درس قرآن
زمرہ : النور

 سورۃ النساء بہت اہم سورۃ ہے۔ اس میں ہمارے گھریلو معاملات کے بہت سارے احکام ہیں۔ آپس کے رہن سہن کے طور طریقے ہیں ۔ جو ظلم معاشرے میں ہم ایک دوسرے پر کر رہے ہیں ، اس کی نشاندہی ہے ۔ خصوصاً خواتین پر جو ظلم ہوتا تھا عرب معاشرے میں ، اس ظلم کی برائی کو اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان کیا ہے ۔ اس میں خواتین کے حقوق بڑے اہتمام سے بیان کیے گئے ہیں ۔ اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام سورۃ النساء ہے ۔
’’نساء ‘‘عربی میں عورتوں کو کہتے ہیں ۔یہ سورۃ اتنی اہم ہے، جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سورۃ النساء اور سورۃ النور کے بارے میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ اپنے گھروں میں اس کو سکھاؤ ، اور اس کی تلاوت کیا کرو ، اور ان سورتوں کو سنا کرو۔ ان میں آپس کے رہن سہن کے احکام ہیں ۔
ابتدائی رکوع میں جن حقوق کے متعلق ہدایات مل رہی ہیں، ان سے پتہ چل رہا ہے کہ یہ جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھی ۔جب کہ ستر صحابۂ کرامؓ شہید ہوگئے تھے، اور مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے سے بہت سے سوال کھڑے ہو گئے تھے ۔

وَ اٰتُوا النِّسَآءَصَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍمِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــًـا مَّرِیْٓــًـا (سورۃالنساء: 4 – 5)

(اور عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ ( فرض جانتے ہوئے) ادا کرو ۔ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ معاف کر دیں تو اسے مزے سے کھا سکتے ہو ۔)
اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اپنی بیویوں کا ان کا مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کر دیا کرو،سزا یا تاوان سمجھ کر نہیں ،کیونکہ یہ ایک تحفہ ہے ، اور تحفہ خوشی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔حق مہر کی ادائیگی خود اسی عورت کو کرنی چاہیے ۔

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ…

 عورت اپنے حق مہر کی خود مالک ہے، اس کی موجودگی میں عورت کا باپ یا دوسرے رشتہ دار مہر وصول نہیں کرسکتے ۔عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مہر وصول کرے، یا معاف کردے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو تم اسے مزے سے کھاسکتے ہو۔اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر وہ عورتیں دل کی خوشی سے مہر کا جو کچھ حصہ تمہارے لیے چھوڑ دیں، آدھا یا پورا یا کچھ بھی،خوش ہوکر کھاؤ۔

وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(5)

(اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ۔
نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو،البتہ انہیں کھانے اور پینے کے لیےدو اور انہیں نیک ہدایت کرو ۔دنیا میں صحیح طریقہ سے زندگی گزارنے کے لیے مال بہت قیمتی چیز ہے، تو اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ اس مال کو بےوقوفوںاورنادانوں کے حوالے مت کرو ۔ خواہ وہ ان کا اپنا ہی مال کیوں نہ ہو ۔)
ایسا مال جس پر معاشرے کی بقا ہے۔ وہ بیوقوفوں کے اختیار میں نہیں ہونا چاہیے ۔ اس لیےبے وقوف اپنے مال میں تصرف کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ ذاتی اور عمومی قسم کے اموال بے اعتبار لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہیے،کیونکہ مال ہی معاشرے کے باقی رہنے کا ایک سہارا ہے ۔
لہٰذا، فاسق و فاجر لوگوں کو مقام و منصب عطا کرنا اور کسی قسم کا اہم عہدہ دینا معاشرہ کے ساتھ خیانت ہے ۔

وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا

 ان بےوقوفوں کو اس مال میں سے کھلاؤ ۔ مال ان کے حوالے کرنے کے بجائے مال میں سے ان کو کھلاؤ ۔

وَ اكْسُوْهُمْ

اور انہیں اس مال سے پہناؤ۔

وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا

 اور ان سے اچھی بات کیا کرو ۔چونکہ مال و دولت زندگی اور اقتصاد کا سہارا اور معاشرتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے ، اس لیے سرمایےکو ٹھہرا ہوااور منجمد نہیں رہنا چاہیے ۔یتیموں اور بےوقوفوں کا مال بھی مصنوعات اور دوسرے فائدہ پہونچانے والے کاروبار میں لگا دینا چاہیے، تاکہ اس کے فائدے سے ان کی گزر بسر ہوتی رہے اور اصل محفوظ رہے۔
معاشرے کے محروم طبقے کی روحانی ، نفسیاتی کیفیت اور ان کی شخصیت ووقار کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے ۔انسانی افراد کو اگر ان کے مال میں تصرف کرنے سے روک دیا جائے تو اس کا رد عمل ضرور ہوتا ہے، جس کا علاج بہترین اور شیریں انداز میں گفتگو کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان آیات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے