محفوظ ہاتھوں میں بچے کی تربیت

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا نظام ہی کچھ ایسا بنایا ہے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔بچوں کی شخصیت سازی میں والدین کا اپنا اپنا کردار ہوتا ہے۔ماں کا پیار باپ ، یا کوئی اور دوسرا رشتہ نہیں دے سکتا اور اسی طرح باپ کا شفیق سایہ ماں نہیں دے سکتی۔بچوں کو نہ صرف ماں اور باپ کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ ایسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے گہری محبت رکھتے ہوں۔ اس خوبصورت جوڑے کی مشترکہ محبت و تربیت پاکر بچوں کی شخصیتیں صحت مند خطوط پر پروان چڑھتی ہیں۔اس کے برخلاف جو ماں باپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں یا معمولی انا کے مسئلوں کو لے کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ، وہ سب سے زیادہ معصوم بچوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ان کے بچپن کے خوشگوار اور پر مسرت دور کو زہر آلود کر دیتے ہیں۔
طلاق کا فوری اثر تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو ماں یا باپ کو کھونے کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے۔وہ شدید تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے۔ طلاق کے بعد بہت سے بچوں کا تعلیمی گراف تیزی سے گرنا شروع ہوتا ہے،اور بسا اوقات پھر بحال نہیں ہو پاتا۔بہت سے بچے ماں باپ کے درمیان دوری کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔یہ احساس جرم ان کے اندر منفی رجحانات پیداکرتا ہے۔وہ رات میں گھبرا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔بہت سے بچے تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔سماج سے خود کا تعلق توڑلیتے ہیں۔کچھ بچے شدید غم کا شکار ہوجاتے ہیں۔زندگی میں مزہ لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ان کادنیا کو دیکھنے کا زاویہ ہی منفی ہوجاتا ہے۔ان فوری اثرات کا نوٹس نہیں لیا گیا تو معصوم بچوںکے مزاج و نفسیات پر دیر پااثرات مرتب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ایسے بچوں کا غصہ پر قابو نہیں رہتا ۔ساری دنیا سے وہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ معمولی بات پر تشدد پراتر آتے ہیں۔یا سماج دشمن متشدد عناصر کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ایسے بچے خود بھی خوشگوار ازدواجی زندگی کے قابل نہیں رہتے ۔
امریکہ میں کیے گئےسروے کے مطابق طلاق یافتہ والدین کی بیٹیوں میں طلاق کی شرح دیگر عورتوں کے مقابلے میں60 فی صدزیادہ ہوتی ہے۔ایسے بچے ڈرگس وغیرہ کے آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔بعض بچوں میں مستقل نفسیاتی امراض جیسے ڈیپریشن یا بی پی ڈی(Bipolar Disorder)وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔مستقل ڈیپریشن ان کے اندر بلڈ پریشرذیابطیس جیسے امراض کا باعث بن سکتا ہے۔
اس لیے طلاق دینے یا لینے سے قبل شوہر اور بیوی کو ا ن تمام اثرات کا اندازہ کرنا چاہیے۔اس ضمن میں اسلامی احکام سے بھی واقفیت ہونی چاہیے اور جدید نفسیات کے تکنیکوں سے بھی۔(حوالہ : خاندانی مسرتوں کے راز،از:ڈاکٹر نازنین سعادت)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے