رہ نمائی (رواجوں کے غلام)

زمرہ’’ کیس اسٹڈی‘‘ کے تحت رفیعہ نوشین صاحبہ کا پیش کردہ عنوان: ’’رواجوں کے غلام‘‘ کو جب بغور پڑھا تو واقعےنے ایسے رواجوںکے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا، جن پر ہم بغیر سوچے سمجھے عمل تو کرتے ہیں، مگر ان کے اثرات کے بارے میں سوچنے کی تکلیف نہیں کرتے۔ 
ہمارے معاشرے میں کچھ رواج ایسے ہوتے ہیں جن کی تقلید ہم میں سے بہت سارے گھرانے آنکھیں بند کر کے کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے صحیح یا غلط ہونے سے قطع نظر ان کی پیروی کرنے کا بنیادی سبب یہی ہوتا ہے کہ چونکہ ہم نے اپنی بیٹی کے ٹائم پر ایسا کیا تھا تو اب ہم اپنی بہو سے بھی ایسا ہی کروائیں گے۔
’’پہلا بچہ میکے میں ہی پیدا ہونا چاہیے۔‘‘یہ سوچ ،یہ رسوم دین اسلام کی تعلیمات میں سے تو نہیں ہیں۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ یہ رواج آیا کہاں سے؟ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کئی سو سال تک ایک ایسے معاشرے میں رہنے کے سبب، ہم دوسری قوموں کے رسوم کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں، جن کا تعلق ہمارے دین یا مذہب سے نہیں ہے ،بلکہ یہ سارے رواج غیر قوموں کے معاشرے سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ایسے ہی بہت سارے رسوم میں سے ایک رسم پہلے بچے کی پیدائش کا میکے میں ہونا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں صاف صاف بتایا دیا گیا ہے:

 اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ

(مرد عورتوں پرنگہبان ہیں۔)
جس طرح ایک ذمہ دارماں نو ماہ اپنے بچے کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے،بلکہ صحت کے حوالے سے بھی بہت سارے مسائل کا سامنا کرتی ہے،اسی طرح اس بچے کی اور ماں کی دیکھ بھال اور اس بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش کے تمام اخراجات کی ادائیگی شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر اپنی آسانی کے خیال سے بہت سارے مرد اس مشکل وقت میں اپنی بیوی کو میکے بھجوا کر خود کو ٹینشن سے آزاد کر لیتے ہیں ،جو کہ شرعی طور پر کسی صورت ثابت نہیں ہے ۔شوہروں پر یہ لازم ہے کہ کفالت کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے