دسمبر ۲۰۲۳

سوال:
آج کل بہت سی لڑکیوں میں شادی نہ کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ وہ دیکھتی ہیں کہ بہت سے گھرانوں میں بیویوں پر ظلم کیا جاتا ہے، انھیں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کے ساتھ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر وہ آئندہ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں شدید اندیشوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف ان میں ملازمت کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنی گزر اوقات کے لیے کسی پر منحصر نہیں رہتیں۔ چنانچہ وہ کہتی ہیں کہ ہم اپنی آئندہ زندگی ماں باپ کے گھر گزار لیں گے، یا اپنا الگ انتظام کرلیں گے، لیکن شادی نہیں کریں گے۔
بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کیا ایسی سوچ درست ہے؟ اگر نہیں تو اس طرح سوچنے والی لڑکیوں کو کیسے سمجھایا جائے؟

جواب:
اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے امتحان گاہ کی حیثیت دی ہے۔ یہاں انسان جیسے اعمال کریں گے ان کا بدلہ آخرت کی زندگی میں، جو حقیقی اور ابدی ہوگی، انھیں ملے گا۔ دنیا میں اچھے اعمال کرنے والے جنت کی نعمتوں سے شاد کام ہوں گے اور یہاں بُرے کام کرنے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا(الملک: 2)
(جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔)
دنیا کا نظام جاری و ساری رہے اور قیامت تک یہاں انسانوں کا وجود باقی رہے، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے’ ’زوجیت‘‘ کا قانون بنایا ہے۔ انسانوں کو ہی نہیں، بلکہ حیوانات اور نباتات کو بھی اس نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے، تاکہ ان کی نسلیں چلیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہو اور دنیا کی رنگینی قائم رہے۔ قرآن مجید میں ہے:
فَاطِرُ السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضِ، جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا یَذْرَؤُکُمْ فِیہِ(الشوریٰ : 12)
(آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، جس نے تمھاری اپنی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی (ان ہی کے ہم جنس)جوڑے بنائے اور اس طریقے سے وہ تمھاری نسلیں پھیلاتا ہے۔)
دوسری جگہ تمام انسانوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے:
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَآءً(النساء: 1)
(لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اوران دونوں سے ہی بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ قانونِ زوجیت پر عمل پیرا ہوں اور ان کے درمیان توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رہے۔ اسی لیے ان کے اندر صنفی میلان (Sex) کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔عمر کی ایک حد تک پہنچنے کے بعد مرد عورت کی طرف کشش محسوس کرتا ہے اور عورت کے اندر مرد کی طرف کھنچاؤ پایا جاتا ہے۔ اگر اس جذبے کی تسکین صحیح طریقے سے ہو تو انسانیت کا قافلہ سکون و اطمینان کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے، لیکن اگر اسے صحیح رخ نہ دیا جائے تو سماج فتنہ و فساد سے بھر جاتا ہے۔
جذبۂ جنس کے تعلق سے تاریخ میں انسانوں کے دو رویّے پائے گئے ہیں۔بہت سے انسانوں نے اسے حقارت کی نظر سے دیکھا اور اسے دبانے اور کچلنے کو انسانیت کی معراج سمجھا۔ دوسری طرف انسانوں کی بڑی تعداد نے یہ نظریہ قائم کیا کہ جنسی تسکین کے لیے انسان پر کوئی قد غن نہیں ہے۔ وہ جہاں اور جیسے چاہے، اپنی خواہش پوری کرلے۔ یہ دونوں رویےافراط و تفریط پر مبنی ہیں۔ جذبۂ جنس کو دبانا انسانی فطرت سے بغاوت ہے، جب کہ اباحیت کا نظریہ انسانی سماج کو حیوانات کے باڑے میں تبدیل کردیتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اس سلسلے میں اعتدال پر مبنی ہیں۔ اسلام ہر انسان کو اپنے جنسی جذبے کی تسکین کا حق دیتا ہے، لیکن اس کے لیے اس نے رشتۂ ازدواج سے جڑنا لازم قرار دیا ہے۔ کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کرنا بہت بڑا گناہ اور قابل ِ سزا جرم ہے۔ اسی طرح کسی مسلمان مرد اور عورت کا بغیر کسی عذر کے نکاح نہ کرنا اسلام میں پسندیدہ نہیںہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لَا صَرُوْرَۃ فِی الِاسْلَامِ(ابو داؤد: 1729)
(اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔)
صحابیٔ رسول حضرت عثمان بن مظعونؓ نے نکاح کیا تھا، لیکن ازدواجی معاملات میں بے پروا تھے، اسی لیے ان کی زوجہ بناؤ سنگھار نہیں کرتی تھیں۔اللہ کے رسول ﷺ کو خبر ہوئی تو انھیں تنبیہ کی اور فرمایا:
یَا عُثْمَانُ!إنَّ الرَّ ہْبَانِیَّۃَ لَمْ تُکْتَبْ عَلَیْنَا، أفَمَا لَکَ فِیَّ أسْوَۃٌ، فَوَاللٰہِ إنِّي أخْشَاکُمْ لِلّٰہِ، وَأحْفَظُکُمْ لِحُدُوْدِہٖ(مسند احمد : 25893)
(اے عثمان! رہبانیت ہمارے اوپر لازم نہیں کی گئی ہے۔ کیا تمھارے لیے میری ذات میں اسوہ نہیں ہے؟ اللہ کی قسم، میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرنے والا ہوں۔)
ایسی ہی سوچ بعض دیگر صحابہ بھی رکھتے تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اس کی سرکوبی کی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓبیان کرتے ہیں:
رَدَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَلَی عُثْمَانَ بنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ، وَلَو اَذِنَ لَہٗ لَاخْتَصَیْنَا(بخاری : 5073، مسلم : 1402)
(رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو بیوی سے الگ رہ کر زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اگر آپ انھیں اجازت دے دیتے تو ہم بھی خود کو خصی کر لیتے۔)
یہ بات درست ہے کہ مردوں کے غلبے والے سماج میں بہت سی خواتین کو عزت و احترام کا مقام حاصل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بہت سے بنیادی حقوق سے محروم رہتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی ازدواجی زندگی میں انھیں خوشی و مسرت حاصل نہیں ہو پاتی، ان پر ظلم کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات ان کے ساتھ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔ افسوس کہ یہ صورتِ حال بعض مسلم گھرانوں کی بھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکیاں اس اندیشے سے نکاح کا ارادہ ہی ترک کردیں۔ اندیشوں پر زندگی نہیں گزاری جاتی۔اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں زلزلہ نہ آجائے، پھر بھی ہم گھر میں رہتے ہیں۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ایک گاڑی دوسری گاڑی سے، ایک بس دوسری بس سے اور ایک ٹرین دوسری ٹرین سے ٹکرا نہ جائے، پھر بھی ہم سفر کرنا بند نہیں کرتے۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ دکان دار اشیائِ خودرو نوش میں ملاوٹ کرتے ہوں، پھر بھی ہم بازار جانا اور ضرورت کی اشیاء خریدنا موقوف نہیں کرتے۔ اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں ہم اندیشہ ہائے دوٗر دَراز کے باوجود معمول کی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ پھر نکاح کے معاملے میں یہ سوچ کیوں کہ اندیشوں کی وجہ سے نکاح کا ارادہ ترک کردیا جائے اور مجرّد زندگی کو ترجیح دی جائے۔
نکاح کرنا اللہ تعالیٰ کے اس نظام سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہے جو اس نے کائنات اور انسانیت کے تسلسل کے لیے برپا کیا ہے۔ نکاح ایک ایسا عمل ہے جس کا انسان کی فطرت تقاضا کرتی ہے اور فطرت سے بغاوت خود انسان کی اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور سماج بھی فتنہ و فساد سے بھر جاتا ہے۔ نکاح انبیاء اور خاص طور پر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی سنّت ہے، جس پر آپ ﷺ نے خود عمل کیا ہے اور اپنی امت کو بھی اس کا حکم دیا ہے، اس لیے عام حالات میں اس سے سرتابی کسی سچے مومن مرد یا عورت کے شایانِ شان نہیں ہے۔
نکاح کے معاملے میں اندیشوں میں مبتلا ہونے کے بجائے پوری تحقیق و تفتیش کے بعد اس کا اقدام کرنا چاہیے۔ لڑکیوں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ ان کے لیے دین دار رشتوں کو ترجیح دیں۔ کوئی رشتہ فائنل کرنے سے قبل ہر پہلو سے پوری تحقیق کر لیں۔ لڑکیوں پر اپنی مرضی نہ تھوپیں، بلکہ انھیں بھی شریکِ مشورہ کریں۔ رشتہ کردینے کے بعد ان سے غافل نہ ہوجائیں، بلکہ آئندہ بھی ان کے حالات کی جانکاری رکھیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی سرپرستی کریں۔ اس طرح امید ہے، لڑکیاں خود کو بے یار و مددگار نہیں محسوس کریں گی۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :


 اندیشوں پر زندگی نہیں گزاری جاتی۔اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں زلزلہ نہ آجائے، پھر بھی ہم گھر میں رہتے ہیں۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ایک گاڑی دوسری گاڑی سے، ایک بس دوسری بس سے اور ایک ٹرین دوسری ٹرین سے ٹکرا نہ جائے، پھر بھی ہم سفر کرنا بند نہیں کرتے۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ دکان دار اشیائِ خودرو نوش میں ملاوٹ کرتے ہوں، پھر بھی ہم بازار جانا اور ضرورت کی اشیاء خریدنا موقوف نہیں کرتے۔ اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں ہم اندیشہ ہائے دور دَراز کے باوجود معمول کی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ پھر نکاح کے معاملے میں یہ سوچ کیوں کہ اندیشوں کی وجہ سے نکاح کا ارادہ ترک کردیا جائے اور مجرّد زندگی کو ترجیح دی جائے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے