انااورخودی

وہ یہ جانتے تھے کہ وہ اس چیلنج کو پورا نہیں کر سکتے، وہ اس جیسا کلام نہیں لا سکتے تھے۔ وہ ایک سورۃبھی اس جیسی نہیں لا سکتے تھے، لیکن وہاں انا تھی۔یہاں تک کہ وہ اپنے سارے خد ساختہ خداؤں کی بھی مدد لے لیں،وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ خدا ان کی پکار کا جواب تک نہ دیں گے۔ لیکن وہاں انا تھی۔
وہ اس شخص کی اچھائی سے واقف تھے۔ وہ اس کی بات کو مانا کرتے تھے، لیکن پھر اعراض کرنے لگے،کیونکہ وہاں انا تھی۔ دل گواہی دیتا کہ یہ انسانی کلام نہیں، اسی لیے وہ راتوں کو چھپ کر اسے سنا کرتے، لیکن اقرار نہیں کرتے۔ کیونکہ وہاں انا تھی۔
انا ،یہ وہ ہے جس سے عمرؓ اور عَمرو میں عَمرو پیچھے رہ گیا، جس نے عَمرو کو بدر میں دو بچوں سے مروا دیا، جس نے ابولہب کا شمار نامرادوں میں کر دیا، جس نے ولید بن مغیرہ کا ٹھکانہ جہنم بنا دیا۔اسی نے ابلیس کو حکم عدولی کی جرأت دی، اسی نے قابیل کے ذریعے روئے زمین پر پہلا قتل کروا دیا۔اس نے نہ جانے کتنے انسانوں کو راہ راست سے بھٹکا دیا۔
انا، جو انسان کو خود پرست بناتی ہے، مغرور بناتی ہے۔اس سے انسان غرور کے غبارے میں بیٹھ کر خاردار جھاڑیوں کی جانب چل پڑتا ہے۔ اور پھر انجام تو طے ہے۔سچ تو یہ ہے، انا کے برج اونچے ہوں تو راستے کھو ہی جاتے ہیں۔
آئیے! اس انا کو فنا کریں کہ ہماری بقا اسی میں ہے،برخلاف اس ’’خودی‘‘کے،کہ خودی تو خود شناسائی کا نام ہے۔ اپنی اصل کو پہچاننا ہے۔ اسی نے عمرؓ کو فاروق بنا دیا۔ اسی سے علی ؓ نے ذوالفقار کو تھاما اور خالد ؓ ، سیف اللہ بن گئے۔جو خودی کو پالے وہ بحر بے کراں کی مانند ہو جاتا ہے۔

فنا کر کے انا کو جاوداں ہوجا
خودی پاکر تو بحر بے کراں ہوجا

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. وصی

    ماشاءاللہ کافی اچھا مضمون ہے، چندٹائپوگرافک غلطیاں ہیں جنہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے