خاندانی مسائل کے حل میں عورت کا کردار
زمرہ : ادراك

ہم سب کے لیے جس طرح اچھی صحت بہت ضروری ہے، اسی طرح صحت مند سوچ اور جذبات بھی بہت ضروری ہیں۔ منفی جذبات اور منفی سوچ سے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہم ایسے کئی لوگوں کو جانتے ہیں جن کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے؛ مال و دولت، صحت، عزت، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کی زندگیوں میں سکون نہیں ہے۔ رات کو نیند نہیں آتی، مستقل بے چینی و پریشانی لاحق رہتی ہے۔ یہ بہت بڑا عذاب ہے کہ آدمی کے پاس سب کچھ ہو لیکن وہ ان نعمتوں کا لطف نہ لے سکے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اصل دولت دل کی دولت ہے۔ آدمی کے اندر توکل، غنا جیسی صفات ہوں تو وہ مشکلات میں بھی خوش و خرم رہتا ہے،جبکہ منفی جذبات زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں۔ منفی جذبات سے نہ صرف ہماری زندگی خراب ہوتی ہے، بلکہ ہمارے ساتھ رہنے والے دیگر لوگوں کی زندگیاں بھی اجیرن ہوجاتی ہیں ۔ان جذبات پر اکثر انسان کو کنٹرول نہیں رہتا۔ان کا سرچشمہ انسان کا لاشعور ہوتا ہے۔ لاشعور کی تشکیل انسان کے تجربات و مشاہدات کے ذریعہ ہوتی ہے،اور نئے تجربات و مشاہدات کے ذریعہ اس میں تبدیلی بھی لائی جاسکتی ہے۔
روز مرہ کے عام مسائل میں آدمی جذباتی سپورٹ کے لیے اپنے چاہنے والوں اور قریبی لوگوں ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ بیٹے کے لیے اس کی بہترین کاؤنسلر اس کی ماں ہوتی ہے۔بیوی ، شوہر کی دکھ سکھ کی ساتھی، اس کی اہم ترین رفیق اور اس کے لیے سب سے اہم جذباتی سہارا ہوتی ہے۔ بہنیں بھی اپنے بھائیوں کے لیےبہت اہمیت رکھتی ہیں۔کبھی بیٹیاں اور بہوئیں بھی اپنے باپ اور خسر کے مسائل حل کردیتی ہیں۔اسی طرح ساس، نانی ، یہ سب خواتین اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو صرف حیاتیاتی فرق کے ساتھ پیدا نہیں کیا ،بلکہ ان کے درمیان زبردست نفسیاتی او ر جذباتی فرق بھی رکھے ہیں۔ عورت کی نرم و نازک شخصیت اور اس کے لطیف جذبات کا اہم تمدنی رول بھی ہے۔ جذباتی تسکین اور علاج کا جو کام عورت کرسکتی ہے، وہ مرد نہیں کرسکتا۔اس کے دو بول، ایک مسکراہٹ اور کبھی چند آنسو گہرے جذباتی زخموں کو چند لمحوں میں مندمل کردیتے ہیں۔ لاشعور کو بدلنے میں ایک خاتون بہت اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ وہ اگر اچھے اور امید افزا مناظر دکھائے تو اسے دیکھنا آدمی کے لیےآسان تر ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیشنل کاؤنسلنگ میں بھی خواتین زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ ایک قریبی رشتہ دار خاتون ، جس سے محبت کا تعلق ہو وہ بہت سے ایسے کام انجام دے سکتی ہے جو پروفیشنل کاؤنسلر نہیں کرسکتی۔
کاؤنسلنگ کی ضرورت عام طور پر نفسیاتی اور جذباتی مسائل میں پڑتی ہے۔ یہ مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض مسائل وہ ہیں جنھیںباقاعدہ بیماری (Disorder)کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ تناؤ (Stress)،پریشانی (Anxiety) ،دو قطبیت BPD،Schizophrenia، خوف(Phobias)، الزمیر، جنون و دیوانگی، دورے، وغیرہ بیماریاں ہیں ۔ ان کے علاج کے لیےاکثر دواؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ان امراض کا علاج صرف گھریلو کاؤنسلنگ سے ممکن نہیں ہے، لیکن پروفیشنل کاؤنسلر یا ڈاکٹر کے مشورہ سے اور اس کی نگرانی میں ، ان کے علاج کے لیے گھر کے لوگوں کو بھی اہم رول ادا کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر ایسے امراض میں ڈاکٹرز قریبی رشتہ داروں سے بھی بات کرتے ہیں اور ان کو بھی بہت سے مشورے دیتے ہیں۔ علاج اور دوائیں تو ڈاکٹر دے گا، لیکن اس کے مشورہ سے گھر پر مستقل کیئر اور مریض کو جذباتی سپورٹ فراہم کرنے کا کام گھر کی خواتین ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ سب سے اہم رول بیوی کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بیٹیاں، بہوئیں اور دیگر رشتہ دار خواتین بھی اہم رول ادا کرتی ہیں۔ ان خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹر سے تفصیل سے بات کریں۔ اپنے رول کو اچھی طرح سمجھیں۔ کس صورت حال سے کیسے نبٹنا ہے اور کن حالات میں کیا کرنا ہے؟ اس کو اچھی طرح سمجھ کر ذہانت کے ساتھ اس کو روبعمل لائیں۔
مسائل کی دوسری قسم وہ ہے جو عام صحت مند لوگوں کو درپیش ہوتے ہیں۔مایوسی، غصہ میں شدت،غم، موڈمیں تبدیلی، منفی خیالات و رجحانات، اعتماد کی کمی، احساس جرم، موہوم اندیشے ، توہمات، شک، چڑچڑاپن، غیر مستقل مزاجی، حسد و جلن، بوریت، احساس محرومی، احساس ذلت و توہین، نفرت،بے بسی، دل شکستگی، تذبذب، احساس تنہائی،شرم، بچوں میں تعلیم میں دلچسپی میں کمی، سیکھنے کی رفتار کا سست پڑجانا و غیرہ وغیرہ درجنوں منفی کیفیات ہیں جن میں کاؤنسلنگ اور جذباتی سہارے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ہر شخص کی زندگی میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جو ان احساسات کو جنم دیتے ہیں۔ان واقعات میں صحت کی خرابی یا بیماری سب سے اہم ہے۔بیماری میں مریض کو اگر نفسیاتی مدد مل جائے تو اس بیماری کو قبول کرنے اور اس سے لڑنے میں اسے کافی مدد مل سکتی ہے ۔اسی طرح کسی عزیز کی موت یا بیماری،تجارت یا پیشہ ورانہ زندگی میں کسی بڑے خسارہ یا ناکامی سے دوچار ہوجائے، اس سے کوئی جرم، کسی پر ظلم یا ناانصافی یا گناہ سرزد ہوجائے، کوئی الزام لگے یا بدنامی ہوجائے، کسی قریبی شخص کے ذریعہ اعتماد مجروح ہوجائے،کوئی حادثہ ہوجائے یا کسی بڑے حادثہ کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے، اس طرح کی دسیوں صورتیں ہیں جو آدمی کو وقتی طور پر شدید نفسیاتی مسائل سے دوچار کرسکتی ہیں۔لت یا نشہ، کسی کے ذریعہ ستائے جانے کا معاملہ، مقدمات، تنازعات او ر سب سے بڑھ کر ازدواجی اور خاندانی تنازعات میں آدمی کو کاؤنسلنگ اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بچوں کی تربیت میں عورت کا رول

عورت ماں کے روپ میں ایک بہترین کاؤنسلر ہوتی ہے ۔ اکثر کامیاب لوگ اپنی کامیابی کا سہرا اپنی ماں کے ہی سر باندھتے ہیں۔ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اگر ماں سمجھدار اور سلجھی ہوئی شخصیت کی مالک ہو تو وہ اپنے بچے کی زندگی خوشیوں اور کامیابیوں سے معمورکرسکتی ہے ۔ ماں کالمس ، مسکراہٹ ایک ننھے منے بچے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ ماں کوچاہیے کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس معصوم بچے کے ساتھ گزارے، تاکہ اسے تحفظ کا احساس بھی ہو اور وہ خوشی بھی محسوس کرے۔ چھوٹے بچوں کے لیے ماں کا قرب ہی ان کی جذباتی تسکین کے لیے کافی ہوتا ہے۔بچہ چاہے بڑا بھی ہو جائے اور اسکول جانا بھی شروع کردے، اسے آپ کا لمس ضرور ملے ۔اپنے بچے کو اپنے گلے سے ضرور لگائیں۔
ریسرچ کہتی ہے کہ جب بچہ اپنی ماں کی آغوش میں آتا ہے تو اس کی تکلیف، غم، پریشانی سب ختم ہوجاتی ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کے سلسلہ میں ضروری ہے کہ اس کے مسائل سنے جائیں۔ ماں کو خاموشی کے ساتھ اور توجہ کے ساتھ مسائل کا سننا ہی بچہ کو غیر معمولی جذباتی طمانیت اور طاقت فراہم کرتا ہے۔اگر کسی نوجوان کا میاب انسان سے اس کی رہنمائی کرنے والی شخصیت کے تعلق سے پوچھیں تو وہ یہ ضرور بتائے گا کہ وہ آج ضرور جوان اور کامیاب شخصیت ہے، لیکن جب بھی اسے ضرورت پڑے، وہ اپنی مہربان ماں سے گائیڈنس لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ماں اپنے بچوں کے لیے بہترین رول ماڈل کا کام کر سکتی ہے، ان کی ہمت افزائی کر سکتی ہے ۔ ماں اپنے بچے کا ذہن پڑھنا بہ خوبی جانتی ہے، اپنے بچے کے درد کا، خوشی کا اسے خود بخود پتہ چل جاتا ہے۔
سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ بچوں کے لاشعور کی صحیح تربیت کی جائے ، ان کو اچھا دیکھنے، اچھا سننے اور مثبت طریقہ سے سوچنے کا عادی بنایا جائے۔ ان شاءاللہ ہم آئندہ بچوں کی نفسیاتی تربیت پر تفصیل سے لکھیں گے۔ یہاں صرف یہ بات عرض کرنی ہے کہ ماں اگر اپنے بچے کے مسائل میں دلچسپی لے، اس کی باتیں توجہ سے سنے اور اس کی رہنمائی کرے تو ماں سے بہتر اس کے لیے کوئی کاؤنسلر نہیں ہوسکتی۔

ازدواجی تنازعات کے حل میں عورت کا رول

اللہ تعالی نے ازدواجی تنازعات کا حل یہ بتا یا ہے کہ پہلے میاں ، بیوی آپس میں اپنے تنازعات کو خوش دلی کے ساتھ اور ایک دوسرے سے عفو و درگذر کرتے ہوئے حل کرلیں۔ گھر کی خواتین کو یہ فن آنا چاہیے کہ وہ اپنے عزیزوں کے ازدواجی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرسکیں۔ کاؤنسلنگ کے اس کام کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام، اسلامی شریعت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں اورکاؤنسلنگ کے جدید فنون کی بھی معلومات رکھیں۔
اکثر تنازعات کا سبب لاشعور اور اس کے نتیجہ میں بننے والا خاکہ ہوتا ہے۔شوہر اور بیوی ایک ہی مسئلہ کو دو الگ طریقوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ ٹکراؤ ان کے درمیان تصادم کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح کمیونکیشن کی خرابی اختلافات کا سبب بنتی ہے۔کاؤنسلنگ کرنے والی خواتین اگر یہ صلاحیت پیدا کریں کہ وہ میاں اور بیوی سے بات کرکے مسئلہ کی جڑ کو ان کے لاشعور میں تلاش کرسکیں تو بہت سے مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔
(1) پہلے تنازعہ کے اسباب کو سنیے۔ شوہر اور بیوی سے الگ الگ بھی سنیے، اور دونوں کو ملاکر ساتھ بٹھا کر بھی سنیے۔ سمجھنے کی کوشش کیجے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟
(2) ان تصورات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، جو دونوں کے دماغوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی غلط تصور کسی غلط رویہ کا سبب بن رہا ہے تو واقعات، مثالوں وغیرہ کے ذریعہ انھیں چیلنج کیجیے اور نئے حقیقت پسند تصورات ذہن نشین کرایئے۔
(3) خوشگوار دنوں کی یاد اور تجربہ کو تازہ کروایئے۔ یہ تنازعات کے حل اور شوہر ، بیوی کے درمیان نفسیاتی دور ی ختم کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی بہت اچھے تعلقات رہے ہوں، تو ان یادوں کو تازہ کرنے کا موقع دیجئے۔ انہیں ان لمحات میں لے کر جایئے۔
اس طرح خواتین چاہیں تو وہ اپنے رشتہ داروں کو اپنی سمجھ داری اور سوجھ بوجھ سے زندگی کی مشکل جذباتی الجھنوں کو حل کرنے میں ان کی مدد کرسکتی ہیں اور ان کی زندگی کو خوشیوں کا گہوارہ بناسکتی ہیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. نکہت اقبال

    سبحان اللہ۔آپکی اس تحریر سے ان تمام خواتین کی ہمت افزائی ہوئی ہیں اور جو اس سے لا علم ہیں وہ اس طرف اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گی ۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے