درس حدیث وراثت کے اہم احکامات حدیث کی روشنی میں
زمرہ : النور

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَهِ رَضِيَ اللَهُ عَنْهُمَا يَقُولُ مَرِضْتُ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَهِ صَلَّى اللَهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ وَضُوءَهُ فَأَفَقْتُ. فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَهِ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي فَلَمْ يُجِبْنِي بِشَيْءٍحَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمَوَارِيثِ.

(ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، دونوں حضرات پیدل چل کر آئے تھے۔ دونوں حضرات جب آئے تو مجھ پر غشی طاری تھی، نبی کریم ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر چھڑکا، مجھے ہوش ہوا تو میں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ، اپنے مال کی (تقسیم) کس طرح کروں؟ یا اپنے مال کا کس طرح فیصلہ کروں؟‘‘
نبی کریم ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیتیں نازل ہوئیں۔‘‘
کسی مرنے والے مردیا عورت کی اشیاء اور وسائل آمدنی وغیرہ کے بارے میں بحث کہ کب،کس حالت میں ،کس رشتے کو کتنا ملنا ہے؟ شرعی اصطلاح میں اسے علم المیراث یا علم الفرائض کہتے ہیں ۔وراثت کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عمومی احکام کے صرف اصول بیان فرمائے ہیں ۔ ان کی باقی تفصیل احادیث مبارکہ میں بیان کر دی گئی ہے،جب کہ علم وراثت وہ واحد علم ہے جس کی مکمل تفصیل اللہ نے قرآن کریم میں فصیح و بلیغ انداز میں فر مادی ہے ۔
اللہ تعالی ٰنے عام طور پر اہل ایمان کو کوئی حکم دیتے ہوئے صرف فعل امر کے ساتھ خطاب کیا ہے، لیکن وراثت کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’یوصیکم اللہ ‘‘ (اللہ تمہیں وصیت کرتا ہے) یعنی تاکیدی حکم دیتا ہے۔

 احادیث مبارکہ میں علم الفرائض کی اہمیت

رسول محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا :
’’فرائض (وراثت)کاعلم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو، کیونکہ یہ نصف علم ہے اور یہ علم بھلا دیا جائےگا ۔یہ میری امت سے چھینی جانے والی پہلی چیزہوگی۔ (سنن ابن ماجہ: 2719)
محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا:
’’ علم میراث سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤکیونکہ مجھے بھی فوت کیا جائےگا اور علم میراث کو قبض کر لیا جائےگا ۔یہاںتک کہ دو آدمی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی ایسا آدمی نہیں پائیں گے، جو ان میں فیصلہ کرے۔(بیہقیی، مستدرک حاکم)
محمد صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا:
اصل علم تین ہیں اور ان کے علاوہ علوم کی حیثیت فضل (زائد)کی ہے
-1 آیات محکمات یعنی قرآن کا علم
-2 سنت قائمہ ، سنت نبوی کاعلم
-3 وراثت کا علم (سنن ابو داود و ابن ماجہ)
اللہ تعالی نے جو حصے مرنے والے کے ترکہ میں جن جن رشتے داروں کے مقرر کر دیے ہیں، وہ ایک اٹل قانون ہے ۔اس میں کسی کمی یا بیشی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔ رب کریم نے اپنے اس فیصلے کو اٹل مندرجہ ذیل الفاظ میں قرار دیا ہے :

نصیبا مفروضا

(ہر ایک کا طے شدہ /مقرر کردہ حصہ ہے)
فریضة من اللہ واللہ علیم حکیم
(یہ اللہ کی طرف سے مقرر حصے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔)
(بغیر کسی کو نقصان پہنچائے ۔یہ اللہ کی طرف سے وصیت ہے اور اللہ جاننے والا بردبار ہے ۔)
مقرر حصوں کی تفصیل اللہ تعالی نے سورہ نساء میں بیان فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
’’ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ۔ پس اگر صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو ان کو دو تہائی ملےگا اس مال سے جوکہ مورث چھوڑ کر مرا ہے ۔اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کو نصف ملےگا ۔اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی ہے اور اگر میت کے ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملےگا (اورباقی باپ کا) وصیت پوری کرنے کے بعد کہ میت اسکی وصیت کر جائے یا دین (قرض) کے بعد تمہارے اصول وفروع جن کو تم پورے طورپر نہیں جانتے کہ ان میں سے کون سا تم کو نفع پہنچانے کے زیادہ قریب ہے، یہ حکم من جانب اللہ مقرر کر دیا گیا ہے ۔بالیقین اللہ تعالی بڑے علم والے اور حکمت والے ہیں اور تمہیں آدھا ملےگا اس ترکہ کا جو تمہاری بیویاں چھوڑ کر گئیں، اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہوتو پھر تم کو ان کے ترکہ سے چوتھائی ملےگا ۔ (یہ میراث ) وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کر جائیں یا قرض دینے کے بعد۔ بیویوں کو چوتھائی ملےگا اس ترکہ کا جو تم چھوڑ جاؤ اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہو ۔اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو پھر ان کوتمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملےگا ۔وصیت نکالنے کے بعد جو تم وصیت کر جاؤ یا قرض کے بعد ۔اور اگر میت جس کی میراث دوسروں کو ملےگی خواہ میت مرد ہو یا عورت ایسا ہو جس کے اصول وفروع نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا بہن (اخیافی) ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملےگا اور اگر زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی میں شریک ہوں گے ۔وصیت پوری کرنے کے بعد جس کو وصیت کر دی جائے یا قرض کی ادائیگی کے بعد بشرطیکہ کسی کو ضرر نہ پہنچے ۔یہ حکم کیا گیا ہے خدا کی طرف سے اوراللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے ۔ (سورۃالنساء: 12 )
وراثت کی تقسیم وفات کے بعد شروع ہوگی ۔وفات کے بعد جب تک بالترتیب تین چیزوں کا خرچ اس کے ترکہ سے پورا نہ کرلیا جائے، تب تک میراث وارثین میں تقسیم نہیں ہوگی ۔
-1 تجہیز وتکفین :میت کے کفن دفن کا انتظام کرنے والا کوئی بھی نہ ہو تو میت نے جو ترکہ چھوڑا ہے، سب سے پہلے کفن دفن غسل اور قبر کا خرچ اس کے ترکہ سے پورا کیا جائےگا ۔ ترکہ کی عدم موجودگی میں یہ مسلمانوں (رشتےدار، ہمسایہ یاکوئی بھی) پر فرض کفایہ ہوگا ۔
-2 ادائیگی قرض:میت اگر مقروض ہے تو تجہیز و تکفین کے بعد جو کچھ ترکہ میں بچا ہے اس مال سے پہلے واجب الادا قرض ادا کیا جائےگا ۔ خواہ مرنے والے نے اپنا قرض ظاہر کر دیا ہو یا مرنے کے بعد کوئی قرض خواہ اپنے قرض کا تقاضہ کرے ،اگرچہ اس کے پاس کوئی گواہ اور تحریری ثبوت نہ ہو تب بھی وہ سب قرض ورثاء کی ذمہ داری ہیںکہ وہ ترکہ سے ادا کریں ۔
-3 وصیت کا نفاذ :تجہیز وتکفین اور قرض کی ادائیگی کے بعد مرنے والے نے اگر مالی وصیت کی ہے تو اسے پورا کیا جائےگا ۔ اس میں یہ خیال رکھا جائےگا کہ وصیت اس باقی مال کے ایک تہائی (1/3) سے زائد نہ ہو ۔اگر وصیت کل بچے ہوئے مال کے تہائی حصے سے زائد ہے تو اسے کم کر کے ایک تہائی حصہ پر لایا جائےگا ۔اللہ تعالی نے قرآن میں وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا ہے:’’ من بعد وصیة یوصی او دین ‘‘ مگر اس پر سب کا اتفاق ہےکہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائےگا ۔ اس میں حکمت یہ ہےکہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمیت دیتے ہیں ،نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی وصول کر لیتے ہیں ،لیکن وصیت پر عمل کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے ۔اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل و تغافل سے کام لیتے ہیں ۔اس لیے وصیت کا ذکر پہلے فرما کر اس کی اہمیت کو واضح کیا ۔

 وصیت کا اصول

رشتہ داروں میں صرف انہی کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے،جنہیں اللہ کے مقرر کردہ حصوں کے مطابق حصہ نہیں ملتا ۔جس رشتہ دار کو وراثت میں سے حصہ ملنا ہے ،اس کے حق میں مالی وصیت کرنا جائز نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 لاوصیة لوارث

( وارث کے حق میں وصیت نہیں۔ )

 میراث میں متبنیٰ کی شرعی حیثیت

متنبی (منہ بولا بیٹا)،عربوں میں یہ رواج تھا کہ کسی دوسرے کے بیٹے کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا جاتا تھا۔ اسے اپنا نام دیا جاتااور متنبی بیٹا اس شخص کا وارث ہو جاتا ۔ یہ رواج بھی اسلام کے ابتدائی ایام میں قائم ودائم رہا ،حتی کہ سورہ احزاب کی آیت 4-5 کے نزول پر اسے منسوخ کر دیا گیا ۔

عاق کی شرعی حیثیت

_ بعض لوگ یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں نے بوجہ نافرمانی اپنے فلاں بیٹے یا بیٹی کو اپنی منقولہ و غیر منقولہ جائےداد سے عاق کر دیا ہے ۔ایسے اعلان یا فیصلے اللہ کے وضع کردہ ضابطۂ میراث کی کھلی نافرمانی ہیں ۔اللہ کا ارشاد ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪- وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَؕ-نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا

(مردوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو اس کے والدین اور قریبی رشتےدار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں حصہ ہے، جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ۔ خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ، اس میں حصہ مقرر کیا ہوا ہے (سورۃ النساء : 07)
محمد صلى الله عليه واٰله وسلم نے فرمایا:
’’ جو اپنے وارث کو وراثت سے محروم کرےگا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کی وراثت سے محروم کرے گا ۔‘‘(مشکوٰة المصابیح)
لہذا، عاق کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کو عاق کرنے کی غلطی کر چکا ہو تو دیگر ورثاء کو چاہیے کہ وہ اس خلاف شریعت فیصلے کی تعمیل نہ کریں، بلکہ اسے حصہ دے کر مرنے والے کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کریں ۔

مانع وراثت

کفر/اختلاف دین :مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوسکتا اور نہ کافر مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے ۔

ان النبی قال :

’’لا یرث المسلم الکافر ، ولا الکافر المسلم.‘‘
(متفق علیہ)

(مسلمان باپ کافر بیٹے کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر بیٹا مسلمان باپ کا ۔)

میراث میں عورت کا حصہ مرد سے کم کیوں؟

اسلام پر یہ اعتراض ہوتا رہا ہےکہ قرآن نے مردو عورت کی میراث کوبرابر کیوں نہیں رکھا ؟ مسلمہ حقیقت ہےکہ اسلام نے محنت وجفاکشی اور معاشی و اقتصادی سر گرمیوں کی انجام دہی مرد پر ڈالی ہے ۔ اسلام نے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے بالکل آزاد رکھا ہے ۔عورت کے اپنے ذاتی خرچ کی ذمہ داری بھی شادی سے پہلے باپ اور شادی کے بعد شوہر پر عائد ہوتی ہے ،
جب کہ شوہر پر اپنے بیوی بچوں اور بسااوقات والدین کے نفقے کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اسلام نے اس لحاظ سے میراث کی تقسیم عدل پر کی ہے، مساوات پر نہیں ۔عدل و مساوات ایک دوسرے کے ہم معنی و مترادف نہیں ۔ اس کی مثال کچھ یوںہےکہ ایک ماں نے اپنے دو بچوں کے لیے سیب خریدا، یہ مساوات ہے، پھر اسے یاد آیا کہ ایک بچے کو سیب سے الرجی ہے تو اس نے اس کے لیے کوئی دوسرا پھل خریدا ،یہ عدل ہے ۔اسلام کی تمام تعلیمات و احکامات فطرت کے مطابق ہیں ۔

 مسلم معاشرے میں لڑکیوں کا میراث سے محروم ہونا

 مسلم معاشرے میں دیگر مذاہب کے اختلاط اور سماجی روایات کی وجہ سے لڑکیوں میں میراث کی تقسیم اب تک نافذ نہیں ہوسکی ۔ اگر کوئی بہن یا بیٹی اپنا حق مانگنے کی جرأت کرتی ہے تو اس کے باپ بھائی ہی اسے غلط سمجھتے ہیں۔اسے یہ باور کرایا جاتاہےکہ تمہاری شادی اور جہیز پر خرچ کی ہوئی رقم میں میراث کا حصہ ختم ہوگیا ۔

 ’’ وَ لِلنِّسَآءِنَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ‘‘

کے ذریعے اللہ نے عورتوں کو میراث میں حصہ دار بنایا ہے ۔ جہیز یا کوئی اور معاملہ میراث کا بدل نہیں ہو سکتا ۔ کوئی حیلہ و بہانہ ، کوئی اصول و قانون اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

اسلام پر یہ اعتراض ہوتا رہا ہےکہ قرآن نے مردو عورت کی میراث کوبرابر کیوں نہیں رکھا ؟ مسلمہ حقیقت ہےکہ اسلام نے محنت وجفاکشی اور معاشی و اقتصادی سر گرمیوں کی انجام دہی مرد پر ڈالی ہے ۔ اسلام نے عورت کو معاشی ذمہ داریوں سے بالکل آزاد رکھا ہے ۔عورت کے اپنے ذاتی خرچ کی ذمہ داری بھی شادی سے پہلے باپ اور شادی کے بعد شوہر پر عائد ہوتی ہے ، جب کہ شوہر پر اپنے بیوی بچوں اور بسااوقات والدین کے نفقے کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اسلام نے اس لحاظ سے میراث کی تقسیم عدل پر کی ہے، مساوات پر نہیں ۔عدل و مساوات ایک دوسرے کے ہم معنی و مترادف نہیں ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے