مطالعہ اپروچ اور ترجیحات

 ( حیدرآباد میں ایس، آئی، او کے ایک پروگرام میں دیا گیا لیکچر نظر ثانی کے بعد )
مطالعہ روح اور ذہن کی غذا ہے۔ اس کی وہی اہمیت ہے جو غذا کی ہے۔ جس طرح غذا سے محرومی جسم کو لاغر کر کے بالآخر نا کارہ بنادیتی ہے، اچھی کتابوں سے دوری ہمارے ذہنی و فکری قویٰ کو کمزور اور پھر مردہ کر دیتی ہے۔ چاہے ہم کتنے ہی جہاں دیدہ ہوں ، ہمارے مشاہدات اور تجربات اپنے وقت اور مقام کی تنگنائیوں سے ماورا نہیں ہو سکتے۔ ایک بھر پور اور طویل زندگی کی شام میں بھی ، ہمارے حصہ میں اسی نوے برس کے مشاہدات ہی آپاتے ہیں، جو بنی نوع انسان کے تجربات کا بہت ہی معمولی اور حقیر حصہ ہوتا ہے۔ زندگی بھر کی سیاحت کے باوجود ہم دنیا کے بہت سے حصوں میں نہیں جا پاتے ۔ ہم ماضی میں سفر نہیں کر سکتے ۔ انسانی تجربات کے بہت سے گوشوں میں ہم جھانک بھی نہیں پاتے۔ مطالعہ ہمیں ان سب سے جوڑتا ہے۔ اس عمل سے ہم پوری نوع انسان کے مشترک علمی ورثہ سے تعلق قائم کرتے ہیں۔ بنی نوع انسان کے تمام مشاہدات، انسانوں کے ہزاروں سالہ غور وفکر اور سعی و جہد کا حاصل اور سیکڑوں عبقری شخصیتوں کے فکر و تدبر کا نتیجہ ہماری دسترس میں آجاتا ہے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ جسے مطالعہ کی عادت نہ ہو وہ صرف ایک زندگی گزارتا ہے اور جسے مطالعہ کی عادت ہو وہ ہزاروں زندگیاں گزارتا ہے۔ مطالعہ سے غزالی وابن تیمیہ، ارسطو اور افلاطون اور مودودی و اقبال کی گراں مایہ زندگیوں سے بھی کچھ خوبصورت اور بیش قیمت لمحے ہمارے دامن میں آ گرتے ہیں، ان کی نظر اور ان کے مشاہدہ اور ان کی فکر اور ان کے ادراک کا کچھ حصہ ہمیں بھی نصیب ہو جاتا ہے۔ اس طرح مطالعہ کرنے والا انسانی تاریخ کی تمام عظیم ہستیوں کا ہم نشیں بن جاتا ہے۔ ایک طرح سے ان کی صحبت اور ہم مشربی اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ ایسی محفل میں بیٹھتا ہے جہاں انسانی تاریخ اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے اور جہاں انسانی افکار و خیالات اور تجربات و مشاہدات کی پوری کہکشاں روشن ہو جاتی ہے۔
جو شخص مطالعہ نہیں کرتا، وہ ایک طرح سے ناخواندہ ہی ہے۔ اس لیے کہ خواندگی کا فائدہ ہی یہ ہے کہ آپ پڑھیں اور لکھیں ۔ یہ مقصد حاصل نہیں ہو رہا ہے تو خواندگی بے معنی ہے۔ اسی طرح آدمی صرف اپنے شعبہ یا پیشہ سے متعلق ٹیکنیکل کتابوں تک اپنے مطالعہ کو محدود رکھتا ہے تو وہ بھی ناخواندہ ہے۔ وہ ایک بے جان مشین ہے ،جو ایک مخصوص کام کے لیےبنائی گئی ہے۔ زندگی کے بلند تر معاملات اور وسیع تر حصوں میں ، اس میں اور ایک جاہل آدمی میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ایلوین ٹافلر نے پیشین گوئی کی تھی کہ مستقبل میں جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ ایسے ’’ نیم انسان‘‘(Semi-Humans)وجود میں لائے جائیں گے جو صرف کسی مخصوص کام کی صلاحیت ( مثلاً جہاز اڑانا، یا کمپنی میں کوئی خاص کام کرنا) کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور بڑی بڑی کمپنیوں میں بغیر تھکے دن، رات مکمل یکسوئی کے ساتھ سر جھکا کر اپنے اپنے مخصوص کاموں میں لگے رہیں گے اور انسانی حسیات، جذبات اور اپنے دائرہ سے باہر عام انسانی شعور سے پوری طرح عاری ہوں گے۔ اگر تعلیم کا مقصد ایسے نیم انسانوں کی پیدائش نہیں ہے، تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ وسیع تر مطالعہ کے ذوق کے بغیر تعلیم اور خواندگی کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔
اہل اسلام اور تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے تو مطالعہ اضافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ ان کے پیش نظر تو دنیا کی امامت وقیادت ہے۔ قیادت کا گہرا تعلق علم ، ادراک اور شعور سے ہے۔ وہ نیم انسان تو کجا، عام انسان بھی نہیں بنے رہ سکتے۔ انسانی عز وشرف فہم و ادراک اور علم و شعور کے حوالہ سے ایک بلند تر مقام پر انہیں خود کو لے جانا ہے اور اس لیے مطالعہ ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اچھی کتابیں اور ان کا مطالعہ ان کی زندگی میں وہی اہمیت رکھتا ہے جو ہوا اور پانی کو حاصل ہے۔

مطالعہ کے مقاصد

مطالعہ کا مقصد صرف معلومات کی منتقلی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ’’ حکمت ‘‘ کا حصول ہونا چاہیے ۔

ومن يوت الحكمة فقد أوتی خيراً كثيراً(البقرہ: 269)

 ( اور جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر کا خزانہ ملا۔)

حکمت کیا ہے؟ حکمت کی سید قطب شہید نے اس طرح تعریف کی ہے کہ اشیا ءاور عمل کو دیکھنے کے معاملہ میں دل پر مبنی رویہ جس سے ان کے مقاصد اور توجیہات کا صحیح شعور حاصل ہوتا ہے اور وہ اندرونی بصیرت پیدا ہوتی ہے، جس سے صحیح اعمال و حرکات کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔اس طرح حکمت کا مطلب اشیا ءاور اعمال کی گہرائی تک رسائی ہے۔ معلومات سے صرف اس بیرونی سطح کا فہم حاصل ہوتا ہے، جو آنکھوں سے نظر آرہی ہے، جبکہ حکمت اس گہرائی کا صحیح صحیح پتہ دیتی ہے، جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ حکمت کا گہرا تعلق عدل سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دعا سکھائی ہے:

 اللهم أرنی الاشیاء کما ھی

 (یعنی اے اللہ مجھے اشیاء کو ویسا ہی دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔)

 حکمت ہمیں اشیاء اور اعمال کے صحیح اور بناء بر عدل شعور تک پہنچاتی ہے۔ یعنی حکمت ہو تو ہم اشیاء کو ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسی کہ وہ ہیں۔ حکمت نہ ہو توہمارے تعصبات، اشیا ءاور اعمال کو بڑھا کر اور گھٹا کر دکھاتے ہیں ۔ عصبیت اور جذباتیت ہم کو اندھا کرتی ہے، جب کہ حکمت ہم کو صحیح بینائی عطا کرتی ہے۔
حکمت نہ ہو تو دشمن کی اچھی چیز بھی بری نظر آتی ہے۔ حکمت نہ ہو تو ایک مایوس آدمی کو ہر چیز تباہ کن اور منفی نظر آتی ہے۔ حکمت نہ ہو تو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ حکمت نہ ہو تو ہم نو جوانوں کی ، اپنے سے کم عمر لوگوں کی اورنئی نسل کی خوبیوں کو نہیں سمجھ پاتے ، ان کی صرف خامیاں ہی نظر آتی ہیں۔ حکمت نہ ہو تو اپنی محبوب شخصیات کی کوئی کمزوری ہم کو نہیں دکھائی دیتی اور ناپسند یدہ لوگوں کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی ۔ اس طرح حکمت کا نہ ہونا ہمارے فہم و شعور کو متعصب بنادیتا ہے۔ ہماری آنکھوں پر مخصوص چشمے لگ جاتے ہیں ۔ ہم سرنگ نظری (Tunnel Vision)کے شکار ہو جاتے ہیں ، اور غلط شعور ، غلط فیصلوں کا ، غلط فیصلے غلط حرکات اور غلط تدابیر کا اور غلط تدابیر تباہ کن نتائج کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے حکمت صحیح اعمال اور حرکات برآمد کرتی ہے اور حکمت کا فقدان نقصان دہ اقدامات پیدا کرتا ہے۔ابن قیم نے حکمت کی تعریف یوں کی ہے:
’’ان کاموں کا صحیح شعور جنہیں انجام دیا جانا چاہیے، ان کاموں کے صحیح طریقہ کا شعور اور ان کے صحیح وقت کا شعور‘‘
مذکورہ دونوں تعریفوں کا گہرا تعلق ہے۔ اس لیے کہ اشیاء اور اعمال کو صحیح طور پر دیکھنے کے بعد ہی صحیح کام، ان کے صحیح طریقے اور ان کے صحیح وقت کا ادراک ہوسکتا ہے۔ چنانچہ مطالعہ کا مقصد حکمت کا حصول ہونا چاہیے ۔ مطالعہ نہ ہو تو آدمی اپنے تجربات،اپنے ہم خیال افراد اور سوچ کے اپنے مخصوص زاویوں کے قید خانہ (Ghetto )میں مقید رہتا ہے۔ اور یہ ’’بسم اللہ کی گنبد‘‘اسے متعصب بنا دیتی ہے۔ وہ اشیا ءاور اعمال کو آزادی کے ساتھ ان کے حقیقی رنگ اور روپ میں نہیں دیکھ پاتا۔ مطالعہ اس کو اس خول سے باہر لاتا ہے۔ متنوع خیالات سے اس کا سابقہ ہوتا ہے۔ معلومات میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ اپنے دائرہ کے باہر کے تجربات سے بھی وہ مستفید ہوتا ہے۔ مخالفین کے دلائل اور ان کے ذہنی سانچہ سے بھی وہ واقف ہوتا ہے۔ اور یوں اس کے اندر حکمت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکمت ان تمام معاملات میں مطلوب ہے، جن سے ہم کو سابقہ در پیش ہے۔
ایک تحریکی کارکن کی زندگی میں تین طرح کے معاملات در پیش ہوتے ہیں۔اول تو یہ کہ اسے ایک عام انسان اور باعمل مسلمان کی حیثیت سے زندگی گزارنی ہے۔ اسے اپنے گھر میں ،محلہ میں، دفتر میں ایک ہوشیار اور زیرک انسان کی حیثیت سے رہنا ہے۔ اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ زمین، جائیداد کے معاملات نبٹا نے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کو صحیح تعلیم دینی ہے اور ان کو صحیح کیریئر کی رہنمائی کرنی ہے، اور ان کی شادیاں کرنی ہیں۔ دفتر میں ، گھر میں ،محلہ اور گاؤں میں ایک شہری کی حیثیت سے مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہے۔سفر کرنا ہے۔ اپنے مالی معاملات کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ جو کچھ وسائل اور ٹکنالوجی میسر ہے، ان کا کامیاب زندگی کے لیے اچھا اور خوبصورت استعمال کرنا ہے۔ یہ سب معاملات بھی حکمت چاہتے ہیں۔
مطالعہ کا ایک مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ ان سب معاملات میں ہمارا علم اور شعور اتنا پختہ ہوکہ ہم بروقت صحیح اور مناسب فیصلے کر سکیں اور اشیاء اور اعمال کے سلسلہ میں ہماری نظر ہر طرح کی افراط و تفریط سے پاک اور مبنی بر حقیقت ہو۔ اس مقصد کے لیے جہاں دین کا بنیادی مطالعہ مطلوب ہے، وہیں وہ مطالعہ بھی مطلوب ہے جو دنیا، ہمارے عہد ، ہمارے اطراف و اکناف اور ہمارے احوال و ظروف کی بصیرت بھی پیدا کرے۔دوم یہ کہ اسے ایک با مقصد تحریکی کارکن کی حیثیت سے زندگی گزارنی ہے۔ اس کے سامنے دعوت ، تربیت اور اصلاح کے کام، ملک اور دنیا کے مسائل وغیرہ بطور چیلنج موجود ہیں۔ ان سب کا گہرا فہم و شعور اسے حاصل کرنا ہے۔ اسے تحریک کے مقاصد، مزاج اور طریقۂ کا رکا شعور حاصل کرنا ہے۔ اور اس قابل بننا ہے کہ ملک اور دنیا کے حالات اور مسائل کے درمیان وہ تحریک کے کامیاب سفر کے لیے راہیں نکال سکے،یہ کام بھی حکمت چاہتا ہے۔
مطالعہ کا ایک مقصد یہ بھی ہونا چاہیےکہ یہ حکمت بھی ہمارے اندر پیدا ہو۔اور سوم یہ کہ انسانیت اور تحریک کی خدمت کے لیےجو میدان اس نے منتخب کیا ہے ، اس میدان میں وہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ چنانچہ کوئی مقرر ہے تو وہ کامیاب اور مؤثر مقر رہو۔ کوئی مصنف اور دانشور ہے تو وہ اپنے علم و دانش سے دنیا کو آ گے لے جائے ۔ کوئی قائد ہے تو فن قیادت پر اسے عبور حاصل ہو۔ کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ میڈیکل سائنس میں اسلام کے مزاج و منشا کے مطابق اختراعی صلاحیتوں کا مالک بنے اور کوئی عالم معاشیات ہے تو اسلامی فکر کے تحت وہ معاشیات کو نئی بلندیاں عطا کرے۔ یہ تمام کام بھی حکمت کا تقاضہ کرتے ہیں۔
امام غزالی نے علم کو فرض کفایہ اور فرض عین علم میں تقسیم کیا ہے۔ اس طرح مطالعہ بھی فرض عین اور فرض کفایہ میں منقسم ہو جاتا ہے۔ وہ مطالعہ جس سے دین کا بنیادی فہم و شعور حاصل ہوتا ہے، فرض عین ہے، یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس میں حلال و حرام کا علم شامل ہے۔ فرائض و واجبات اور ان کی ادائیگی کے درست طریقے ، حقوق، اور اپنے پیشہ اور کام سے متعلق اسلام کی تعلیمات کا علم شامل ہے۔ آج کے زمانہ میں ایک پڑھے لکھے آدمی کو قدم قدم پر اسلام کے بنیادی عقائد کے تعلق سے طرح طرح کی گمراہیوں اور وسوسوں کا سامنا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عقائد کا صحیح شعور، اسلامی عقائد وافکار کی حمایت میں ضروری دلائل کا فہم بھی لازم علم ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق ایمان کی حفاظت سے ہے۔ اگر آپ دعوت اور تحریک کے کام کو فرض سمجھتے ہیں توان کاموں کے لیےدرکار ضروری علم بھی لازمی قرار پائے گا۔

مطالعہ کیا ہے؟

مطالعہ کا مادہ مطلع ہے۔ جس کا مطلب ہے کسی غائب چیز کا وجود میں آنا یا ظاہر ہونا۔ اسی سے لفظ طلوع بنا ہے۔ چنانچہ طلوع آفتاب کے معنی ہیں غائب سورج کا ظاہر ہونا۔ اور مطلع کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں سورج ظاہر ہوتا ہے۔ مطالعہ کا باب ’’مفاعلہ‘‘ ہے ۔ اور اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آنے والے افعال میں دو یا دو سے زیادہ لوگ مل کر کوئی کام با ہم کرتے ہیں۔ معانقہ، مصافحہ ، مباحثہ ، مکالمہ، معانقہ، مشارکہ، مضاربہ، محاسبہ، یہ سب وہ کام ہیں جود و یا زیادہ لوگ مل کر کرتے ہیں۔ اس طرح مطالعہ کے لفظی معنی یہ ہوئے کہ دو یا دو سے زیادہ لوگوں کا ایسا با ہمی تعامل جس سے کوئی غائب چیز وجود میں آئے۔ غائب چیز علم یا ادراک ہے جو مطالعہ سے وجود میں میں آتی ہے۔ اور یہ قاری اور کتاب کے درمیان تعامل کے نتیجےمیں وجود میں آتی ہے۔ اس طرح مطالعہ میں کتاب کا بھی کردار ہے اور قاری کا بھی۔ یہی وہ چیز ہے جسے انگریزی میں Creative Reading کہا جاتا ہے۔

Creative Reading is a dialogue between the reader and the text in which the reader contributes as much as the text.

یعنی Creative Reading دراصل قاری اور متن کے درمیان ایسا مکالمہ ہے ،جس میں متن بھی کچھ دیتا ہے اور قاری بھی دیتا ہے۔ چنانچہ مطالعہ Creative Reading اور خواندگی Reading میں فرق ہے۔ خواندگی ایک طرفہ عمل ہے اور مطالعہ دوطرفہ ۔ خواندگی میں صرف کتاب فاعل ہوتی ہے اور قاری مفعول۔ جبکہ مطالعہ میں دونوں فاعل ہوتے ہیں۔ خواندگی میں صرف معلومات کی منتقلی ہوتی ہے۔ یعنی قاری کتاب سے معلومات حاصل کرتا ہے، جبکہ مطالعہ ایک تخلیقی عمل ہے، جس میں قاری کتاب کی مدد سے نئے علم کو جنم دیتا ہے اور بہت سی ایسی نئی باتیں بھی وجود میں لاتا ہے جو کتاب کے متن میں موجود نہیں ہوتیں۔ مطالعہ میں قاری کتاب سے صرف اکتساب نہیں کرتا بلکہ اس سے مستقل مباحثہ میں مصروف ہوتا ہے۔ اس کی ہر بات کو وہ آزادانہ غور وفکر کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔سوالات کھڑے کرتا ہے۔ اس کے دلائل کا جائزہ لیتا ہے۔ کبھی ان دلائل پر اضافہ کرتا ہے اور مصنف کی بات سے اتفاق کرتا ہے اور کبھی اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کے دلائل کی کاٹ کرتا ہے۔ اس کی باتوں کو نئے حالات اور نئے مسائل پر اطلاق کرتا ہے۔ اس عمل میں بہت سی نئی باتیں بھی اس کو سوجھتی ہیں۔
اس طرح کا مطالعہ یا Creative Reading چار مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے۔
-1 بیانیہ مرحلہ Desciprive Phase ( ٹیکسٹ کی وضاحت ، حسب ضرورت ڈکشنریز اور دیگر کتابوں کی مدد)
-2 تعبیری مرحلہ Interpretive Phase
( تشریح، کنٹیکسٹ کو سمجھنے کی کوشش)
-3تنقیدی مرحلہ Critical Phase (تنقید، اختلاف، بحث )
-4 تخلیقی مرحلہ Creative Phase (اپنے خیالات کی تشکیل )
بیانیہ مرحلہ میں قاری کتاب پڑھتا ہے۔ تعبیری مرحلہ میں وہ متن کو سمجھنے اور مصنف کے منشا کی تعبیر و تشریح کی کوشش کرتا ہے۔ تنقیدی مرحلہ میں وہ مصنف کے خیالات اور اس کے دلائل کو جانچتا، پرکھتا ہے، ان کا تنقیدی جائزہ لیتا ہےاور تخلیقی مرحلہ میں کتاب کے مشتملات سے استفادہ کرتے ہوئے اور اپنے حالات و مسائل پر غور کرتے ہوئے ، اسے نئے خیالات اور آئیدیاز سوجھتے ہیں۔
مثلاً اگر آپ خطبۂ مدراس پڑھ رہے ہیں تو بیا نیہ مرحلہ میں آپ پوری کتاب پڑھ لیں گے۔ تعبیر کے مرحلہ میں آپ کی کوشش ہوگی کہ آزادی سے قبل کے ہندستان کے پس منظر کو سمجھیں ۔ مولانا مودودی کے تجزیےاور ان کی تجاویز کو اس پس منظر میں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ تنقیدی مرحلہ میں مولانا مودودی کے دلائل اور ان کے تجزیہ کو آپ جانچیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی بعض باتوں سے اس مرحلہ میں آپ اختلاف کریں اور بعض باتوں کی تائید میں، نئے حالات میں کچھ اور دلائل کا آپ اضافہ کر دیں۔ اور تخلیقی مرحلہ میں اس ساری بحث سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ انوکھے خیالات آپ کے ذہن میں پیدا ہوں گے۔ کچھ نئی تدابیر سو جھیں گی۔ مثلاً ہوسکتا ہے آپ کو یہ بات بہت پسند آئے گی کہ ملک کے اہل دماغ طبقہ کو متاثر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے نئے دور کے ہندستان میں ٹکنالوجی اور کمیونکیشن کے جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ذہین طبقہ کو متوجہ کرنے کے لیے کوئی نئی تدبیر آپ کے دماغ میں پیدا ہو جائے ۔ یہ تخلیق ہے۔ اور یہی مطالعہ کا حاصل ہے۔

مطالعہ کی ترجیحات

یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس تفصیل سے ہر کتاب نہیں پڑھی جا سکتی اور پڑھنی بھی نہیں چاہیے۔ علمی دھما کہ کے اس دور میں ترجیحات کے شعور(Sense of Priorities) اور انتخاب کی صلاحیت(Selection Ability) کے بغیرحکمت کا حصول ممکن نہیں ۔

‘‘Some books are to be tasted, others to be swallowed and some few to be chewed anddigested.’’ (Francis Bacon)

(کچھ کتا بیں صرف چکھنے کی ہوتی ہیں، کچھ نگل جانے کی ہوتی ہیں اور کچھ ہی کتا میں چبانے اور ہضم کرنے کی ہوتی ہیں ۔)(فرانسس بیکن)
اس لیے اس درجہ بندی کی صلاحیت ضروری ہے کہ کس کتاب کو کس خانہ میں رکھا جائے۔ ہر کتاب اس لائق نہیں ہوتی کہ اسے مطالعہ کے تفصیلی عمل سے گزارا جائے۔ بعض کتابیں سر سری جائزہ کے لائق ہوتی ہیں۔ بعض کتابوں کی صرف خواندگی کافی ہوتی ہے۔ بعض کتابوں کے کچھ حصے ہی تفصیلی مطالعہ کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس قوت فیصلہ (Judgment )کے بغیر کثرت مطالعہ بھی حکمت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنتی۔
محض کتابیں جمع کرنا اور دنیا بھر کے، بھانت بھانت کے مصنفین کے نام لیتے رہنا مطالعہ نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں یہ کام تو بہت آسان ہے۔ اب تو ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کثرت معلومات Information Overload بھی حکمت کو ختم کرتی ہے۔ کمپیوٹر کی میموری میں ڈاٹا بہت زیادہ ہو جائے تو اس کی پروسیسنگ کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی دماغ میں بھی جب اس کی پروسیسنگ کی صلاحیت سے زیادہ معلومات جمع ہو جاتی ہیں تو فیصلہ سازی سست ہو جاتی ہے۔ اور معلومات انسان کے لئے بوجھ (Liability)بن جاتی ہیں۔ اس لیے کثرت مطالعہ (Quantity)سے زیادہ معیار مطالعہ(Quality)پر ہماری توجہ ہونی چاہیے ۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی ذاتی ترجیحات، اپنے ذاتی مقاصد زندگی، اور ذوق کے مطابق منتخب معیاری کتابوں پر اپنا وقت صرف کریں۔ اسی طرح آوارہ خوانی بھی مطالعہ نہیں ہے۔ بغیر اہداف اور واضح نقشہ کے ادھر ادھر کی کتا بیں منتشر طریقہ سے پڑھنے سے اکثر پراگندہ خیالی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مطالعہ تقسیم اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ ہدف واضح ہونا چاہیے کہ آپ کن کن میدانوں میں کس طرح کی اور کس معیار کی حکمت پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اور اس مقصد کے لیے آپ کو کیا مطالعہ کرنا چاہیے؟ مطالعہ کے کیا کیا میدان ہوں گے؟ اور ان میں توازن کی مطلوب شکل کیا ہوگی؟
میں اپنے دوستوں کو ہمیشہ سات طرح کی چیزوں میں ضروری توازن کا مشورہ دیتا ہوں۔ میرے خیال میں ایک نوجوان کے ٹیبل پر ان سات طرح کی کتابیں مناسب توازن کے ساتھ رہنی چاہئیں ۔

1- قرآن مجید:

اس کو راست عربی زبان میں بھی پڑھنا چاہیےاور ترجموں اور تفاسیر کی مدد سے سمجھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے ۔ باقاعدگی کے ساتھ متعین حصہ کا بھی مطالعہ ہونا چاہیے اور اپنے علمی، فکری اور عملی مسائل کے سلسلہ میں بار بار قرآن سے رجوع کرنے اور اپنے سوالات کا قرآن میں حل ڈھونڈنے کی بھی کوشش ہوتے رہنا چاہیے۔ قرآن مجید کی اصل حیثیت ایک ایسی ریفرنس بک کی ہونی چاہیے جو ہمارے اسٹڈی ٹیبل پر یا ہمارے کمپیوٹر میںمرکزی حیثیت کی حامل ہو، اور جس سے تمام انسائیکلو پیڈ یاز، ڈکشنریز، اور دیگر حوالہ جاتی کتابوں کے مقابلہ میں زیادہ ہم ہر روز رجوع ہوتے ہوں۔

 2-اپنے پیشہ اور شعبہ ٔعلم سے متعلق کتابیں اور اس شعبہ کے اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے والی کتابیں :

یعنی اگر ہم معاشیات کے طالب علم ہوں تو معاشیات کی بلند پایہ اور تازہ ترین کتابیں بھی پڑھیں اور اسلامی معاشیات بھی پڑھتے رہیں۔ اگر ہمارا تعلق میڈیکل سائنس سے ہے تو میڈیکل سائنس کی معیاری تحقیقات پر بھی ہماری نظر ہو اور ان اسلام پسند مصنفین کو بھی پڑھتے رہیں ،جو جدید میڈیکل سائنس کا اسلامی نقطہ ٔنظر سے جائزہ لے رہے ہیں اور اسلامی ماڈل کی تعمیر کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

3- سلف صالحین کی کتابیں :

اس لیے کہ اسلام کی علمی تاریخ کے پورے ورثہ سے ہماری وابستگی ہماری صحیح علمی و فکری اٹھان کے لیے ضروری ہے۔ اہم تفاسیر قرآن، صحاح ستہ، اصول تفسیر، اصول فقہ وغیرہ جیسے علوم کی کتابوں سے بھی ہم حسب استطاعت استفادہ کریں۔ اور خاص طور پر امام غزالی، امام ابن تیمیہ (اور ان کے عظیم شاگرد ابن قیم) ، ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ ہماری علمی وفکری تاریخ کے اہم نشان اورسنگ ہائے میل ہیں ۔ ان سے مناسب استفادہ نہ ہو تو ہمارے علم وفکر میں بڑا خلا رہ جاتا ہے۔

4- تحریک اسلامی کا لٹریچر:

خاص طور پر ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ مولانا مودودی کی تمام کتا بیں پڑھ لیں۔ علمی ذوق رکھنے والے نو جوان دوستوں کو مولانا مودودی کی ان کتابوں کو بھی پڑھ لینا چاہیے، جو ہمارے ملک میں دستیاب نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں بھی بعض علم و حکمت کے بہت قیمتی خزانے موجود ہیں۔ مولانا مودودی کے علاوہ مولانا صدر الدین اصلاحی ، سید قطب اور ان معاصر مصنفین کو بھی پڑھنے کی کوشش ہونی چاہیے ،جنہوں نے بدلے ہوئے حالات میں نئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

5- دیگر جدید اسلامی لٹریچر:

تحریک کے معروف دائرےکے باہر ماضی میں جو کچھ کام ہوا ہے اور آج بھی جو کام ہورہا ہے وہ بھی اسلامی فکر کا اہم حصہ ہے۔ کئی بیش قیمت کتابیں ہمارے ملک میں بھی شائع ہورہی ہیں اور بیرون ملک بھی۔

6-جاہلی افکار ونظریات اور علوم کا مطالعہ:

اس لیے کہ جاہلیت کے صحیح فہم و شعور کے بغیر اسلام کا کام نہیں ہوسکتا۔ جاہلی افکار ونظریات ، فلسفے ، رجحانات ، جدید دنیا کے مسائل ، ساخت ، پیچیدگیاں ، ان سب کو سمجھنا ضروری ہے۔

 7-ادب کا مطالعہ :

ہوسکتا ہے کسی کو اس سے اختلاف ہو، لیکن میرے نزدیک ناول، افسانہ، شعر، انشائیوں ،سفر ناموں، کالموں ،طنز ومزاح، جاسوسی ادب، شکاریات ،سوانح عمریوں وغیرہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ حکمت کے کئی گوشے ایسے ہوتے ہیں، جو گہری علمی کتابوں کی دسترس اور دائرے سے پرے ہوتے ہیں، وہ اکثر ہلکے پھلکے اور لطیف ادب ہی کے ذریعہ واشگاف ہوتے ہیں۔ ادب زبان پر قدرت عطا کرتا ہے۔ لب ولہجہ میں شیرینی اور تاثیر پیدا کرتا ہے۔ الفاظ کا خزانہ بڑھاتا ہے۔ محاوروں اور روز مرہ مستعمل الفاظ پر گرفت عطا کرتا ہے۔ اور علم و حکمت کی بلندیوں کو عام زندگی کی پستیوں سے جوڑتا ہے۔ ان سات طرح کی چیزوں کے مطالعہ کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کے اصول کیا ہیں؟ یہ بحث اس تحریر کے دائرہ سے خارج ہے۔ کسی وقت موقع ملے تو ہم اسے بھی موضوع بنا ئیں گے۔ لیکن ان ساتوں کا احاطہ اور ان میں توازن ہمارے خیال میں اچھے مطالعہ کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے