دو دوست

محمود کو کچھ دنوں سے ایک بات بہت عجیب لگ رہی تھی۔ وہ یہ کہ اس کا سب سے اچھا دوست، یعنی عمران کا رویہ اس کے ساتھ ذرا روکھا سوکھا سا ہو گیا تھا۔ دراصل محمود اور عمران بچپن کے ساتھی ہیں۔ دونوں میں گہری دوستی کے ساتھ ساتھ دونوں کے مزاج اور عادات بھی بہت زیادہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ دونوں دوست سائیکلنگ کے ماہر ہیں۔ ان کا کئی سالوں سے یہ معمول ہے کہ ہر شام وہ ایک ساتھ کھیلا کرتے اور صبح فجر کے بعد سائیکلنگ کے لیے نکل پڑتے۔بھینی بھینی چلتی ہوئی ہوا ،کھلا آسمان اور پہاڑوں کے اتار چڑھاؤ انہیں رحمان کی صناعی اور اس کی معرفت سے ہمکنار کرتے۔یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری تھا، ہر دن وہ غور و فکر کرتے اور قدرت کے نظارے انہیں تجسس پر آمادہ کرتے۔
محمود ہمیشہ عمران سے کہا کرتاکہ میرے دوست عمران !ہم بڑے ہو کر ضرور سائنس کی دنیا میں کمالات دکھائیں گے، کیونکہ ہمیں کسی چیز پر غور و فکر کرنا پھر اس چیز کی کھوج لگانے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ یہ سن کر عمران بھی گردن ہلا دیتا،لیکن محمود کو اب یہ خواب صرف خواب نظر آنے لگا تھا، کیونکہ وہ اب عمران کو اتنے سالوں سے بنے معمول سے دور ہوتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
آج کل عمران نہ صبح کی سائیکلنگ پر آمادہ ہوتا اور نہ شام کی فزیکل ایکٹیوٹی پر،اور تو اور، نمازوں میں بھی اب وہ پابندی نہ رہی۔ کبھی کبھی وہ نماز کے لیے آتا بھی تو فرض کی ادائیگی کے بعد فوراً رفو چکر ہو جاتا۔ محمود عمران سے کچھ پوچھتا بھی تو وہ ’بس کچھ کام ہے‘ یا ’آج جلدی میں ہوں‘کہتے ہوئے بس اس طرح کے بہانے بناکر محمود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔لیکن محمود کی بے چینی بجائے کم ہونے کے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
ایک روز محمود نے تہیہ کرلیا کہ آج وہ ضرور عمران سے بات کرے گا ۔آخر کیا وجہ ہے کہ عمران اس سے اتنا دور ہوتا جا رہا ہے،اور اس روز جب ظہر کی نماز میں محمود کو عمران نظر آیا تو اس نے عمران سے کہاکہ عمران مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔
عمران نے کہا: ’’محمود! آج میں ذرا جلدی میں ہوں، ہم کل بات کرتے ہیں۔‘‘
اس پر محمود نے کہا:’’ نہیں عمران! مجھے تم سے آج ہی بات کرنی ہے اور ابھی۔‘‘
عمران نے جھنجھلا کر کہا: ’’اوہو محمود !تم بھی بس …بتاؤ کیا کہنا ہے؟‘‘
محمود بڑے اطمینان سے پوچھنے لگا: ’’عمران! یہ بات تم مجھے سچ سچ بتاؤ کہ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے یا کوئی اور بات ہے جو تم مجھ سے اتنا دور دور رہنے لگے ہو؟ ہر وقت جلدی میں ہوتے ہو، تھوڑی دیربھی میرے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے، آخر بات کیا ہے؟‘‘
عمران نے گڑ بڑا کر محمود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا:’’ نہیں نہیں میرے دوست محمود! تم ایسا کیوں سمجھنے لگے ہو ؟‘‘
پھر کچھ سوچ کر بتانے لگا:’’ دراصل بات یہ ہے کہ میں نے اپنے موبائل میں ایک گیم ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔ جو سائیکلنگ کا مزہ ہم پسینہ بہا کر لیتے تھے ،وہی مزہ اب یہ گیم اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں دیتا ہے ۔چاہو تو تم بھی اپنے موبائل میں اس گیم کو ڈاؤن لوڈ کر لو، پھر ہم دونوں گھر بیٹھے اپنے اپنے کیریکٹر سے اس گیم کو کھیلا کریں گے۔‘‘
محمود کو بھی یہ بات بہت پسند آئی، اور کیوں نہ پسند آتی؟ اس بہانے وہ اپنے دوست سے فزیکلی نہ سہی، الیکٹرانک انسٹرومنٹ کے ذریعے قریب تورہے گا۔
پھر یوں ہوا کہ چند مہینوں تک یہ آپس میں نہ بھی ملتے تو گیمز کے ذریعے اور چیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے واقف ہو جاتے۔ جو ں جوں گیمزکے Stages کو کراس کرتے، ویسے ویسے ان کا تجسس بڑھتا جاتا اور اس طرح وہ دن رات گیم اور صرف گیمز کے بندے بن کررہ گئے تھے۔
کچھ دنوں میں رمضان کی آمد آمد تھی۔ گھر میں رمضان کی تیاریوں کے سلسلے میں جوش و خروش نظر آرہا تھا ،لیکن یہ دونوں تو اپنی ہی دنیا میں مگن۔ نہ انہیں گھر کی تیاریوں سے دلچسپی اور نہ رمضان کی آمد سے کوئی سروکار۔ گھر کے لوگ ان کی اس مصروفیت سے بے انتہا عاجز آچکے تھے۔ ایک روز محمود کی امی نے سحری کے بعد زبردستی محمود کو قرآن کریم کی تلاوت پر راضی کر لیا۔ وہ بےچارہ مارے باندھے بیٹھ کر فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگا۔ نیند سے اس کا برا حال تھا۔ رات دو بجے تک عمران کے ساتھ گیمز میں جو مصروف رہاتھا۔بمشکل وہ ایک رکوع پڑھ کر زوردار آواز میں صدق اللہ العظیم کی صد ا کے ساتھ قرآن کریم کو بند کرنے لگا، تبھی امی نے آواز دی:’’ بیٹا! کس رکوع کی تلاوت کی ہے تم نے؟‘‘
وہ بتانے لگا :’’سورہ آل عمران کے رکوع نمبر 11 کی۔‘‘
امی مسکرا کر کہنے لگیں:’’ ہم بھی تو جانیں اللہ تعالی نے اس میں کیا فرمایا ہے؟ ذرا اس کا ترجمہ بھی تو پڑھو بیٹا!‘‘
محمود منمنایا:’’ نہیں امی! آپ پڑھیے پلیز!‘‘ اور محمود خود پر جبر کرتے ہوئے بیٹھا رہا اور سننے لگا۔
’’ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں ،اور آسمانوں اور زمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں( وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں )پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کر ے پس اے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘
امی آگے بھی اور پڑھتی رہیں لیکن محمود کا ذہن بس ان الفاظ پر اٹک کر رہ گیا:’’ اور آسمانوں اور زمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘
اگلے دن وہ جب مغرب کی نماز میں عمران سے ملا تو کہنے لگا :’’یار عمران! کیا تم نے کچھ محسوس کیا؟‘‘
عمران اسے اس طرح سوچ میں گم دیکھ کر کہنے لگا: ’’خیریت؟کیا ہوا محمود؟ کیوں؟ کیا محسوس کروانا چاہ رہے ہو تم؟‘‘
محمود کہنے لگا:’’ یہی کہ ان گیمز نے مجھ سے میرے پیارے دوست کو چھین لیا۔مستقبل میں بننے والے سائنٹسٹ کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا اور تو اور، قدرت سے، پیڑ پودوں سے اور ماں باپ کے لمس تک سے دور کردیا۔ آؤ عمران آؤ! اس رمضان کے بابرکت مہینے میں ہم دونوں یہ عہد کریں کہ ہم ان گیمز کی اور وقت کی بربادی کی دنیا کو خیرباد کہہ دیںگے۔ اس فتنے نے ہم سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی سلب کر لی۔ ہماری آگے بڑھنے کی راہوں کو مسدود کر دیا۔‘‘
عمران اسے ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا تھا۔ اسے محمود کی یہ باتیں جھنجوڑے دے رہی تھیں، یہ وہی باتیں تھیں جو عمران بھی کئی روز سے کہنا چاہ رہا تھا، لیکن انہیں الفاظ کا جامہ نہیں پہنا پا رہا تھا ،اور آج اس کا دوست اس کے دل کی آواز بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ ان دونوں کی آنکھیں ندامت اور پشیمانی کے آنسوؤ ں سے ڈبڈبانے لگیں۔ وہ ان آنسوؤں کے ذریعے نادانی میں کیے گئے گناہوں کو دھو ڈالنا چاہتے تھے۔ ڈیوائسز کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتے تھے ،اور زندگی کے اس نیلگوں آسمان میں شاہین بن کر پرواز کرنا چاہتے تھے ۔اگلے ہی لمحے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ وہ کہنے لگے کہ اب اگر ہم ان ڈیوائسز کا استعمال کریں گے بھی تو ان سے نفع بخش علم حاصل کریں گے، ان کے شر سے خود بھی بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے ،اور کچھ ایسا اس کا استعمال لوگوں کو سکھائیں گے جو ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن بن جائے،ان شاءاللہ۔
اگلی صبح محمود اور عمران اپنی اپنی سائیکلوں پر سوار پھر سے محو سفر تھے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Tasleem

    Masha Allah zabardast msg hai device se door rahne k
    Aur sahi istemaal k

    Alhamdulillah

    Reply
  2. Fariha Sabeen khan

    ?MASHALLAH
    Nice story for childrens

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے