نظم

جب آہیں بھرنا چھوڑ دیا،جب قلب نے ڈرنا چھوڑ دیا
امید بڑھی، ہمت مچلی ، دشمن نے اکڑنا چھوڑ دیا
جب بزم طرب سے جان چھٹی، جب جاں سے گذرنا سیکھ گیا
جب آنکھ ملی، للکار مچی باطل نے اچھلنا چھوڑ دیا
کمزور سے میرے بازو تھے، آنکھوں کے شرارے ساکت تھے
اک برق تپاں بن کر نکلا، جب میں نے جھجھکنا چھوڑ دیا
ہر سمت ہے گھیرا تنگ تو کیا،ہےگردش دوراں تیز تو کیا؟
ہے ان کو خبر ہم نے بھی تو اب پیچھے ہٹناچھوڑ دیا
وہ پہلے جیسے لوگ نہیں، وہ ضرب نہیں، وہ تاب نہیں
لیکن یہ غلط فہمی نہ رہے،ہم نے بھی تڑپنا چھوڑ دیا
اب شعلہ بن کر لپکیں گے، یا لاوا بن کر پھوٹیں گے
اب ہم نےسہنا چھوڑ دیا،اور خود میں سلگنا چھوڑ دیا
ہے ساز وہی، انداز وہی، محفل بھی وہی، آواز وہی
لیکن یہ بتاؤ یاروں نے کیا رنگ بدلنا چھوڑ دیا؟

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے