قندیل [قسط: 1]

 میں ’’قندیل‘‘ ہوں۔وہ قندیل نہیں، جس کی گود میں بتی رکھی جاتی ہے، اور اس بتی کو جلایا جاتا ہے۔ آتش زدہ تو میں خود بھی ہوں۔ البتہ میرا کا م وہی ہے جو اس قندیل کا ہوتا ہے جو اندھیر کمروں میں روشنی،  طالب علموں کی کتابوں کے اوراق کو روشن کرنے والا جگنو، خوشیوں کے تہوار میں چارچاند لگانے والا دیپ، اور جو غریب کی جھونپڑی میں چراغ کے فرائض انجام دیتی ہے۔ٹھہریے! مجھے بہت نیک، رحم دل اور اور جلیل القدر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ میں اصل میں ایسی ہوں نہیں۔ یہ تمام کام جو قندیل کرتی ہے، میں نے سرانجام نہیں دیے،کیونکہ میں نے کبھی یہ کام کرنے چاہے ہی نہیں،اور انسان تب تک کوئی کام خوش اسلوبی سے نہیں کرسکتا، جب تک اس کا دل نہ چاہے۔ دماغ چاہے ہزار منصوبے بنا لے، اپنے آپ کو تیار کرلے، لیکن جب تک دل آمادہ نہ ہو، جسم وہ کام انجام نہیں دیتا۔ دے ہی نہیں سکتا۔
جی ہاں! میں انسان ہوں۔ ایک عورت ہوں۔ ’’قندیل‘‘ میرا نام ہے۔ میرے والدین نے کیا سوچ کر میرا نام قندیل رکھا، میں نہیں جانتی۔ میں نے ان سے کبھی نہیں پوچھا۔ ہاں، لیکن اتنا جانتی ہوں، میرے والدین کی دس سالہ شادی شدہ زندگی کے بعد میں پیدا ہوئی تھی۔ میں ان کی پہلی اولاد تھی۔ اور آخری بھی میں ہی تھی۔ مشترکہ خاندان ہونے کی وجہ سے انھیں اولاد کی زیادہ کمی محسوس نہیں ہوئی۔ میرے والدین اپنے بھائیوں کے بچوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان سے اولاد کی طرح پیار کرتے تھے۔میں ان کی ویران زندگی میں روشنی کا ماخذ، شمع بن کر آئی تھی۔شاید اسی لیے میرا نام قندیل رکھا گیا تھا۔ میں وہ قمقمہ تھی، جس کو ہوا کی ہلکی سی لو بھی چھوتی تو صرف میں نہ بجھتی، بلکہ میرا پورا خاندان بجھ جاتا۔ مجھ میں سب کی جان ہوا کرتی تھی۔ مجھے اس طرح سنبھال کررکھا گیا تھا جس طرح جلتے دیے کو ہوا سے سینت سینت کررکھا جاتا ہے۔
جب تک اسکول کی تعلیم تھی، مجھے دی گئی۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ نہیں کرایا گیا۔ ہمارے گھر میں یہ کہاوت عام تھی کہ کالج درندہ ہوتا ہے، جو لڑکیوں کو کھا جاتا ہے۔ کالج میں لڑکی محفوظ نہیں ہے۔ اس کو کالج کی ہوا لگ جائے تو وہ تباہ ہوجاتی ہے۔ لڑکی اپنا دامن بچائے رکھنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرلے، کالج اسے جلا کرراکھ کردیتا ہے۔مجھے بھی تعلیم کا اتنا زیادہ شوق نہ تھا کہ میں اپنے خاندان کی مخالفت کرکے تعلیم حاصل کرتی۔ میں میٹرک پاس ہوں۔ اس کے بعد چار سال گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، محلے کی سہیلیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے، چچا تایا کے بچوں کی شادیوں میں ہلہ گلہ کرتے گزر گئے۔

پھر میری بھی شادی ہوگئی۔ والدین نے الحمدللہ اتنی بہترین شادی کی کہ ہر آنکھ رشک سے دیکھتی، کچھ حسد سے۔میرے شوہر ایک گیراج میں کام کرتے تھے۔ میری چچازاد، تایا زاد بہنیں بھی ایسے ہی خاندانوں کا حصہ بنی تھیں۔ کسی کے شوہر گیراج میں کام کرتے تھے،کسی کے مزدور، تو کسی کے دوکاندار۔ میری سسرال کاگھرانہ بھی اچھا خاصاکھاتاپیتا تھا۔ میرے شوہر اپنے والدین کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کے ایک ہی بڑے بھائی تھے۔ جو چھوٹے بھائی کی شادی ہوتے ہی دوسرے شہر اپنی بیوی کے میکے کے قریب منتقل ہوگئے تھے۔
تین سال پر لگا کر اڑ گئے۔ زندگی خوشحال گزررہی تھی۔ تب ایک دن دل کے دورہ سے میری بڑھاپے کے قریب پہنچتی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
والد صاحب یہ صدمہ برداشت نہیں کرپائے، اورچند ماہ بعد وہ بھی چل بسے۔ اب میرا میکہ ختم ہوچکا تھا۔ والدین کا غم دل سے بھلایا نہیں جارہا تھا۔ تب اللہ نے اپنی رحمت :’’احد‘‘ سے ہمیں نوازا۔ احد ہماری زندگیوں میں بہار بن کر آیا تھا۔ سارا گھر اس کی قلقاریوں سے گونجتا۔ اس کے ایک سال بعد ہی ’’ہانیہ‘‘ ہنستی مسکرا تیتی ہوئی ہمارے خاندان کا حصہ بنی۔ میری تو دنیا مکمل ہوگئی۔میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ میں ہواؤں میں اڑرہی تھی۔ اپنے خاوند، دوبچوں اور ساس سسر کے ساتھ بے حد خوش رہتی۔ اللہ نے ہر چیز سے نوازا۔ اچھی تربیت، والدین کی بے تحاشا محبت، محبت کرنے والا شوہر، دو پھول جیسے بچے، ماں باپ کی طرح چاہنے والے ساس سسر، نعمتوں سے بھرپور خوشحال زندگی۔ ایک عورت کو اس سے زیادہ کیا چاہیے ہوتا ہے۔ مزید کوئی خواہش باقی نہیں رہی تھی۔
احدکا اسکول میں داخلہ کروایا گیا۔وہ اپنے دادا کے ہمراہ روزانہ اسکول و مدرسہ جاتا تھا۔ایک دن معمول کے کام کرتے کرتے احد کے دادا حضور بھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔یہی تو زندگی ہے۔ زندگی میں نئے لوگ شامل ہوتے ہیں تو پرانے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ پرانی چیز کا نعم البدل نئی چیز ہوسکتی ہے۔ لیکن پرانے رشتوں کا نعم البدل نئے رشتے کبھی نہیں۔ ان کا الگ مقام ہوتا ہے، وہ اگلوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔ وہ رشتے جو بڑی سے بڑی مصیبت اور خوشی و اطمینان سے بھرپور لمحوں میں ساتھ نبھاتے ہیں، نئے رشتوں کے ساتھ ہمیں جوڑ کر تنہا چھوڑ جاتے ہیں۔ان کے انتقال کے بعد حادثوں کی راہ بن گئی۔
احد کے پاپا کی طبیعت بھی ناساز رہنے لگی۔ ان کو عجیب طرح کی کھانسی لاحق ہوگئی۔سگریٹ نوشی کی عادت تو انھیں بہت پہلے سے لگ چکی تھی، لیکن ایسی مہلک اور بے تحاشا کھانسی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔کھانسی کی گولیاں، دوائیں کھانے اورگھریلو نسخے آزمانے کے باوجود راحت نہیں ہوئی۔ ان کی راتیں بے سکونی اور پریشانی میں کٹنے لگیں۔ادھر ان کی دواؤں پرپیسے خرچ ہونے کے باعث ہم بجلی کا بل نہیں بھر پائے تھے۔ گھر میں بجلی نہیں رہی تھی۔ بچے ساری رات مچھروں اور گرمی کی تپش سے پریشان رہتے۔احد کے پاپا کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تو میں انھیں اسپتال لے گئی۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ ہر مہینے کے پہلے اتوار کو بڑے ڈاکٹر ان کے اسپتال میں دورے پر آتے ہیں، میں ان کا ایک دفعہ معائنہ کرواؤں۔وہ پہلے تو منع کرنے لگے۔ بہانے ڈھونڈنے لگے کہ انھیں کچھ نہیں ہوا۔ وہ کہیں معائنہ نہیں کرائیں گے۔ گھریلو نسخے پابندی سے استعمال کریں گے تو ٹھیک ہوجائیں گے۔وہ اسپتال سے پہلے ہی کتراتے تھے،لیکن میں بہت اصرار کرکے اتوار کے روز انھیں اسپتال لے گئی۔ڈاکٹر صاحب نے ان کا تفصیلی معائنہ کیا۔ کچھ ٹیسٹ کیے۔ ایک گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد رپورٹ آگئی۔ میں رپورٹ پڑھ بھی لوں تو کچھ سمجھ نہیں سکتی تھی۔ میں دوڑی دوڑی ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے بیٹھنے کو کہا،رپورٹ پر بس ایک نگاہ ڈالی۔اور عینک کے اوپر سے نگاہیں اٹھا کر مجھ سے کہا:’’میڈم، آپ کے پیشنٹ کو Lungs Cancer ہے۔کینسر کا لفظ سن کر میرے اندر خوف اور بے یقینی نے جگہ بنانی شروع کی۔میں کینسر تو سمجھ پائی، لیکن’’Lungs‘‘یہ لفظ نہیں سمجھ پائی۔قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سے پوچھتی، انھوں نے مجھے سمجھا دیا۔ مسلسل سگریٹ نوشی کی وجہ سے پھیپھڑوں کا کینسر ہوا تھا۔ میں نے ہمت کرکے ڈاکٹر صاحب سے مزید تفصیلات جانیں،لیکن آگے سے انھوں نے جو کہا، وہ میری جان نکالنے کے لیے کافی تھا۔ان کا کینسر آخری اسٹیج پرہے،اور ان کی زندگی صرف چند ماہ کی ہے۔ان کا علاج صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ ان کی سرجری کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے دوائیں لکھ دیں۔ میں نسخہ لے کر وہاں سے اٹھ گئی۔
گھر آکر انھیں دوائیں دیں،اور گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر خوب روئی۔میں کسی سے اپنا دکھ بانٹ نہیں سکتی تھی۔ بچے چھوٹے تھے، اماں بوڑھی ہوچکی تھیں۔ انھیں میں نے کچھ نہیں بتایاکہ وہ اپنے جوان بیٹے کا یہ صدمہ سہہ نہیں پاتیں۔بچے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھتے۔ میں انھیں کیا بتاتی؟یہ کہ ان کاباپ مررہا ہے اور اس کے علاج کے لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے؟میں نے اپنے جیٹھ کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہی ہمارے بڑے تھے۔میں نے ان سے مددطلب کی۔ انھوں نے سفاکی سے کہا کہ وہ اتنی بڑی رقم کا انتظام نہیں کرسکتے، اور اگر اس نے مر ہی جانا ہے تو اس پر اتنا خرچ کرنے کا کیا فائدہ؟میں نے مزید کچھ کہے سنے بغیر فون رکھ دیا۔ کیا کوئی بھائی اتنا بے رحم ہوسکتا ہے؟ وہ آئے اور اپنے بھائی کو دیکھ کر چلے گئے۔میرے پاس زیورات تھے، لیکن اگر انھیں فروخت بھی کردیا جائے تو وہ سرجری کے لیے درکار رقم کی آدھی بھی نہ ہوگی۔میں نے پڑوس میں، رشتے داروں میں، ہر جگہ بات کی۔ ان کے گیراج والے اتنے دنوں کی چھٹی کی اصل وجہ جاننے گھر تک آتے، میں نے ان سے تک قرض مانگا، لیکن کہیں سے بھی اتنی رقم کا بندوبست نہیں ہوسکا کہ سب ملاکر ان کی سرجری کی جائے۔
اگلے مہینے ڈاکٹر صاحب آئے تو میں انھیں پھر اسپتال لے گئی۔ پہلے دی گئی دواؤں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوپایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پھر مجھ سے سرجری کا کہا، اور پھر دوائیں لکھ دیں۔ وہ دن رات بستر پر پڑے کھانستے رہتے۔ ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہے تھے۔مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ اماں بھی دیکھ کر پریشان ہوگئی تھیں۔ڈاکٹر نے چند ماہ کا کہا تھا، لیکن ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے، جب ایک دن کھانستے کھانستے انھوں نے دم توڑ دیا۔میری دنیا اندھیر ہوگئی۔
تمام رشتے دار، جو اُن کی بیماری کا سن کر منہ موڑتے تھے، دو ماہ پہلے ہی کی تو بات تھی۔ اب سب آکر ان کی میت کے قریب بیٹھے چہ میگوئیاں کرنے لگے۔میرے جیٹھ بھی اپنے چھوٹے مرحوم بھائی کو کندھا دینے اوران کی قبر پر پھول چڑھانے آہی گئے۔کوئی ان کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔میں بھی کچھ نہیں کرسکی۔ حالانکہ میں تو قندیل تھی۔ میرے دم سے اندھیروں میں روشنیاں پیدا ہوجاتی ہیں، لیکن میرےاپنے گھرمیں ظلمت بسیرا ہوگیاتھا۔مجھ سے اپنا کام نہ ہوسکا۔ میں اپنے گھر میں چراغ جلا نہ رکھ سکی۔میرا تو خود کا چراغ بجھ گیا۔ہرسو گھپ اندھیرا چھا گیا۔ میں قندیل ہوکر بھی دوسروں کی محتاج ہی رہی۔

٭٭٭

آج میں ان سب خواتین سے جو مجھ جیسی پریشان، بے سہارا، مجبور اور لاچار ہیں، بہت اہم باتیں کرنا چاہتی ہوں۔
’’آج میں جس کمرے میں بیٹھی ہوں، میرے سر کے اوپر پکی چھت ہے، یہاں روشنی ہے، ٹھنڈی ہوا ہے۔ نہ مچھروں کا خدشہ ہے نہ گرمی کی تپش۔ آج ہر سہولت مجھے میسر ہے۔میرے بچے اب اسکول جاتے ہیں۔ میرا رب مجھ پر بہت مہربان ہے۔وہ منظر آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے۔ میں اپنے ذہن کی تختی سے وہ مٹا نہیں سکتی۔ جب…
’’ثوبیہ! ابھی ساری تیاریاں باقی رہتی ہیں، پھر مہمان بھی آتے ہوں گے۔ ملازمہ سے کہو تیزی سے ہاتھ چلائے۔‘‘ اس عالی شان حویلی میں بنی سنوری خواتین چل پھررہی تھیں۔
’’ہاں ہاں! میں کہتی ہوں،تم اوپر جاؤ۔‘‘ اس حویلی کی بڑی بہو اپنی بھاری بھر کم ساڑی سنبھالتی ہوئی کچن میں آئیں۔
’’تم نے ابھی تک اتنی ہی تیاری کی؟ جلدی جلدی کام کرو۔ مجھے ایسی پھوہڑ ملازمائیں پسند نہیں ہیں۔ جانتی نہیں ہو آج میری بیٹی کی انگیجمنٹ ہے۔ مہمانوں کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ خاتون نے مغرور انداز میں کہا۔
’’جی جی بیگم صاحبہ! بس ابھی ہوجائے گا۔‘‘ ملازمہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
’’اور خالدہ آپا! آپ بھی ذرا تیزی سے کریں۔‘‘ انھوں نے دوسری ملازمہ سے کہا۔
دونوں تیزی سے ہاتھ چلانے لگیں۔ خاتون واپس چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکی زینے اترتی ہوئی لاؤنج میں آئی۔اس نے ٹراؤزر پر ٹیونک پہن رکھی تھی۔
’’حرم! یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟جاؤ تھوڑا آرام کرو۔ تاکہ رات فنکشن میں تم تھکی ہوئی نہ لگو۔ اور پارلر کب جانا ہے؟‘‘
’’ممی !انگیجمنٹ رات میں ہے۔ ابھی تو صبح ہوئی ہے۔ میں وقت پر تیار ہوجاؤں گی۔‘‘ کہہ کر وہ کچن میں گئی، اور فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔
’’بھئی! خوشبو تو بڑی اچھی آرہی ہے۔ کیا بن رہا ہے؟‘‘
’’ڈیزرٹ بنا رہی ہوں۔‘‘ ملازمہ نے مڑے بغیر جواب دیا۔
’’خالدہ آپا! آپ کیا بنارہی ہیں؟‘‘اس نے دوسری ملازمہ سے پوچھا۔
’’میں چکن تل رہی ہوں حرم بیٹی۔‘‘
’’اور یہ کیوٹ سی بچی تمھاری ہے؟‘‘حرم نے آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھی بچی کے گال نوچے۔
’’جی۔‘‘ خالدہ آپا کے ساتھ کھڑی ملازمہ نے سر ہلادیا۔
’’کیا نام ہے بیٹا تمھارا؟‘‘
’’ہانیہ۔‘‘
’’ہانیہ،بہت پیارا نام ہے۔اور تمھارا نام کیا ہے؟‘‘ حرم نے ملازمہ سے پوچھا۔
اس نے مڑکر دیکھا اور ساکت ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
’’قندیل؟‘‘ حرم نے تعجب سے اسے دیکھا۔
’’تم؟ تم یہاں کیسے؟‘‘
’’آپ یہاں کیسے؟‘‘قندیل نے اس سے پوچھا۔
حرم اس کی کلاس فیلو تھی۔ دسویں تک دونوں ساتھ تھیں۔ دونوں اچھی دوست تھیں، لیکن پھر دسویں کے بعد حرم میڈیکل کی اسٹڈی کے لیے بیرون شہر چلی گئی تھی۔ پھر ا ن کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ فون پر بات ہوسکی۔
’’میرا گھر ہے یہ۔ آج رات میری انگیجمنٹ ہے۔ ہاسٹل میں رہتی ہوں۔کالج سے چھٹیاں نہیں مل رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے دو دن کی لیو لے کر رات میں آئی ہوں۔‘‘
’’اچھا۔ اب شادی کررہی ہیں آپ؟ مبارک ہو بہت۔‘‘
’’بس یار! ایم بی بی ایس کرے بندہ تو صرف میڈیکل کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ دوسری کسی چیز کے لیے وقت ملتا ہے، نہ سوچ سکتا ہے، اور تم کیا مجھے آپ آپ کہہ رہی ہو؟ فرینڈز رہ چکی ہیں ہم۔ سیدھی طرح مجھے تم کہو،اورمجھے یہ بتاؤ، تم یہ کام کب سے کرنے لگیں؟‘‘ حرم نے اس سے پوچھا۔
’’ایک ہفتہ پہلے سے بس۔ آپ کے گھر میں فنکشن ہے اس لیے بیگم صاحبہ نے کام کے لیے مجھے رکھا ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘
’’بہت لمبی کہانی ہے۔‘‘
’’تو میری کون سی ٹرین ہے۔ چلو آؤ! سنتے ہیں تمھاری کہانی۔‘‘
’’نہیں۔ بیگم صاحبہ بہت ڈانٹیں گی۔ابھی بہت کام باقی ہے۔‘‘
’’خالدہ آپا کرلیں گی۔ پہلے بھی سب یہی کرتی تھیں۔تم آؤ میرے ساتھ۔ ممی سے میں بات کرلوں گی۔‘‘حرم اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے گئی۔ہانیہ بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔

٭٭٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے