مرد وخواتین ایک دوسرے کے معاون ہیں مقابل نہیں

خدا کی ساری مخلوق اپنی مخصوص ساخت اور فطری خصلتوں و صلاحیتوں کے مطابق ضروریات کی تکمیل چاہتی ہے ،انہی صلاحیتوں کے مؤثر استعمال کے لیے مواقع و ذرائع ڈھونڈتی ہے ،اورقدرت کے دئیے گئے وسائل کا بھر پور استعمال کرتی ہے۔ اپنی فطری خصوصیات اور بناوٹ سے میل نہ کھانے والے کام کی کوشش ہی نہیں کرتی۔
انسان (عورت مرد دونوں ) کو تو اللہ نے سب سےاحسن بنایا ہے ،اعلی ٰدماغ اور سوچنے سمجھنے کی بہترین قابلیت بخشی اور اس کی دونوں صنفوں(عورت اور مرد ) کو متعدد صلاحیتوں سے نوازا، ساتھ ہی ان کی طبعی، نفسیاتی و جسمانی ساخت میں کچھ فرق بھی رکھا، اور یہ فرق بنی نوع انسان کی فلاح و بقا کےلیے رکھا اور ان کی یکساں اور مختلف؛ دونوں قسم کی صلاحیتوں اور مزاج کی مناسبت سے مواقع بھی دئیے ،سہولتیں او رسائل بھی بخشے، احکامات بھی نافذ کیے ، اس پر عمل کے مطابق دنیا میں نتائج بھی ظاہر کرتا ہے اور آخرت میں اجر کا وعدہ بھی کیا گیا، لیکن اس خدائی نظم کے خلاف انسانی معاشرہ عورت کے ساتھ صدیوں سے افراط و تفریط کا برتاؤ کرتا آرہا ہے کہ اسے کہیں اتنا مقدس بنادیا کہ اس کی مورت کوخدا بناکر پوجا جانے لگا ،پھر اسی عورت کو کبھی جانور سے زیادہ حقیر جانا گیا۔ اس سے بنیادی حقوق بلکہ بعض اوقات جینے کا حق بھی چھین لیا۔خود مسلم معاشرہ کے ایک بڑےحصہ نے ابھی بھی کچھ دیگر تہذ یبوں کے عقائد کے زیر اثر اور کچھ روایت پسندانہ طرز فکر کے تحت مسلم عورت کو خدا کے عطا کردہ کئی حقوق سے محروم رکھاہے۔
اعلیٰ تعلیم کو ابھی بھی خواتین کے لیے غیرضروری ماناجاتا ہے ،صلاحیتوں کے استعمال وارتقاء کے مواقع ا نہیں نہیںدئیے جاتے ہیں،وراثت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے ،زیادتی پر مبنی نکاح و طلاق کے غیر اسلامی طریقے رائج ہیں،پردےکا انتہا پسندانہ تصور عورتوں کے ناموں کا بھی پردہ کرواتا ہے،جبکہ نبی ﷺ نے دعوت دین کا آغازکرتے ہوئے صفا پر قریش کے سرداروں کو آگاہ کیا، اور ساتھ ہی اپنی بیٹی اور پھوپھی کو بھی علی الاعلان نام لےکرمخاطب کیا ۔مسلم معاشرہ کا یہ طرز عمل اسلام کے عادلانہ مزاج کی نفی کرتا ہے۔

 مساوات مرد و زن کا مغربی تصور

فیمنسٹ تحریکوں کے نام نہاد مساوات و یکسانیت کے نظریے نے فطرت کے عین خلاف عورت کو عورت ہی رہنے نہیں دیا، عور ت و مرد کی مساوات کے نام پر عورت کو مرد کا سا بننے کےلیے مجبور کیا۔ یہ مساوات کا نعرہ بظاہر عورت کا درجہ بلند کرنے کے ہم معنی ہے، لیکن عملی طور پر اس کا مرتبہ گرایا جارہا ہےکہ مرد بننے یا مردوں کےکام کرنے سے ہی عورت عزت وتکریم کی مستحق ہو سکتی ہے۔ دومردوںمیں مساوات ہوسکتی ہے،ایسے ہی دوعورتوں کے درمیان مساوات ممکن ہے، لیکن دو مختلف نوع اور مزاج کے افراد میں یکسانیت اور مقابلہ ناممکن ہے۔ اسی لیے سالوں سے کروائے جارہے اس مقابلے میں عورت کو نقصان ہی اٹھانا پڑ رہا ہے، اس نے اپنی نسوانیت بھی کھودی، حیا جیسے قیمتی وصف سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی، لیکن اس قیمت کے عوض بھی اسے وہ چیز نہیں ملی، جس کا لالچ دیا گیا اور شور وغوغا مچایا گیا یعنی زندگی کے تمام شعبوں میں مردوں کے برابر مقام ،ایسی مساوات دینے کی مغرب کی کوشش نے اسے مستقل نابرابری کا شکار بنادیا ۔معاشی تگ و دو میں مرد کے مقابلےکی کوشش نے عورت کو اس کے فطری دائرہ کار’’ خاندان ‘‘
سے دور کردیا۔
مغربی دنیا نے یہ تصور عام کیا کہ خاندان چلانے کا بوجھ عورت پر ہوتا ہے، یعنی خاندانی نظام کااصل مقصد عورت کا استحصال ہے ۔جب عورت نےاس تصور کو قبول کیا تو نکاح، بچوں کی پیدائش، محبت و دلچسپی سے نگہداشت و پرورش کا مزاج ختم ہوگیا ،اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرگیا۔ جنسی بے راہ روی ،اباحیت پسندی اورناجائز بچوں کی کثرت نے مغرب کو شدید اخلاقی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔

 اسلامی تصور عدل

اسلام عادلانہ مزاج رکھتا ہے۔اسلام کے مطابق عورت مرد سے کم نہیں ہے ،بلکہ مختلف ہے۔ عام انسانی خصوصیات یکساں دی گئی ہیں،عمل کا اجر بھی یکساں ہوگا، کچھ حیاتیاتی بناوٹ مختلف ہے ،لہٰذا ذمہ داریوں کی تقسیم بھی ان کی ساخت کے حساب سے کی گئی ہے ،حیثیت اور مرتبہ میں فرق نہیں ہے۔
حیاتیاتی فرق کی وجہ سے دائرۂ کار مختلف ہے۔مساوات انسانی کا مطلب یہ نہیں کہ ہر آدمی وہی کام کرے جو کام دوسرا کر رہا ہے۔ مساوات کا اصل مطلب یہ ہےکہ اس کے کام کے مطابق اس کو اہمیت ملے ۔عزت و احترام خدا کے نزدیک دونوں کےلیے برابر ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا :

انماالنساءشقائق الرجال

( عورتیں، مردوں کا شقیقہ ہیں ۔)(ترمذی)
شقیقہ یعنی نصف،گویا عورتیں مردوں کا دوسرا نصف ہیں۔ ایک چیز کے دو نصف برابر ہوتے ہیں، یعنی عورت مرد ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ عورت میں جو کم ہے وہ مرد کےذریعہ پوراہوتا ہے اور مرد میں جو کم ہے اس کی تلافی عورت کے ذریعہ ہوتی ہے۔ قوت و مرتبہ حاصل کرنے کے لیے مرد بننے کی ضرورت نہیں، بلکہ عورت اپنے نسوانی کردار میں ہی عزت و احترام کی مستحق ہے۔

 عمل اور اجر میں مساوات

انى لااضیع عمل عامل منكم ذكر او انثى بعضكم من بعض

(میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں، چاہے مرد ہو یا عورت تم سب ایک دوسرے سے ہو۔) (سورۃآل عمران)
اللہ نے یہاں مرد کے ساتھ عورتوں سے بھی بالخصوص مخاطب کرکے وعدہ کیا ہے کہ جو اعمال خدا کی رضا کے لیے کریں گی، اس میں کچھ بھی کمی کیے بغیر پورا پورا اجر مردوں کی طرح ان کو بھی دیا جائے گا۔
’’جو کوئی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو ،ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ہم ان کو جو وہ کرتے ہیں اس کابہترین صلہ دیں گے۔‘‘ (سورۃ النحل )
یہ وہ اطمینان اور اعزاز ہے جو عورتوں کو اس کے خالق نے خصوصی طور پر بخشا ہے کہ نیکیوں کے بدلہ میں دنیا و آخرت میں مردوں اور عورتوں کو مساوی انعام دیا جائے گا، نہ صرف انفرادی نیکیاں بلکہ اللہ تعالی نے معاشرتی اصلاح کے کام میں بھی خواتین کو شامل کیا ہے، اور اس کوپسند فرمایا ہے ۔
’’مومن مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں ،بھلائیوں کاحکم دیتے ہیں برائیوں سے روکتے ہیں ۔‘‘(سورۃالتوبہ)
کہا گیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔مرد کے حدود میں مرد اور عورتوں کے حدود میں عورتیں ایک دوسرے کی مدد سے تبلیغ دین کا کام کریں تو کام مکمل ہوتا ہے۔

 حصول علم میں برابری

اسلام نے عورتوں کےعلم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، بلکہ نبیﷺ نے علم حاصل کرنا عورت اور مرد دونوں کےلیے فرض قرار دیاہے۔ رسول ﷺ نے عام خواتین ،اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو عیدین کے موقع پر عید گاہ آنے اور خطبات سننے کی تلقین کی ۔آپ ﷺ نے عورتوں کےلیے ایک دن مختص فرمایا تھا ،جس دن عورتیں بلا تکلف فقہ و شریعت کے متعلق سوالات کیا کرتیں تھیں اور اپنے علم میں اضافہ کیا کرتیں تھیں۔ دور نبوی میں عورتوں کو حصول علم کے لیےایسے کئی مواقع دستیاب تھے ۔نہ صرف دینی علوم، بلکہ عصری علوم کے حصول کی بھی آپﷺ تلقین اور اس کاانتظام فرمایا کرتے تھے، حضرت حفصہ کے لیے علم طب سیکھنے کا آپﷺ نے انتظام فرمایا تھا۔ فن حرب ،چمڑے کی دباغت ،کاشت کاری جیسے فنون کو صحابیات نے سیکھا اور اس میں مہارت بھی حاصل کرلی تھی۔آپﷺ نے خواتین کو حصول علم کی تلقین کی حوصلہ افزائی فرمائی اور انتظام بھی فرمایا ۔اسی لیے ابتدائی دور اسلام سے ہی خواتین طلب علم میں جذبۂ شوق و جستجو کے ساتھ سرگرداں رہا کرتی تھیں۔
خواتین کے اسی طلب علم کے شغف سے علم کوفروغ ہوا ۔احادیث کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچانے والی خواتین تھیں ۔صرف ام المؤمنین حضرت عائشہ کے ذریعہ ہزاروں احادیث ہم تک پہنچیں۔ شرعی احکام کا تقریباً چوتھائی حصہ حضرت عائشہ کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے، بعد کے ادوار میں بھی حضرت عائشہ کے اس اسوہ پر عمل پیرا عالم اسلام کی ہزاروں محدثات کا ذکر ملتا ہے، جنھوں نے علم الحدیث و فقہ میں گرا ں قدرر کارنامے انجام دئیے۔

 عورتوں کا خصوصی اعزاز

حضرت خولہ بن ثعلبہ اپنی مشکل کے حل کےلیےرسول اللہ سے مسلسل اصرار کرتی رہیں، تو اللہ نے قرآن میں بڑی محبت سے ان کا ذکر کیا، ظہار کے تعلق سے آیات نازل کیں۔ ام سلمی ٰنے جب نبیﷺ سے اس خیال کا اظہار کیا کہ اللہ کے رسول! خواتین کا ذکر قرآن میں نہیں ہے،تو آپﷺ نے خطبہ میں سورۃ الاحزاب کی ان آیا ت کی تلاوت کی ،جن میں مومن مردوں کے ساتھ مومن عورتوں کی اللہ کے پسندیدہ صفات کا ذکر اور ان صفات کی حامل عورتوںا ور مردوں کےلیےخصوصی انعام کی بشارت دی گئی ہے۔
کلام الہی میں ایک سورۃ عورت کے نام سے مختص ہے ۔سورہ مریم اور کئی مقامات پر خالق کائنات نے مریم کی نیکی اور پاکبازی کی اور آسیہ کی تعریف فرمائی۔واقعۂ افک کے بعد حضرت عائشہ کی برأت کلام الٰہی کے ذریعہ ظاہر ہوئی۔ خالق کائنات نے اپنے مقدس کلام میں عورتوں کا ذکر کرکے عزت افزائی فرمائی ہے۔ اس سے زیادہ اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے؟

 ذمہ داریوں کی تقسیم

مندرجہ بالا تمام حقوق اللہ نے عورتوں کو عطا کیے، لیکن انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر مرد و عورت میں ذمہ داریوں کی تقسیم فرمائی۔ یہ تقسیم اللہ کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے اس تقسیم کو توڑنے کی کوشش کرنا گویا نظام فطرت کو توڑنا ہوگا۔ اسلام خاندانی نظام کی مضبوطی چاہتا ہے، کیونکہ مستحکم خاندان ایک مضبوط معاشرہ بناتا ہے۔ اس خاندان کی بنیاد عورت کے وجود اور اس کے رول پر منحصر ہوتی ہے۔
مغرب کا یہ تصور کہ فلاں کام مرد کرسکتا ہے توعورت کیوں نہیں؟ عورت کی عزت افزائی کےلیےنہیں ،بلکہ عورتوں کے کام کو کم ترجاننے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔یہ مان لیا گیا ہے کہ عورتوں کا دائرۂ کار گر ہستی کا نظم ،بچوں کو پروان چڑھانا کم تر اور ادنیٰ کام ہیں، ان کاموں کی کوئی قدر و عزت نہیں، اس لیے مردوں کے کاموں (جو کہ افضل فرض کرلیے گئے ہیں )کی تگ ودو میں لگ جائیں، خواہ اس کے لیےخاندانی ذمہ داریاںاور بچوں کی پرورش جیسےاہم کام قربان ہوجائیں۔
حالانکہ عورت اور مرد دونوں الگ الگ جنس ہے۔ دونوں کی تخلیق الگ الگ مقاصد کے تحت ہوئی ہے ۔دونوں کو اپنے اپنے میدان میں رکھاجائے تو دونوں اپنے اپنے میدان کار میں یکساں کامیاب ہوں گے۔ دونوں کو ایک ہی میدان میں ڈالا جائے تو ایک دوسرے سے پیچھے ہی رہے گا ۔
عورت مرد کےانسانی مساوات کا مطلب یہ سمجھ لیا جائے کہ ہر آدمی کو ہر شعبہ میں کام کرنا ہے، تواس کا نتیجہ کتنا مضحکہ خیز نکلے گا کہ سائنسداں کو برابری کے نام پر کھیل کے میدان میں دوڑایا جارہا ہو، ایک باکسر کو آرٹ اورڈرائنگ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو ، ایسی مساوات انسانی عقل قبول نہیں کرتی ۔اس کا مطلب یہی ہےکہ مساوات کا مطلب عمل میں مساوا ت نہیں ،بلکہ حیثیت اور مرتبہ میں مساوات ہے ۔
عورتوں کی ترقی اس میں نہیں کہ انھیںان کے اپنے فطری کاموں سے نکال کر خالص مردوں والے کام کروائے جائیں ،بلکہ ترقی کا اصل راز یہ ہےکہ صاحب علم و صاحب شعور بنایا جائے ۔اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ عورت باشعور ہوگی تو اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے بھی نمایاں کارنامے انجام دے سکتی ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

عورت مرد کےانسانی مساوات کا مطلب یہ سمجھ لیا جائے کہ ہر آدمی کو ہر شعبہ میں کام کرنا ہے، تواس کا نتیجہ کتنا مضحکہ خیز نکلے گا کہ سائنسداں کو برابری کے نام پر کھیل کے میدان میں دوڑایا جارہا ہو، ایک باکسر کو آرٹ اورڈرائنگ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو ، ایسی مساوات انسانی عقل قبول نہیں کرتی ۔اس کا مطلب یہی ہےکہ مساوات کا مطلب عمل میں مساوا ت نہیں ،بلکہ حیثیت اور مرتبہ میں مساوات ہے ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے