فرق

کتاب کو یوں درمیان سے کھولا تو جلی حروف سے لکھی سطروں پر نظر ٹھہر گئی:
انسان کی اچھائی اور برائی اس کے اندر ہے،باہر سے نظر نہیں آتی، ہر کوئی وہی کرتا ہے جو اس کی اوقات ہوتی ہے۔‘‘
بالیقین جو کرنا مشکل ہے، وہ ہمیشہ برائی کے خلاف اپنے وقار کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر آپ اپنے اندر کینہ، غصّہ اور نفرت رکھیں گے تو کسی برے اور آپ میں کیا فرق رہ جائے گا؟جیسے سیدنا حضرت حسن ؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مہمانوں کے پاس بیٹھے تھے اور ان کا غلام کھانا لا رہا تھا، وہ گرم شوربے سے لبریز پیالہ لے کر آیا، اس کا پائوں الجھا تو پیالہ اچھل کر سیدنا حسن ؓ کی کمر پر جا گرا۔ گرم گرم شوربے نے ان کی کھال ادھیڑ ڈالی۔ انہوں نے نہایت غضب ناک ہو کر اپنے غلام کی طرف دیکھا۔ وہ بھی چونکہ خاندانِ نبوت میں پلا بڑھا تھا۔ فوراً اس نے قرآن کریم کی ایک آیت کا ایک حصہ پڑھا :

والکا ظمین الغیظ

(اللہ کے نیک بندے غصے کو پی جایا کرتے ہیں۔)
حضرت حسن ؓ نے فوراً آنکھیں جھکالیں۔ پھر اس نے اگلا جزوپڑھا:

 والعافین عن الناس

(وہ لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں۔)
تو آپ نے کہا :’’جا میں نے تجھے معاف کیا۔‘‘
پھر اس نے تیسرا ٹکڑا پڑھا:

 واللہ یحب المحسنین

(اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)
حضرت حسن ؓ نے فرمایا:’’ جا میں نے تجھے آزاد کیا۔‘‘
اندازہ کیجیےکہ غلام سے ایک غلطی ہوئی تو آپ نے نہ صرف اس کی غلطی معاف فرمائی بلکہ اس پر احسان کرتے ہوئے اسے آزاد فرما دیا۔اور پھر سورہ حم السجدہ کی آیت ذہن میں نمودار ہوئی:

وَلَا تَسۡتَوِى الۡحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِىۡ بَيۡنَكَ وَبَيۡنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِىٌّ حَمِيۡمٌ ۞

(اور اے نبیؐ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔)(سورہ فصلت : 34)
نیکی اور بدی کا اثر یکساں نہیں ہوتا۔ نہ دونوں کی قدر و قیمت یکساں ہوتی ہے۔بعض انسان ہیں جو شر اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض ہیں جو انہیں معاف کرکے بدترین سزا دیتے ہیں۔
اسی لیے ہمارے دل میں کوئی کینہ، غصّہ اور نفرت نہ ہو،تاکہ ہم اپنی باطنی خوبصورتی کو داغدار نہ ہونے دیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس سلسلہ میں ہمارے سامنے ہے، آپ نے اپنے ساتھ برائی کرنے والوں کو ہمیشہ دعائیں دیں:
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
ہمارے لیے جو اچھا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی اچھائی سے مشہور رہیں، کیونکہ ہر انسان کے لاشعور میں اللّٰہ تعالیٰ نے نیکی اور بدی دونوں کے تصورات ودیعت کر دیئے ہیں۔

فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞

(پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی)(سورة الشمس: 8)
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کا امتیاز اور خیر کے خیر ہونے اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر ودیعت کیا ہے۔شر چاہنے والوں کے لیے شر اور خیر چاہنے والوں کے لیے خیرہے۔جو ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔کوئی ڈھیروں برائیوں میں مبتلا بھی ہو تو اس کا انجام نیک ہوسکتاہے۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کےلیےبھی توبہ ہے ؟ اس نے انکار کیا تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں، اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا۔ چنانچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا، لیکن راستے میں ہی موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی ،جس طرف وہ ہجرت کرکے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا ،اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔اور کبھی ڈھیروں نیکیاں کرتے رہو تو اس کا انجام بد نکل سکتا ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو وحی کی کہ فلاں فلاں شہر کو اس کے باسیوں پر الٹ دو۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ‘ اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے، جس نے کبھی پلک جھپکنے کے برابرلمحہ تیری معصیت میں نہیں گزارا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الٹو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘ اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی میری غیرت کی وجہ سے متغیر نہیں ہوا۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں مسئولیت اس بات کی ہے کہ ہم کیا ارادے کرتے ہیں،کیا نہیں کرتے ہیں، کن کاموں کے کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں؟ اللہ کے یہاں یہی اصل چیز ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ نیکی کی شمع کے مقابلے میں ہمارے نفس اور شیطان ایک برائی و بدی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔نیکی کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین ہونا لازمی ہے کہ نیکی کو قبول کرنے کے لیے بہت سی نفسانی خواہشات کی قربانی دینی ہوگی ،اور دوسری یہ کہ ہر حال میں رضائے الہٰی کے لیے صبر کرنا ہوگا۔

٭ ٭ ٭

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کا امتیاز اور خیر کے خیر ہونے اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر ودیعت کیا ہے۔شر چاہنے والوں کے لیے شر اور خیر چاہنے والوں کے لیے خیرہے۔جو ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔کوئی ڈھیروں برائیوں میں مبتلا بھی ہو تو اس کا انجام نیک ہوسکتاہے۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. شفق نازتنویر

    بلکل درست کہاآپ نےکہ پہلےنفس کی قربانی شرط ہےاوراسکےبعدرضاےءالہی کےلیےصبر,بہترین مضمون ہے.جزاکم اللہ خیراکثیرا

    Reply
  2. شفق نازتنویر

    بلکل درست کہاآپ نےکہ پہلےنفس کی قربانی شرط ہےاوراسکےبعدرضاےءالہی کےلیےصبر,یہ دونوں چیزیں اگر ہم اختیارکرلیں توہمکامیاب ہیں.بہت اچھا مضمون ہے.جزاکم اللہ خیرا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے