چوٹ

 کل شام ہماری نگاہ ایک خوش رنگ گفٹ پیپر میں ریپڈ (بکس) ’’باکس‘‘ پر پڑی ۔تجسس ہوا کہ کیا ہے؟ لینے کے لیے عجلت میں آگے بڑھے ہی تھے کہ ٹی ٹیبل کا کونا،گھٹنے میں لگا، دماغ گھوم گیا ،جھنکار ایسی کہ لمحہ بھر تو سنبھلنا ہی مشکل ہوگیا۔مائی گاڈ! چوٹ تھی کہ قیامت کی ضرب۔
امی کراہ کی آواز سے فوراً سمجھ گئیں، ہمارے ساتھ وہ بھی کراہیں۔ظاہر تھا وہ بھی پہلے کہیں چوٹ کھا چکی تھیں۔
بعض چوٹیں واقعی سنبھلنے نہیں دیتیں۔ گھٹنہ، ٹخنہ اور کہنی، یہ تو خیر دکھائی دینے والی ایسے چوٹیں ہیں کہ بندہ تڑپتا ہوا دوسرے کی طرف دیکھتا ہے اور وہ اپنا تجربہ اور جھنکار یاد کرکے اگلے کی تکلیف سمجھ جاتا ہے،مگر بعض چوٹیں دل پر لگنے والی چوٹیں ہوتی ہیں ،توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ خلوص کچل دیا جاتا ہے، شرافت کو کمزوری سمجھ لیا جاتاہے، معصومیت کو بےوقوفی، اور جنون کو آزمائش کی نوک پر رکھ کے دہکا کر جانچا جاتا ہے۔خلوص کو پامال کیا جاتا ہے،انا مجروح کی جاتی ہے، محبت و مودت کو مفاد پر محمول کیا جاتاہے۔کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ چوٹ کہاں لگی اور کیا بیتی؟
ان دونوں باتوں کو یکجا کیا تب سوچاکہ صاحب ِ محسنِ انسانیت :نعیم صدیقی نے یہی منظر نگاری وہاں کی ۔دونوں ہی چوٹوں سے پیارے نبیﷺ طائف میں گزرے ہیں ۔خلوص کی ناقدری کی گئی، دل پر چوٹ لگی۔جب پیارے نبیﷺ طائف میں تھے،جس قوم کے پاس بے لوث خلوص لے کر گئے تھے، وہاں اہل طائف نے اشرار کے ذریعے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر ستم ڈھائے۔نوکیلے پتھروں سے تاک کر پیارے نبیﷺ کے ٹخنوں پر وار کیا جاتا تھا۔ٹخنوں کو پیارے نبی پکڑ بیٹھ جاتے تھے،اور جو جھنکار ہوتی رہی ہوگی۔
آہ!بڑے خلوص سے دعوت دی تھی مگر ناقدری کی گئی، جو چوٹ خلوص کو نہ سمجھ کر دی جاتی ہے، توڑ ڈالنے والی ہوتی ہے۔واللہ !دل کانپ جاتا ہے۔پیارے نبی کی طائف میں انگور کے باغ میں جو دعا تھی،دعا کے الفاظ ہی اندرون میں دل پر لگی چوٹ کے غماز ہیں:
’’ الٰہی! آخر تو مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے؟ کیا اس حریفِ بے گانہ کے جو مجھ سے ترش روئی روا رکھتا ہے ؟‘‘
دعا کے درمیان اس جملے میں دل کا اصل کرب سمٹ آیا ہے کہ کس طرح اجنبی پیارے نبی ﷺ کے جذبوں کی ناقدری روا رکھے ہوئے ہیں۔پیارے نبیﷺ کا سب سے سخت دن طائف کا دن تھا۔جو دکھائی دینے والی کراری چوٹوں اور دل پر لگی کاری ضربوں سے پُر تھا :

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک ، یا دامن یزداں چاک

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. امیمہ

    واقعی آج بھی سوچو تو روح کانپ اٹھتی ہے ۔۔ اس وقت طائف کا منظرکس قدر جگر سوز رہا ہوگا ۔۔ کس قدر جسمانی اور روحانی اذیت دی گئی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو لیکن سلام ہو اس عظیم ہستی پر اتنی تکلیف کے باوجود دعائیں دیتے رہے ۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا صبر اور استقامت عطا کرے ۔۔۔ آمین

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے