خطرات کے نرغے میں بنت حوا

کیا جرم کیا ہے ؟ لڑکی ہونے کا يا اونچے خواب دیکھنے کا ؟ تو پھر کیوں نہیں مل رہا انصاف ؟
ایسی نہ جانے کتنی معصوم ہیں جن کو آج تک حکومت ہند اُن کا انصاف نہ دلا سکی، اسی فہرست میں ایک نام تبسم کا بھی ہے ،19 سالہ تبسم کرناٹک کی رہنے والی تھی،اور اپنے ایئر ہوسٹس بننے کے خواب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر گھر سے دور جاب کرتی تھی، آستین کے سانپ دوستوں نے مِل کر اس کا جنسی استحصال کیا اور پھر اکاؤنٹ سے پیسے بھی ٹرانسفر کرلیے اور ایک ہسپتال میں ایڈمٹ کر کے چھوڑ کر چلے گئے۔
یہ بات اکتوبر2022 ءکی ہے۔ ان کی والدہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ کس طرح انہوں نے کرناٹک کے ہر لیڈر یہاں تک کہ سی ایم سے بھی بات کی، لیکن کسی سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا اور وہ آج تک اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کی دوڑ میں شامل ہیں۔آخر کب تک چلتا رہےگا یہ سب اور اس کا ذمّہ دار کون ہے ؟ کب تک ملزمین کھلے عام گھومتے رہیں گے اور حکومت کتنے ایسے مدعوں کو دباتی رہےگی ؟ کیا اس طرح جرم کی شرح کم ہو سکتی ہے ؟ بالکل نہیں، صرف نیوز کم ہو سکتی ہے، لیکن جرم بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
اس سے ذرا مختلف اور انسانیت کو شرم سار کردینے والا واقعہ منی پور میں ہوا۔اس معاملے میں عوام کی جابن سےشدید غصہ اور برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے ،لیکن حکومت اب تک خاموش بیٹھی ہے،ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ واقعی سخت قدم اٹھائے اور کارروائی کرے، ورنہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو پھر سے پرانے اور جہالت زدہ روایتوں کو اپناتے ہوئے بیٹیوں کو گھر میں قید کرنا پڑے گا۔اس معاملے میں نیشنل کانفرنس کے صدر اور رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ریاست منی پور میں خواتین پر ہورہے جسمانی تشدد اور وہاں کے پر تشدد حالات پر پارلیمنٹ میں بیان دینا چاہیے۔فاروق عبداللہ نے کہا کہ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس دل دوز واقعے پر سخت الفاظ میں مذمت کی اور اس پر قانونی کارروائی کرنے کی یقین دہانی کروائی، تاہم وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں اس پر بیان دینا چاہیے،فاروق عبداللہ نے سری نگر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منی پور کا سانحہ ہر ہندوستانی کے لیے قیامت ہے۔ فاروق عبداللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منی پوری جیسے نفرتیں لوگوں میں سیاست اور اقتدار کے لیے پھیلائی گئیں اور بڑھائی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی کرسی اور اقتدار پرلعنت ہو جس کے لیے منی پور جیسے حالات پیدا کرکے ان کا استعمال سیاست کے لیےکیا جاتا ہو۔
منی پور کے حالات پورے ملک کےلیے باعث شرم بن چکے ہیں ،اور مزید بنتے جارہے ہیں۔ اب تک ہندوستان میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی ہی نے تشویش کا اظہار کیا اور مدد کی پیشکش کی تھی،مگر اب برطانیہ کی ایک رُکن پارلیمان فیونا بروس نے، جو وزیر اعظم رِشی سونک کی خصوصی نمائندہ برائے آزادی مذہب و عقیدہ ہیں، منی پور کے تشدد کا سوال اُٹھایا،برطانیہ کی طرح امریکہ میں بھی ا س کا نوٹس لیا گیا۔ امریکی وزارت خارجہ نے پچھلے ہفتے منظر عام پر آنے اور تیزی سے گشت کرنے والی روح فرسا ویڈیو کے پیش نظر کہا کہ منی پور کا یہ واقعہ وحشیانہ (بروٹل) اور خوفناک (ٹیریبل) ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ ہی نہیں، دیگر ملکوں کے ذرائع ابلاغ بھی منی پور کے حالات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، چنانچہ یا تو وہ ایسےواقعات کی رپورٹنگ کررہے ہیں یا کسی دوسرے طریقے سے ان واقعات کو موضوع بحث بنارہے ہیں۔
مثال کے طور پر مشہور اخبار ’’دی گارجین‘‘ میں اخبار کی جنوبی ایشیائی اُمور کی ذمہ دار نمائندہ حانہ ایلس پیٹرسن نے ایک طویل رپورٹ قلمبند کی، جس میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ منی پور کا مسئلہ کیا ہے اور حکومت اس بابت کیا کررہی ہے؟ رپورٹ میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ فساد کے پس پشت کیا حقائق ہیں اور کس طرح تشدد کی آگ بھڑکتی چلی گئی ہے؟ وہیں یہ بھی درج ہے کہ مرکزی حکومت کا ردعمل صفر (Notably Muted)ہے۔
یہ محض چند مثالیں ہم نے پیش کی ہیں ،تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ عالمی ذرائع ابلاغ منی پور کے واقعات سے غافل نہیں ہیں اور کچھ نہ کچھ تسلسل کے ساتھ شائع کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر ہم یہ کہیں کہ منی پور کی ریاستی حکومت بالخصوص اس کے سربراہ بیرین سنگھ نے صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کی ہوتی اور مرکز سے تعاون لے کر تشدد کو روک دیا ہوتا تو عالمی ذرائع ابلاغ کو موقع نہ ملتا، برطانیہ کے اراکین پارلیمان تنقید نہ کرتے اور امریکہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان کو بروٹل اور ٹیریبل جیسے الفاظ کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بے عملی صرف ریاستی حکومت کی نہیں ہے، چند روز تک تشدد کے قابو میں نہ آنے کے پیش نظر اگر مرکزی حکومت نے ضروری کارروائی کی ہوتی تو یقیناً منی پور کے حالات بیرون ملک ہماری رُسوائی کا باعث نہ بنتے۔ اس دوران نہ تو بیرین سنگھ خود استعفیٰ دے رہے ہیں نہ ہی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اُنھیں برخاست کررہی ہے۔ اولین شہری کی حیثیت سے ریاستی گورنر کا بھی اپنا کردار ہوتا ہے، مگر فروری2023ء میں بحیثیت گورنر عہدہ سنبھالنے والی انوسیا اوکئے نے مئی سے اب تک کچھ نہیں کہا تھا۔ اُنھوں نے گذشتہ ہفتے تب اظہار تشویش کیا جب مذکورہ ویڈیو سامنے آئی۔ وزیر اعظم مودی پارلیمنٹ کے باہر ایک بیان دے کر حسب معمول خاموش ہیں۔ دیکھنا ہے کہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کیا موقف اختیار کرتی ہیں، جن سے بڑی اُمید وابستہ کی جارہی ہے۔

٭ ٭ ٭

مثال کے طور پر مشہور اخبار ’’دی گارجین‘‘ میں اخبار کی جنوبی ایشیائی اُمور کی ذمہ دار نمائندہ حانہ ایلس پیٹرسن نے ایک طویل رپورٹ قلمبند کی، جس میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ منی پور کا مسئلہ کیا ہے اور حکومت اس بابت کیا کررہی ہے؟ رپورٹ میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ فساد کے پس پشت کیا حقائق ہیں اور کس طرح تشدد کی آگ بھڑکتی چلی گئی ہے؟ وہیں یہ بھی درج ہے کہ مرکزی حکومت کا ردعمل صفر (Notably Muted)ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے