جب زندگی شروع ہوگی

 کہانی سننا اور سنانا ہمیشہ سے انسانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔ آج بھی یہ شوق بڑے پیمانے پر ہم میں پایا جاتا ہے ۔ کوئی بول کر کہانی سناتا ہے تو کوئی لکھ کر کہانی سناتا ہے ، جسے ہم ناول یا افسانہ کہتے ہیں ۔’’ جب زندگی شروع ہوگی‘‘ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جس کو ابو یحییٰ صاحب نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ لکھ کر سنایا ہے ۔’’ جب زندگی شروع ہوگی‘‘ ابو یحییٰ صاحب کا پہلا اور مشہور ناول ہے ۔ ابو یحییٰ صاحب اردو دنیا میں اب کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے ۔ ان کے اس ناول نے انہیں پوری دنیا میں متعارف کروایا ہے ۔ ابو یحییٰ صاحب پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ماہنامہ انذار کے مدیر ہیں ۔
لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور کبھی بے مقصد لکھ کر صفحات کالے کیے ہیں ۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں ،جو ایک عظیم مقصد اور اعلیٰ پیغام کو دنیا تک پہنچانے کےلیے قلم اٹھاتے ہیں ۔ ایسے ہی کم یاب اور نایاب لوگوں میں ابو یحییٰ صاحب کا شمار ہوتا ہے ۔
’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ ایک ناقابل فراموش داستان اور زندگی کو بدل دینے والی کہانی ہے ۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو سوتے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر جگا دے ، بڑے سورماؤں اور متکبروں کو ان کی اوقات یاد دلا دے ۔ سنگ دلی میں حد سے گذر جانے والوں کےلیےیہ عبرت نامہ ہے ۔
کہانی کی شروعات روز قیامت سے ہوتی ہے ۔ جس میں عبداللہ نامی نیک شخص میدان حشر میں کھڑا ہے ۔ پوری کہانی عبداللہ اور اس کے خاندان کے ارد گرد گھومتی ہے ۔ عبداللہ دنیا کی زندگی میں ایک نیک اور شریف شخص تھا ۔ اس نے پوری زندگی خدا کے بندوں کو خدائی پیغام پہنچانے اور اسلام کےلیےجدوجہد کرنے میں صرف کر دی تھی ۔ جس کا نتیجہ تھا کہ اسے میدان حشر میں گھوم پھر کر مشاہدہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔
کہانی شروعات سے آخر تک قاری کو جکڑے رکھتی ہے ۔ پوری کتاب میں کوئی ایک ایسی جگہ نہیں ہے ،جہاں قاری کو بوریت کا احساس ہو ۔ ادب کی چاشنی سے لبریز جملے اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں ۔ ناول کا عظیم مقصد بندۂ خدا خدا کی بارگاہِ میں لوٹ جائے، اس سے پہلے کہ قیامت کے دن کا آغاز ہو یا اسے موت ہی آ جائے ۔

یہ ناول ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کی دنیا میں خدا کو بھول کر زندگی جینے والوں کا کتنا بھیانک اور درد ناک انجام ہوتا ہے اور اس کے برعکس وہ جنہوں نے پوری زندگی مصائب ومشکلات میں گزاری اور ان کا صبر سے مقابلہ کیا، انہیں خدا کی جنتوں میں کیسا اونچا مقام ملتا ہے ۔ دوران مطالعہ جب جنتوں کا ذکر ہوتا ہے تو قاری سوچنے لگتا ہے کہ کیسی آرائش اور بادشاہوں جیسی زندگی ہمیں ملے گی اور دل مچل مچل اٹھتا ہے کہ وہ بھی خدا کی جنتوں میں جائے اور وہ خدا سے ملنے کا لطیف خواب بننے لگتا ہے اور دوسرے ہی پل جب قیامت حشر اور عذاب کا ذکر آتا ہے تو دل کانپ اٹھتا ہے ، روح لرز جاتی ہے، اور پھر قاری اسی خوف میں زار و قطار رونے لگتا ہے۔
ناول کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، اور ہم بھی اسی بڑے حادثے قیامت کا حصہ ہیں ۔ سب سے بڑی اور اہم بات جس پر مصنف کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، وہ یہ کہ مصنف نے پورے ناول کو قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھا ہے ، کوئی من گھڑت یا فضول بات کہانی کا حصہ نہیں ہے ۔ کہانی کا آغاز اور انجام اور بہت کچھ جو اس کہانی میں چھپا ہے۔ پڑھنے والوں کےلیے عبرتناک سبق ہے ۔ اس ناول کو پڑھ کر بہت سی بے چین روحوں کو قرار آیا اور انہیں اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوئی ۔ آپ اور آپ کے گھر کا ہر فرد یا وہ جسے اپنی آخرت کی فکر ہے، ضرور ایک مرتبہ پڑھے ۔ جو لوگ اردو پڑھ نہیں سکتے ان کےلیے یوٹیوب پر آڈیو کلپ بنا کر دی گئی ہے ۔ آپ اس سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔
کتاب سے ایک اقتباس قارئین کی نذر، تاکہ پڑھنے کی تحریک ملے:
’’زمین کے سینے پر ایک سلوٹ بھی باقی نہیں رہی تھی ۔ دریا اور پہاڑ، کھائی اور ٹیلے، سمندر اور جنگل ، غرض دھرتی کا ہر نشیب مٹ چکا اور ہر فراز ختم ہو چکا تھا۔ دور تک بس ایک چٹیل میدان تھا اور اوپر آگ اگلتا آسمان ،مگر آج اس آسمان کا رنگ نیلا نہ تھا، لال انگارہ تھا۔ یہ لالی سورج کی دہکتی آگ کے بجائے جہنم کے ان بھڑکتے شعلوں کا ایک اثر تھی جو کسی اژ د ہے کی مانند منہ کھولے وقفے وقفے سے آسمان کی طرف لپکتے اور سورج کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ۔ جہنمی شعلوں کی لپک کا یہ خوفناک منظر اور بھڑکتی آگ کے دہکنے کی آواز دلوں کو لرزا رہی تھی۔ لرزتے ہوئے یہ دل مجرموں کے دل تھے۔ یہ غافلوں، متکبروں، ظالموں، قاتلوں اور سرکشوں کے دل تھے۔ یہ زمین کے فرعونوں کے دل تھے۔ یہ اپنے دور کے خداؤں اور زمانے کے ناخداؤں کے دل تھے ۔ یہ دل اُن لوگوں کے تھے جو گزری ہوئی دنیا میں ایسے جیے جیسے انہیں مرنا نہ تھا۔ مگر جب مرے تو ایسے ہو گئے کہ گویا کبھی دھرتی پر بسے ہی نہ تھے۔ یہ خدا کی بادشاہی میں خدا کو نظر انداز کر کے جینے والوں کے دل تھے۔ یہ مخلوق خدا پر اپنی خدائی قائم کرنے والوں کے دل تھے۔ یہ انسانوں کے درد اور خدا کی یاد سے خالی دل تھے۔‘‘

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

کہانی شروعات سے آخر تک قاری کو جکڑے رکھتی ہے ۔ پوری کتاب میں کوئی ایک ایسی جگہ نہیں ہے ،جہاں قاری کو بوریت کا احساس ہو ۔ ادب کی چاشنی سے لبریز جملے اس کا حسن دوبالا کرتے ہیں ۔ ناول کا عظیم مقصد بندۂ خدا خدا کی بارگاہِ میں لوٹ جائے، اس سے پہلے کہ قیامت کے دن کا آغاز ہو یا اسے موت ہی آ جائے ۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. سعد

    واقعی پڑھنے والوں کے لئے ایک بہترین ناول کی کتاب ہے، تبصرہ بھی خوب کیا۔ سلامت رہیں ❤️

    Reply
  2. نکہت اقبال

    ماشاءاللہ ۔تبصرہ کرنے والے نےتبصرے کا پورا حق ادا کردیا ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے