لوجہاد کتنی حقیقت کتنا فسانہ

 برصغیر میں گنگا جمنی تہذیب کا حامل ملک ہندوستان ابتدا ءسے ہی پورے عالم میں اپنی تہذیب و ثقافت کی شناخت برقرار رکھنے میں نمایاں رہا ہے، جہاں متعدد مذاہب کے پیروکار اور متنوع تہذیب و ثقافت کے حامل افراد ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں مصروف ہیں ۔
ہندوستان میں بین المذاہب شادیاں متعدد رپورٹس اور تاریخ کے آئینے میں اترپریش ہندوستان میں وہ پہلی ریاست ہے جہاں نومبر 2020 ءمیںغیرقانونی تبدیلی مذہب کے انسداد کا آرڈینینس (پروہیبشن آف ان لافُل رلیجس کنورژن آرڈینینس) منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ٰکسی شخص کو دھوکہ دے کر یا اس سے شادی کر کے ’’غیرقانونی‘‘ طور پر زبردستی مذہب تبدیل کروانے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔حالیہ دنوں میں اس تبدیلی مذہب قانون جو کہ بین مذاہب شادیوں کے خلاف ہے۔ اس کی مخالفت میں یہ بحث زور و شور سے جاری ہے کہ سماج پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ اور اس قانون کو بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اور اس کو دیکھتے ہوئے ذہن میں بارہا یہ سوال اٹھتا ہے کہ بین المذاہب شادیوں کا رجحان ہندوستان میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے یا تاریخ میں اس کے ثبوت ملتے ہیں اور ان شادیوں کا تناسب کیا ہے؟بین المذاہب شادی میں اگر لڑکی ہندو ہو اور لڑکا مسلمان تو اس پر اعتراض بھی ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ فرقہ پرست ہندو نواز تنظیموں نے اسے ’’لَو جہاد‘‘ کا نام دیا ہے، جو ایک مضحکہ خیز بچکانہ ذہنی فتور کی دین ہے۔
تجزیہ کار آلوک موہن کہتے ہیں کہ بھارت میں صرف دوسرے مذاہب میں شادیوں پر ہنگامہ نہیں ہوتا، بلکہ اپنے مذہب کی دوسری برادریوں میں ہونے والی شادیوں پر بھی تنازع ہوتا ہے۔

نیز پیو ریسرچ سینٹر کے سروے میں بحیثیت ماہر مشیر شریک رہنے والے نئی دہلی کے’’ سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیولیپنگ سوسائٹی ‘‘ میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہلال احمد ،وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ دوسرے مذاہب یا دوسری برادری میں جو شادیاں ہوتی ہیں ،وہ اکثر پسند کی یعنی ’’ لو میرج ‘‘ ہوتی ہیں، اور بھارتی سماج میں اپنے ہی مذہب یا اپنی ہی برادری میں ہونے والی ’’ لو میرج ‘‘ کو عام طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ ان کے مطابق پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’ لو جہاد ‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی پروپیگنڈہ ہے اور لوگوں کو اکسانے کے لیے اس کا اختراع کی گئی ہے۔

https//www.urduvoa.com/a/majority-of-indians-across-religions-oppose-inter-religious-marriage-10jul2021/5960728.html

ہندوستانی معاشرہ میں ’’ لو جہاد ‘‘ کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے جب ہم تاریخ پر سرسری نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ بآسانی سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے کبھی بھی جبراً کسی کا مذہب تبدیل کرانے کے لیےاس سے شادیاں نہیں کیں،کیونکہ اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق شادی ایک پاکیزہ معاہدہ ہے ،جو شریعت کے تمام اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے، جس میں ایک شرط فریقین کا مسلمان ہونا بھی ہے، البتہ اسلامی اصولوں کو بالائے طاق رکھنے والے مسلم حکمراں ، امراء و جاگیر دار یا فلمی اسٹار نسل در نسل مسلمان ضرور پیدا ہوئے ،مگر اسلام سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی حکومتوں کی بقا کے لیےدوسرے فرقوں میں شادیاں کیں، بلکہ محکوم حکمرانوں نے اپنی حکومت کے استحکام کے لیےخود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے رشتے مسلم حکمرانوں، امراء اور جاگیرداروں سے طے کیے، جس کا خمیازہ آج تک ہندوستانی مسلمان بھگت رہے ہیں۔
اسی طرح ماضی میں یا حالیہ دنوں میں فلمی دنیا میں بھی متعدد ہندو خواتین مسلم لڑکوں سے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئیں ،جن کے پس پشت مقاصد کسی دیدہ ور سے مخفی نہیں ۔ ان جوڑوں کی طویل فہرست ہمیں ملتی ہے، مگر مختصر تحریر میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کی فرضی کہانی ہو یا شاہ رخ اور گوری یا سیف علی خان اور کرینہ کپور کی محبت کی داستانیں ہوں سب کے پیچھے محض دولت اور عیش و عشرت کی ہوس کارفرما ہے۔

متعدد رپورٹوں کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں بین المذاہب شادیاں سب سے زیادہ عیسائیوں میں ہوتی ہیں،دوسرے نمبر پر سکھ ہیں اور ہندو تیسرے نمبر پر ہیں۔ مسلمانوں کا تناسب صرف 0.6 فی صدہے۔ اس میں بھی عمر کا بڑا عمل دخل ہے۔ 14سے 19 سال تک کے عمر کے نوجوانوں میں انٹرفیتھ شادیوں کا تناسب 2.8 فیصد ہے اور 25-29 سال کے افراد میں 1.9 فی صد ہے۔
مشہورانگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا کے مطابق میریج رجسٹریشن کے اداروں میں2013-2014ء میں 2624نکاح رجسٹرڈ کیے گئے،جب کہ 2015ء سے جنوری 2016ء تک 8391نکاح رجسٹرڈ ہوچکے تھے۔ (Times of India: 20 June 2016)
جغرافیائی لحاظ سے بین مذہبی شادیوں کی شرح اس طرح ہے:
مرکزی ہندوستان: 1.2
شمالی ہندوستان: 2.2
مشرقی ہندوستان: 1.3
شمال مشرقی ہندوستان: 3.2
مغربی ہندوستان: 3.4
جنوبی ہندوستان: 3.2
مندرجہ بالا بین المذاہب شادیوں کے بڑھتے ہوئے تناسب کے باوجود پیوریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق اکثریت بین المذاہب شادیوں کے خلاف نظر آتی ہے۔ چنانچہ ادارہ اپنا نظریہ یوں پیش کرتا ہے:

Highly religious Indians are especially likely to prioritize stopping interreligious marriage. For example, among adults who say religion is very important in their lives, a majority (70%) give high priority to stopping the interreligious marriage of men, compared with 39% of those who say religion is less important.

ادارہ مسلمانوں کے نظریہ پر روشنی یوں ڈالتا ہے:

Among Muslims, for example, 82% of those who consider religion to be very important in their lives say stopping women in their community from marrying into other religions is very important, compared with 59% of Muslims for whom religion is less important

https://www.pewresearch.org/religion/2021/06/29/religious-segregation/

اس رپورٹ کے مطابق 67 فی صدہندو عورتیں اور 65 فیصد ہندو مرد دوسرے مذاہب میں شادیوں کے خلاف ہیں ،جب کہ 80 فی صد مسلم خواتین کی دوسرے مذاہب میں شادیوں کے خلاف ہیں۔ چنانچہ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت دہلی میں 2019 ءمیں جنوری سے ستمبر کے درمیان رجسٹرڈ ہونے والی 19250 شادیوں میں صرف 589 شادیاں دوسرے مذاہب میں ہوئی ہیں۔

https://www.urduvoa.com/a/majority-of-indians-across-religions-oppose-inter-religious-marriage-10jul2021/5960728.html

بین مذہبی شادی کی قانونی حیثیت اور معاشرے میں بڑھتے بین المذاہب شادیوں کے منفی نتائج

مسائل و مفاسد کی صورت میں ملک ہندوستان متعدد مذاہب کا حامل ایک سیکولر ملک ہے ،جہاں ہر فرد کو ایک آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے،اور اس طرح ہر فرقہ کے عائلی مسائل کے حل کے لیے پرسنل لا لاگو ہے۔ چنانچہ اس کے لیے شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937ءمسلمانوں پر لاگو ہے۔ہندومیرج ایکٹ 1955ء ہندوؤں پر لاگو ہے۔اسی طرح کا ایکٹ بدھسٹ،جین اورسکھوں کے لیے بھی ہے۔دَآنند میریج ایکٹ 1909ء بھی سکھوں پر ،جب کہ دَانڈین کرسچن میریج ایکٹ1872ء عیسائیوں کے لیے ہے۔اسی طرح پارسی میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ1936ء بھی ہے، جن کے تحت تمام فرقوں کا نکاح ان کے مذہبی اورروایتی طوروطریقے کے مطابق انجام پاتا ہے۔ان کے علاوہ ایک اسپیشل میریج ایکٹ 1954ء بھی پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کیا گیاہے۔ جس کے تحت ہر ہندوستانی کو کسی بھی ہندوستانی سے اس کے مذہب اوراس کے عقیدے کا لحاظ کیے بغیرشادی کرنے کاحق حاصل ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد پرسنل لا(Personal law)کو کم زور کرناہے۔اس ایکٹ کے مطابق مذہب اورعقیدہ کے برخلاف کوئی بھی شخص کسی بھی مذہب کے ماننے والے سے نکاح کرسکتاہے۔یہ ایکٹ ہندوستان میں موجود نیز باہر ممالک میں مقیم ہندوستانیوں پر لاگو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بین المذاہب شادیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔ چنانچہ اس بات کو تسلیم کیےبنا کوئی چارہ نہیں کہ بین المذاہب شادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں دفعہ 1954 کا بڑا عمل دخل ہے، جس کے تحت دونوں جوڑوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں سہیل انجم رقم طرازہیں:
’’ گذشتہ چند ماہ کے دوران بین المذاہب شادیوں کے متعدد معاملات سپریم کورٹ، دہلی ہائی کورٹ، الٰہ آباد ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں پہنچے ہیں،جہاں شادی شدہ جوڑوں نے عدالت سے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے اور عدالتوں نے ان کو سیکیورٹی فراہم کی ہے۔‘‘

https://www.urduvoa.com/a/majority-of-indians-across-religions-oppose-inter-religious-marriage-10jul2021/5960728.html

تجزیاتی مطالعے اور عام مشاہدے سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ بین المذاہب شادیوں میں میاں بیوی اور دیگر رشتہ داروں کو متعدد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس کے منفی نتائج بالآخر طلاق یا خلع کے ذریعے علیٰحدگی کی صورت میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ چنانچہ دار القضاء تصفیہ سینٹر کے قاضی محمد فیاض عالم قاسمی اپنا مشاہدہ یوں رقم کرتے ہیں:
’’میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 95 فی صدجوڑے طلاق یا خلع کے ذریعہ الگ ہوجاتے ہیں ، یاپھر یونہی ایک دوسرے کو چھوڑدیتے ہیں۔

https://darululoom-deoband.com/urduarticles/archives/3471

نیز بین المذاہب شادیوں کا منفی اثر معاشرتی زندگی پر بھی پڑتا ہے، کیونکہ انہیں اپنے اہل خانہ کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دونوں فریق کو ان کے سسرال والے افراد خانہ نہیں تسلیم کرتے۔ اسی طرح ایسی شادیوں میں مذہبی اور ثقافتی عقائد کا معاملہ بھی آتا ہے ۔ بعض اوقات قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کبھی جائداد اور وراثت کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے۔ بعض دفعہ مارپیٹ اور خون خرابہ بھی ہوجاتا ہے ۔ کچھ لڑکیوں کا غیرت کے نام پر قتل بھی ہوجاتا ہے۔
’’مسلم مِرر‘‘ کی رپورٹ کے مطابق متعدد مسلم لڑکیوں کی ہندو لڑکوں سے شادی کا اندراج کیا گیا، جنہیں بعد میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی ایک مسلم عورت نے اپنے ہندو شوہر پر اپنی زندگی تباہ کرنے کا الزام لگایا۔ علاوہ ازیں اکتوبر 2020 ءمیں 20 سالہ گلناز کو زندہ جلا دینے کی واردات سامنے آئی۔

20 year old Gulnaz was burnt alive because she was resisted harassment. https://muslimmirror.com/eng/muslim-girls-getting-married-with-hindu-boys-in-large-number/

بنا بریں بنا ءمذہبی شادی کا سخت منفی رخ جو مفاسد کی صورت میں آتا ہے، وہ یہ کہ ایسے جوڑوں کی پیدا ہونے والی اولاد اپنے والدین سے زیادہ سخت چیلنجز کا سامنا کرتی ہے ،کیونکہ ایسی اولاد نفسیاتی طور پر منتشر خیالات کی حامل ہوتی ہے۔ باپ اپنے مذہب پر چلانا چاہتا ہے، جب کہ ماں اپنے طریقہ پر اس کی پرورش کرنا چاہتی ہے۔ وہ اس لیے کہ جو لڑکیاں مسلم نوجوان کے عشق میں اپنا مذہب تبدیل کرلیتی ہیں، انہیں بعض معاملات میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔جیساکہ مشہور شاعرہ کملا داس نے صادق علی کے عشق میں اسلام قبول کرکے اپنا نام کملا ثريا رکھ لیا تھا ،مگر کچھ دنوں بعد انہوں نے اسلامی تعلیمات ’’پردہ ‘‘ وغیرہ کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسی طرح ذکیہ ثمن نے ہندو سے شادی کی اور اس وقت یکساں سول کوڈ کی پر زور حامی نظر آتی ہیں۔ نیز بہت سے بچوں کے نام غیر اسلامی رکھے گئے، چاہے وہ صحافت کے میدان سے تعلق رکھنے والے اکبر جرنلسٹ کی اولاد ہو یا بالی ووڈ سے تعلق رکھنے والے دیگر فلم اسٹارز کے بچے۔ ایسی صورت میں کہیں ارتداد کا فتنہ سر اٹھاتا ہے، تو کہیں طلاق و خلع جیسے معاشرتی مفاسد کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔اسلام کو چھوڑ کر دوسرے مذاہب کو اختیار کرنے والی خواتین کی وکالت کے نتیجے میں بے پردگی ، فحاشی اور بے راہ روی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
عبد الوهاب جان الازہری اور ڈاکٹر اکرام الحق نکاح کی حیثیت کے ضمن میں مولانا مودودی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیںکہ :
’’مشرک شوہر یا بیوی سے نکاح کی صورت میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور اطوار سے نہ صرف شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایسی معجون مرکب اس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی ، جس کو غیر مسلم کتنا ہی پسند کریں مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘‘
( مسلمان مردوں کا اہل کتاب عورتوں سے نکاح پر مرتب اثرات، تحریر: عبد الوهاب جان الازہری، ڈاکٹر اکرام الحق، ط:اکادیمیا العربیہ)
بین المذاہب شادیوں کی شرعی حیثیت، اسباب و تدارک
انسانی معاشرہ کی بقائے باہم کے لیے شریعت اسلامی میں نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، جو دراصل ایک معاہدہ ہے جو شریعت کے وضع کردہ ضابطہ کے مطابق انجام پایا ہو، جس کے تحت مرد و عورت دونوں ایک دوسرے سے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے جنسی تعلق قائم کر سکتے ہوں ۔ شریعت اسلامیہ میں نکاح کے لیے فریقین کا مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے، البتہ مسلمان مرد کو یہ گنجائش دی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب عورت سے نکاح کرسکتاہے، اگرچہ مسلمان ہونے کو افضل مانا گیا ہے۔ واضح رہے کہ دور حاضر کے اہل کتاب بھی اپنے فاسد عقائد کی بناء پر مشرک کے ہی ضمن میں آتے ہیں،کیونکہ شریعت نے اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کے لیےمندرجہ ذیل شرائط لازمی قرار دی گئی ہیں:

پاک دامنی

اہل کتاب کی جس عورت سے شادی مطلوب ہو وہ عورت پاکدامن ہو۔ سورۃالمائدہ، آیت : 5 میں ’’والمحصنات ‘‘کا ذکر کرکے شرط واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ پاکدامنی سے مراد زنا سے پاک ہو اور بعض نے آزادی بھی شرط میں لکھا ہے۔حضرت شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہودی اور نصرانی عورت کی پاکدامنی یہ ہے کہ وہ جنابت کے بعد غسل کرے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے۔اور آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں یہ شرط مفقود ہے۔

کتابیہ ہونا

وہ عورت واقعی اہل کتاب میں سے ہو۔ اللہ تعالیٰ پر ، آسمانی ادیان اور کتب پر ایمان رکھتی ہو۔ رسالت اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو، وہ ملحدہ یا اپنے دین سے مرتدہ نہ ہو۔یعنی محض نام کی اہل کتاب نہ ہو، جیسا کہ موجودہ دور کے یہود و نصاری اہل کتاب ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں ،مگر کتاب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہ اپنے دین سے سخت بیزار اور باغی نظر آتے ہیں۔
مسلم کا غیر مسلم سے نکاح یا ہندو یا عیسائی کے درمیان نکاح کو مخلوط شادی یا سول معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ قرآنی آیات کی رو سے مخلوط شادی یا سول معاہدہ باطل قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْـرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُـوْا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْـرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَاللّٰہُ یَدْعُوٓا اِلَی الْجَنَّـۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَیُبَیِّنُ اٰیَاتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُـمْ یَتَذَکَّرُوْنَ
(سورۃ البقرۃ : 221)

(اورمشرک عورتیں جب تک مسلمان نہ ہو جائیں ، ان سے نکاح نہ کرو اور ایک مسلمان باندی بھی [آزاد] مشرک خاتون سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تم کو پسند ہو اور[مسلمان عورتوں کا ] مشرک مردوں سے جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں ، نکاح نہ کرو اگرچہ وہ تم کو پسند ہوں ؛ کیونکہ یہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اوراﷲ تعالیٰ توفیق دے کر جنت اور مغفرت کی طرف بلاتے ہیں اور اﷲ لوگوں کے لیے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں ؛ تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ اس بات پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مشرک قوموں کے نہ مردوں سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ عورتوں سے؛ البتہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح درست ہے، جس کا ذکرسورۃ المائدہ،آیت: 5 میں ہے۔ اس طرح کا حکم اسلام کی تنگ نظری نہیں ؛ بلکہ ایک مسلمان خاندان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت مقصود ہے؛ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اکثر عورتوں ہی کی راہ سے بے دینی کے فتنے سماج میں لائے گئے ہیں ، اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح کے احکام موجود تھے، یہودی شریعت میں اسرائیلی کا غیر اسرائیلی سے نکاح جائز نہیں۔
(خروج : 31-34)
عیسائی مذہب میں غیر عیسائی سے نکاح درست نہیں۔
(کرنتھیوں: 6/14-15)
اور ہندو مذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لیے دوسری ذات میں بھی نکاح کی اجازت نہیں ؛ چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے۔‘‘
(آسان تفسیر، از: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
یہ آیت بین المذاہب شادیوں، بالخصوص مسلم کا غیر مسلم سے نکاح کا بالکلیہ سد باب کرتی ہے۔ مگر ملک میں بین المذاہب شادیوں کی بڑھتی ہوئی صورتحال خطرے کا الارم بجاتے نظر آتی ہے،جس کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو معاشرہ تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوگا۔

مسلمانوں میں بڑھتی بین المذاہب شادیوں کے اسباب

ایمان کی کمزوری آج کے اس پر فریب و پر تعیش دور میں مسلمان دین سے دور ہو چکے ہیں، اور مادہ پرستی نے ان کے ایمان کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں جو بین المذاہب شادیوں کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ بن چکی ہے، کیونکہ ایک سچا مومن محبت کے حصول یا مال و دولت کے بدلے کبھی بھی اپنے ایمان کے سودے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، جب کہ تقوی ٰکی یہ صفت آج کے نوجوانوں میں ناپید ہے۔

مخلوط تعلیم اور مخالف جنس سے دوستی

بین المذاہب شادیوں میں مخلوط تعلیم اور مخالف جنس سے دوستی بھی ایک بنیادی وجہ ہے۔ جب کوئی نو عمر لڑکی یا لڑکا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیےکالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لیتا ہے، تو عنفوان شباب میں نوخیز دل مخالف جنس کی جانب مائل ہونے میں وقت نہیں لگاتا۔ اسی طرح پیشہ ورانہ ملازمتوں میں بھی مخالف جنس سے دوستی عام ہوگئی ہے، جو رفتہ رفتہ اندھی محبت اور خواہشات کی تکمیل تک پہنچا دیتی ہے، جہاں فریقین بین المذاہب شادی کو ہی اصل حل تصور کرتے ہیں۔

معاشی کمزوری اور لالچ

غربت دور جدید کا ایک دردناک المیہ جب کہ لالچ ایک لاعلاج مرض بن چکا ہے ،جس کا شکار ہو کر بعض مسلمان بین المذاہب شادیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنی غربت سے تنگ آکر اپنی بیٹیوں کا نکاح دوسرے مذہب کے لوگوں سے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔جب سماج کے لالچی نوجوان فقر و فاقہ سے دوچار مجبور والدین کی پریشانیوں کو سمجھنے سے بے اعتنائی برتتے ہیں ،تو درماندہ طبقہ بھاری بھرکم جہیز کی عدم فراہمی کے نتیجے میں دوسرے مذاہب کا رخ کرتا ہے۔ اسی طرح دولت کا حریص انسان- خواہ وہ لڑکی ہو یا لڑکا- دوسرے مذاہب میں شادی کوترجیح دیتا ہے۔

عصری تعلیم کی کمی اور دینی علوم سے ناواقفیت

آج ہندوستان میں مسلمان لڑکیاں لڑکوں کی بہ نسبت عصری تعلیم زیادہ حاصل کر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں تعلیمی لیاقت میں ان کا آئیڈیل ملنا ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔ لہٰذا اس کی تلاش میں وہ مذہب سے بغاوت پر آمادہ ہوتی ہیں ،جب کہ بعض شادیاں جہالت کی بنا ءپر وجود میں آتی ہیں، جہاں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اسلام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے شادی کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسا کہ قاضی محمد فیاض قاسمی بیان کرتے ہیں کہ میرے علم میں بہت سے لوگوں نے ا ن جانے میں شادی کرلی۔ پھر بعد میں پتہ چلتے ہی علیحدگی اختیار کرکے توبہ و استغفار کیا۔

https://darululoom-deoband.com/urduarticles/archives/3471

نام نہاد روشن خیالی

 بعض دفعہ نام نہاد روشن خیالی بھی بین المذاہب شادیوں کا باعث بنتی ہے،جہاں خود کے وسیع الظرف ہونے کا دعوٰی کرنے والے لوگ مذہبی حدود کو رکاوٹ اور پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں، اور شادی کو ذاتی معاملہ گردانتے ہوئے مذہب سے الگ رکھتے ہیں ،اور اپنے بچوں کو آزاد روش پر چھوڑ دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا طوفان اور اولاد کے تئیں والدین کی بے توجہی

 جدید ٹیکنیکل ترقی نے پورے سماج میں سوشل میڈیا کا طوفان برپا کر رکھا ہے،جہاں نوجوان اپنے وقت کا بیشتر حصہ اس میں ضائع کرتے نظر آتے ہیں تو والدین بھی اسی طوفان کی زد میں آکر بچوں کی تربیت کے سلسلے میں تساہل کا شکار ہوتے ہیں ،جس کے نتیجے میں نوجوان نسل سوشل میڈیا کے متعدد پلیٹ فارمز کے ذریعے آڈیو اور ویڈیو چیٹنگ کرکے اسلامی حدود کا دائرہ پھلانگتی ہے، اور بین مذہبی شادی کا انتخاب کرتی ہے۔

پروپیگنڈہ

 ملک میں آر ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اپنے ہندو توا ایجنڈے کے تحت مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانا چاہتی ہیں ۔ ہندوجاگرن سمیتی نے 2020 ءمیں جاری ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے چھ مہینے میں 2100 مسلم لڑکیوں کو ہندو گھروں کی بہو بنائیں گے۔ یہ ان کا ٹارگیٹ ہے جس کے لیےوہ نت نئے انداز میں کوشاں ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں بین مذہبی شادیاں زور پکڑ رہی ہیں ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پہلے اپنے ہی لڑکوں اور لڑکیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہیں اچھی تنخواہیںاور ایوارڈز دے کر تیار کیا جاتا ہے، تاکہ وہ فیس بک ، ٹرو کالر ،انسٹاگرام اور دیگر سماجی ایپس سے مسلم بچوں اور بچیوں کے نمبرات حاصل کرکے انہیں محبت کے جال میں پھنسائیں اور پھر اس طرح بین المذاہب شادیاں وجود میں آتی ہیں۔

وقت پر شادی نہ ہونا

بین مذہبی شادی کا ایک سبب شادی میں تاخیر کرنا بھی ہے، جس کی وجہ بعض دفعہ لڑکیوں کا بہترین آئیڈیل تلاش کرنے میں وقت ضائع کرنا ہے، تو بعض اوقات مسلم لڑکوں کا لڑکیوں کے ساتھ وقت گزاری کرکے انہیں چھوڑ دینا ہے ،یا مختلف وجوہات کی بنا پر والدین کی کوتاہی یا ملک میں درپیش حالات کی وجہ سے ان کی ناکامی ہے ،جس کے نتیجے میں کچھ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں اور بالآخر بین مذہبی شادی کی راہ اختیار کرتی ہیں۔

بین المذاہب شادیوں کا حل

 ایمان کو مستحکم کرنا

مسلمانوں کے مابین ان شادیوں کی روک تھام کے لیے ایمان کو مضبوط کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔ نیز معرفت الہی کا حصول اس کے سد باب کا اصل ہتھیار ہے ،جو ایک مسلمان کو شریعت کے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے روک سکتا ہے، جس کے لیے نماز کی پابندی، تلاوت قرآن کے ساتھ تدبر فی القرآن، آخرت کی فکر ، قبر کی زیارت اور ذکر خدا کا التزام ناگزیر ہے۔

دینی تعلیم کا حصول

بین المذاہب شادیوں کی روک تھام کے لیے دینی تعلیم کا حصول از حد ضروری ہے، جہاں تلاوت قرآن کے اہتمام کے ساتھ تدبر فی القرآن کی تاکید ہو اور پھر قرآن و سنت کی روشنی میں تمام مذہبی تعلیمات بشمول ایمانیات، اخلاقیات، حقوق و فرائض اور معاملات پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ بچے زندگی میں درپیش مختلف مراحل، مسائل نیز ان کے حل سے متعارف ہو سکیں، اور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کی روشنی میں اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

اسلامی نہج پر اولاد کی تربیت کرنا

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو معرفت الہی اور سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس کرائیں اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خود کو بھی مزین کریں،اور اپنے بچوں کے ذہن میں بھی مذہب کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ والدین اولاد کی تربیت کے تئیں جوابدہی کا احساس کرتے ہوئے بچوں کو اچھے اخلاق سے آراستہ کریں۔ ضروری بنیادی دینی تعلیمات سے باخبرکریں اور اسلامی شرعی قوانین کی حلت و حرمت سے متعارف کریں۔ بچوں کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت اجاگر کریں ،تاکہ بچے کسی اور ناجائز محبت کی طرف مائل بھی نہ ہو سکیں۔ مذہب اسلام کی خوبصورتی ان کے ذہنوں میں سجائیں۔ ان کے اندر دنیا کی عدم ثباتی اور آخرت کی فکر پیدا کریں ۔ روشن خیالی اور آزادانہ اختلاط مرد و زن کی حرمت کو ان کے دلوں میں راسخ کریں۔ ان کی سر گرمیوں پر باریکی سے نظر رکھتے ہوئے ان سے ہمدردانہ رویہ اختیار کریں۔ جھوٹ سے احتراز اور ایفائے عہد کی تاکید کریں۔ اپنے بچوں کو جنس مخالف کے ساتھ میل جول کے مواقع کبھی بھی فراہم نہ کریں۔ خواہ وہ سفر ، ٹیوشن ، پکنک کی جگہ یا دوستوں کا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے بچوں کو واضح طور پر متنبہ کریں کہ وہ تمام قسم کی ضد اور ہٹ دھرمی معاف کر سکتے ہیں، لیکن وہ کبھی بھی اجنبی شخص کے ساتھ دوستی ، محبت یا شادی کرنے کے جرم کو معاف نہیں کر سکتے۔اور کبھی غیر متوقع طرز عمل کا پتہ چلے تو اپنے بچوں کو نصیحت کے ساتھ ساتھ مناسب اور جائز سزا بھی تجویز کریں ،مثلا ً:ڈانٹ ڈپٹ ، ہلکی پھلکی مار پیٹ یا جیب خرچ کا روکنا وغیرہ۔ان تمام اقدامات کے ساتھ بچوں کی ہدایت کے لیےدعا کا خاص اہتمام کریں۔

اسکول میں اسلامی ماحول

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسے اسکول میں داخل کرائیں ،جہاں طلبہ کو اسلامی اخلاقیات سے مزین کرنے کاانتظام ہو۔ ان اداروں کی انتظامیہ اپنے نصاب میں دینی مضامین کو شامل کرے،جو بچوں کے ایمان کو مضبوط کریں اور شرعی حقوق و ذمہ داریوں سے روشناس کریں۔
اساتذہ، طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ باریکی سے ان کے طرز عمل کا مشاہدہ کریں اور بوقت ضرورت اصلاح کی کوشش کریں۔ اسکول میں علیٰحدہ کلاس روم اور ہاسٹل کا انتظام ہو۔

سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے دوری

آج کل سوشل میڈیا ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کے غیر ضروری استعمال سے والدین خود بھی بچیں اور اپنے بچوں کو بھی اس سے حتی المقدور دور رکھیں۔ بوقت ضرورت اس کے جائز استعمال کی اجازت دیں اور ساتھ ہی ان کی بات چیت یا دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ اور ان تمام معاملات میں حکمت کا پہلو اختیار کریں اور بچوں کے ساتھ دوستانہ اور مخلصانہ رویہ اختیار کریں، تاکہ بچہ اپنی خواہشات بیان کرنے میں جھجھک محسوس نہ کرے۔ سوشل میڈیا کی ناجائز لت سے دور رکھنے کے لیے کتابوں کے مطالعہ کا اہتمام کریں اور بچوں کے دل میں بھی کتب بینی کا شوق پیدا کریں۔ بچوں پر خاص توجہ مرکوز کریں، ان کی باتوں کو بغور سنیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کے کھیل کود اور سیر و تفریح کے سامان کی فراہمی اور جائز ضروریات کا خاص خیال رکھیں ،تاکہ بچہ گھر کی بے رونق زندگی سے اکتا کر دوسرے مذاہب میں تفریح کا سامان تلاش کرنے کی کوشش نہ کرے۔
مندرجہ بالا حقائق، مشاہدات و نظریات کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی بین المذاہب شادیاں سنگین رخ اختیار کر رہی ہیں، نسل نو پرجس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور اس کے متعدد اسباب میں سب سے بنیادی سبب دینی تعلیمات سے دوری اور ایمان کی کمزوری ہے، جو اسلامی قوانین کی حلت و حرمت کی معرفت سے بیزاری کا سبب بنتی ہیں۔
لہذا، تمام احتیاطی پہلوؤں کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری اس طور پر دوگنی ہوجاتی ہے کہ وہ بچوں کو شرعی قوانین نیز ارتداد اور اس کی سزا سے روشناس کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول کو ان کے سامنے بطور رول ماڈل پیش کریں۔

٭ ٭ ٭

اسلام سے پہلے بھی دوسرے مذاہب میں اس طرح کے احکام موجود تھے، یہودی شریعت میں اسرائیلی کا غیر اسرائیلی سے نکاح جائز نہیں۔(خروج : 31-34)
عیسائی مذہب میں غیر عیسائی سے نکاح درست نہیں۔ (کرنتھیوں: 6/14-15)
اور ہندو مذہب میں تو ایک ذات کے لوگوں کے لیے دوسری ذات میں بھی نکاح کی اجازت نہیں ؛ چہ جائے کہ دوسرے مذہب والوں سے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے