاتا ہے ۔وہ اپنے خاندان کے درمیان سماجی مطابقت کی مہارت سیکھتے ہیں ۔
رشتے اور قرابت داروں کی قربت سے ہماری اپنی ذات اور بچوں کا فائدہ ہے۔ بچوں کی تربیت کےلیے قرابت دار بڑی نعمت ہیں ۔اسی لیے قرآن مجید نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ رشتے داروں کی برائی کو محسوس کرتے ہوئے خاندان کو کاٹنے کی کوشش دراصل اپنے بچوں کے حق میں نقصان دہ ہے اور اللہ رب العالمین نے بھی اس سے روکا ہے ۔
انسان کی سماج میں مقبولیت باعت تسکین ہے اور اس کی ابتداء قرابت دار اور رحمی رشتوں سے ہوتی ہے ۔

صلہ رحمی کیا ہے ؟

اپنے قرابت داروں اور رشتےداروں سے اچھے سلوک اور اچھے تعلقات کو صلہ رحمی کہتے ہیں۔والدین کے رشتے داروں سے بہترین تعلقات بچوں میں اعتماد کو بڑھاتا ہے، اور تعلقات کی خرابی بچوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے ۔
اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا :
’’رشتے داروں کو ان کا حق دو، اور مساکین و مسافروں کو بھی ان کا حق دو، یہ بہتر ہے ان لوگوں کیےلیےجو خدا کی رضا چاہتے ہیں، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الروم: 38)
قرآن و حدیث میں رشتوں کا پاس رکھنے اور رشتے جوڑے رکھنے کی تلقین بار بار کی گئی ہے۔ جو لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں، ان کےلیے باغات، اچھے انجام اور سلامتی کی خوشخبری ہے اور جو رشتوں کو توڑتے ہیں، قطع رحمی کرتے ہیں ان کےلیےدنیا اور آخرت دونوں میں رسوائی ہے۔

صلہ رحمی کا مفہوم

صلہ رحمی سے مراد اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا،ایک دوسرے کے دکھ ، درد، خوشی اور غمی میں شریک ہونا، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا۔ صلہ رحمی کےلیے ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ جس بھی طریقے سے انسان اپنے رشتے داروں کے کام آسکتا ہے، آئے۔ مثلا ًان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، مشورہ دینا، کسی مشکل سے نکلنے کےلیےسہولت فراہم کرنا ۔ یعنی ہر وہ طریقہ جس سے رشتے کو اچھے سے نبھایا جائے، ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کیے جائیں؛ اسے اختیار کر نا صلہ رحمی کہلاتا ہے ۔
قرابت داروں سے چھوٹی چھوٹی بات پر ناچاقی کی نوبت آسکتی ہیں ،لیکن اس کو حسن تدبیر سے اپنے بچوں کی تربیت اور احساس تحفظ کی خاطر نظر انداز کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے ۔
عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو صرف صلہ رحمی کرنے والوں ہی سے بنا کر رکھے، صلہ رحمی تو وہ کرتا ہے کہ جب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔‘‘
(بخاری : 5991)
ابرہم ماسلو نے احرارکی آف بیسک نیڈ میں انسان کی بنیادی ضرورت کے مخروط میں دوسرے نمبرپر فیملی سے مستحکم تعلقات کو بنیادی ضرورت کے طور پر بیان کیا ہے ۔مطلب یہ کہ بچے کو یہ احساس رہے کہ میری فیملی کے افراد میرا خیال رکھتے ہیں، محبت کرتے ہیں، ہم رشتے دار آپس میں ایک دوسرے کے اچھے اور برے وقتوں کے ساتھی ہیں ۔یہ احساس انسان کو احساس تحفظ بخشتا ہے ۔بچے بھی اپنی نوعمری میں اپنی اخلاقیات کے معاملے میں سماجی پریشر کی وجہ سے محتاط رہتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ایک گھر چھوڑ کر کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ چھپ کر شادی کرنی والی لڑکی کو جب واپس گھر لوٹنا پڑا۔ دوران کاؤنسلنگ پوچھا گیا کہ آپ کو اپنے والد کی عزت کا احساس نہیں ہوا یا رشتے داروں کا؟ تو اس نے جواب دیاکہ رشتے دار پہلے ہی سے ہم سب کو چھوڑے ہوئے تھے، ہمارے ابو امی کے رشتے داروں تعلقات پہلے ہی سے خراب تھے، پلٹ کر وہ نہیں پوچھتے تھے ۔اسی لیے ہم لوگ مالی حالت اور رشتے داروں کی بے مروتی سے پریشان تھے ۔
مطلب یہ کہ ناخوش گوار تعلقات کے باوجود اگر نبھاکر چلا جاتا،تو تعلقات لیے دیئےہی سہی، استوارتو رہتے۔ بچوں کے غیر اخلاقی قدم اٹھانے میں سوشل پریشر کام کرتاہے کہ شرمندگی زیادہ ہوگی ۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا :’’یارسول اللہ ﷺ میں اپنے رشتہ داروں سے سے بنا کر رکھتا ہوں، لیکن وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ برا رویہ رکھتے ہیں۔‘‘
تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے بیان کیا تو تم ان کے پیٹ میں گرم ریت ڈال رہے ہو، جب تک تم ان کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرتے رہو گے اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ایک مددگار مقرر رہے گا۔‘‘(مسلم: 2558)
برے تعلقات کو بھی حسن کے ساتھ برتنا ،بچوں کے درمیان تربیتی نقطے سے سسرالی رشتے داروں کی تعریف کرنا، بچوں کو احساس دلاتا ہے کہ فلاں کی اخلاقی قدر کی ہمارے والدین کے نزدیک اہمیت ہے اور یہ تذکیر انہیں برائی سے رکنے میں مدد گار بنتی ہے ۔
مثلاً: ماں اپنے بیٹوں سے کہے کہ بیٹا آپ اپنےچچا کو دیکھیں !وہ کسی نامحرم خاتون کی جانب نگاہ اٹھاکر نہیں دیکھتے، حتی کہ گھر کی بہوؤں سے بھی احتیاط کے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں۔ یہ بات بچوں کو ان کی اخلاقی قدر کی حساسیت کااحساس دلاتی ہے ۔وہ یہ بچپن سے جانتے ہیں کہ ہمارے والدین کے نزدیک نظر کی حفاظت کرنا اہم ہے۔یہی بات اگر ماموں سے متعلق کہی جائے تو بچے ذہین ہیں، سمجھ لیں گے کہ ماں کے نزدیک اس رشتے کی خوبی تو ان کی قربت کی وجہ سے ہے،لیکن یہی بات ان کے چاچا سے متعلق زیادہ مؤثر ہوگی ۔اسی طرح اپنی بیٹی سے پھوپھی کی سلیقہ شعاری، فرمانبرداری اور پاک دامنی کی تعریف ہوتو بچوں میں وہی اقدار پروان چڑھتی ہیں ۔
خاندان میں ایک دوسرے کو برا کہنے کا مزاج ختم ہوتا ہے ۔بچوں میں پیارے نبی صلعم یہ یہ بات بار بار تذکیر ہوں ۔
ایک حدیث مبارک (جس کے راوی حضرت ابوہریرہ ہیںؓ)میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں ،اللہ تعالیٰ اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ‘‘
صحابۂ کرام نے پوچھا :’’یا رسول اللہ ﷺ کن (صفات والوں) کو ؟‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو تجھے محروم کرے تو اسےعطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر، اور جو تجھ سے رشتہ داری اور تعلق توڑے تو اس سے جوڑ۔‘‘
ایک صحابی نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا ؟‘‘
تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تجھ سے آسان حساب لیا جائے گا ،اور تجھے اللہ تعالیٰاپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا۔‘‘( المستدرک للحاکم : (3912
بہرکیف، رشتوں کو کاٹنے یعنی قطع رحمی سے کوئی بھلائی انسان کو حاصل نہیں ہوتی، وہیں صلہ رحمی کی رحمت آپ کے رزق کی کشادگی ، اللہ کی طرف سے مدد کا سبب ہوتی ہےاور بچوں کی تربیت پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں اور’’رحم‘‘ (یعنی رشتہ ناتا) ہی ہے جس کا نام میں نے اپنے نام ( یعنی رحمان) سے نکالا ہے، لہذا جو اسے (رحم) کو جوڑے گا تو میں بھی اس کو اپنی رحمت خاص کے ساتھ جوڑوں گا اور جو شخص اسے (یعنی رحم) کو کاٹے گا تو میں اس کو (اپنی رحمت خاص سے ) کاٹوںگا۔ (ابو داو‘د: 1694)
قطع رحمی انسان کو تنہا کردیتی ہے، اورقرابت داروں کے حقوق سے ناآشنا رکھتی ہے ۔

قطع رحمی پر وعید

 صلہ رحمی کے بے شمار فضائل ہیںاور اس کا اجر ہے ،اس کے برعکس قطع رحمی پر بہت سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’ جو لوگ اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ (سورۃالبقرہ:: 27)
بچوں میں قطع رحمی کے سبب عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے،وہ گھنٹوں اپنے رشتے داروں کی برائی پر سوچتے رہتے ہیں۔ان کے نظریات رشتوں سے متعلق تبدیل ہوجاتے ہیں،جیسے بہن بھائی بڑے ہوکر دشمن ہوتے ہیں یا ہمارے والدین کی اچھائی کا پھل ان کے بہن بھائی نے برا دیا ہے،اس کا مطلب ہمارے بہن بھائی بھی برے نکل سکتے ہیں۔یہ احساسات بچپن سے ان کے درمیان موجود ہوتے ہیں اور وہ اسی منفی رجحان کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔اکثر لوگ برادران یوسف کی مثال دیتے ہیں لیکن یوسف علیہ السلام کی صلہ رحمی کو یکسر بھول جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بچے اپنے اعزاء و اقراباء سے منفی خیالات کے ساتھ بے دلی سے ملتے ہیں۔اس رویے کو بڑے محسوس کرلیتے ہیں،اور وہ بھی بچوں سے متعلق ایک منفی شخصیت کا تصور بنالیتے ہیں،جبکہ ان معاملات میں بچوں کا کوئی رول نہیں ہے،ان کے دماغ میں ساری برائی والدین نے ڈالی ہوتی ہے۔ان تمام واقعات کا نتیجہ بچوں کی منفی سوچ اور متاثر ذہنی صحت کے شکل میں سامنے آتا ہے۔یاد رہے! قرآن مجید نے والدین ناگہانی موت پر ان ہی چاچا،تایا،پھوپھی کو یتیم کی دیکھ بھال اور کفالت کی ذمہ داری سونپی ہے۔کسی کو اپنی زندگی کی خبر نہیں،اس لیے ان رشتوں سے متعلق صحت مند سوچ بنانا،ان سے تعلقات استوار رکھنا اور بچوں کو صلہ رحمی کی تربیت کرنا زیرک والدین کا سب سے اہم ایجنڈا ہونا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘(بخاری : 5984)
ایک اور حدیث میں ہے:
’’ اس قوم پر رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی رشتوں کو توڑنے والا موجود ہو۔‘‘ (الادب المفرد : 63)

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے