ملت کا تعلیمی ایجنڈا چند تجاویز[قسط: 1]
زمرہ : اکادمیا

 ملت کے مسائل کا حل پیش کرنے والی مختلف تجاویز میں سب سے زیادہ جس تجویز کو پیش کیا جاتا ہے، وہ ملت میں تعلیم کے فروغ کی تجویز ہے۔ تعلیم کی صدا ہر اس پلیٹ فارم سے گونجتی ہے ،جو ملت کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے بنایا جاتا ہے، لیکن تعلیم کے حوالے سے جتنی گفتگو ہوتی ہے، اس میں بہت کم ہولسٹک اپروچ (Holistic approach) یعنی ہمہ جہت طریقہ ٔتعلیم پر مشتمل ہوتی ہے۔
تعلیم سے متعلق تجاویز میں زیادہ تر زور اس پر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے لیکن جب لفظ ’’تعلیم‘‘ بولا جاتا ہے تو اس سے عام تصور یہی ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو ڈگریوں سے آراستہ کردیا جائے۔ یعنی انہیں خواندہ (Literate) بنایا جائے، نہ کہ تعلیم یافتہ(Educated)۔ ظاہر ہے کہ خواندہ اور تعلیم یافتہ بنانے میں بڑا فرق ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد خواندہ تو ہورہی ہے لیکن تعلیم یافتہ بننے کی رفتار سست ہے۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں صرف خواندگی کو بڑھانے سے نہیں آتیں، بلکہ بڑی تبدیلیوں کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اکثر تعلیمی ادارے نوجوانوں کو خواندہ بنارہے ہیں، تاکہ وہ امپلائیبل (Employable) یعنی روزگار حاصل کرنے کے قابل بن سکیں، اور معاشرے میں بھی یہی تصور ہے کہ ڈگری حاصل کریں گے تو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں گے اور زندگی میں آسودگی آئے گی۔ یہی تصور تعلیم کے حوالے سے عام ہے۔ یہ تصور اور بھی نقصان پہنچاتا ہے جب خواتین اس تصور کو اختیار کرلیتی ہیں۔ اکثر خواتین تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہیں کہ وہ معاشی اور سماجی طور پر بااختیار ہوجائیں۔ یہ سوچ غلط بھی نہیں ہے، تاہم اگر اس میں توازن بگڑ جاتا ہے اور خواتین بھی تعلیم کو محض معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا ذریعہ بنالیتی ہیں تو اکثر خواتین اپنے اصل کردار اور زیورِ حیا نیز نسوانیت کے وقار سے محروم ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً سماج میں خواتین کی تعلیم کا مقصد اکثر ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: ’’…تاکہ لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے ۔‘‘

 اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا مطلب یہاں معاشی اعتبار سے خود کفیل ہونا ہے۔ جہاں یہ صفت ایک عورت کو بااختیار بناتی ہے وہیں وہ خواتین جو اپنے نسوانی فرائض اور ان کی حکمتوں اور تقاضوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتی ہیں، وہ غلطی سے اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہیں۔ ہم نے کئی ایسی تعلیم یافتہ برسرروزگار خواتین کو دیکھا ہے جن کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہے۔ اس ناخوشگواری کی وجہ ان کا یہ تصور ہے کہ میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہوں ۔ یہاں ہم خواتین کی تعلیم کی مخالفت نہیں کررہے ہیں ،بلکہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام کی کم زوری اور سماج میں موجود مقاصد تعلیم کے جھول کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
ذیل میں ہم ملت کے تعلیمی ایجنڈے یعنی تعلیم کے ہمہ جہت نظام (Holistic approach of education)کے منصوبے کو پیش کریں گے۔ اس منصوبے میں طویل المیعاد اور قلیل المیعاد دونوں پروگرام شامل ہیں۔ بعض پروگراموں کی کچھ تفصیلات پیش کی گئی ہیں اور بعض کا محض تعارف دیا گیا ہے۔
فی الوقت ہندوستانی مسلمان تعلیم کو ماضی قریب کی بہ نسبت زیادہ اہمیت تو دے رہے ہیں، لیکن یہ اہمیت یک رخی ہے نہ کہ ہمہ جہت۔ یعنی صرف اتنا ہدف ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ حاصل کیا جائے، اور ڈگریاں اپنے نام کی جائیں۔ لیکن ہمیں اس عمل اور رویے کے بجائے تعلیمی کلچر کو مسلم معاشرے میں متعارف کرانا ہے اور ملت کے درمیان تعلیمی ثقافتی انقلاب برپا کرنا ہے۔ یہ تعلیمی ثقافتی انقلاب ہمہ جہت ہوگا۔ یہ انقلاب جہاں قرون اولیٰ سے اپنی بنیادیں حاصل کرے گا، وہیں مستقبل کو تابناک بنانے کا وژن اپنے اندر لیے ہوئےہوگا۔ یہ آفاقی بھی ہوگا اور ملک کے تناظر میں بھی رہے گا۔ذیل میں ہم اس تعلیمی ثقافتی انقلاب کے کچھ خدو خال پیش کررہے ہیں، یہاں ہم تعلیم کے مقصد پر روشنی ڈالیں گے، علم کی دوئی کے مسئلے کو زیر بحث لائیں گے اور بعض دیگر بنیادی مباحث کو چھیڑیں گے۔

مقصد تعلیم

سب سے پہلے ملت میں مقصد تعلیم اور تعلیم کے وژن کی درستی اور اسے صحیح خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ آج ہمارا تعلیمی نظام ذہن کی صرف ایک ہی صلاحیت اور حافظے کو استعمال کررہا ہے۔ اسکولوں میں معلومات کو حافظے میں بٹھایا جاتا ہے، اور امتحانات میں اسے دوبارہ ذہن سے قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ یعنی طلبہ کو پین ڈرائیو (Pen Drive) بنایا جارہا ہے۔ہمارا سارا تعلیمی نظام ایک مشہور ماہر تعلیم پاولو فریری(Paulo Freire) کے بقول نصاب تعلیم اور امتحانات کا قیدی ہے۔ پورا سماج صرف نمبرات کے حصول کے لیے جدو جہد کرتا ہے۔ نمبرات (Marks) کا حصول ہی تعلیم کا معیار ہے۔ مارکس (نمبرات) کے حصول کو ہی ہم نے تعلیم سمجھ رکھا ہے۔ یعنی تعلیم کے معاملے میں ہم ’’ مارکس وادی ‘‘ ہیں۔اسی ماہر تعلیم کی نظر میں ہندوستانی نظام تعلیم مظلومیت کو فروغ دے رہا ہے۔ ہم برطانوی سامراج کے اسی تعلیمی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں، جو بہترین ’’ بابو ‘‘ پیدا کرتا ہے۔ ان کے بقول تعلیم کو مظلوم افراد کو ان کی مظلومیت سے نکالنے کا ایک اہم ذریعہ ہونا چاہیے۔ تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جو مظلوموں کو ظلم کی چکیوں سے آزاد کرائے، وہیں ظالموں کی اصلاح کا سامان بھی فراہم کرے، تاکہ ظالم یہ سمجھ سکیں کہ دراصل ظلم ایک کم زوری ہے اور ظلم و مظلومیت دونوں ہی انسانیت کے لیے مضر اور ایک خوشگوار سماج کے لیے سب سے بڑا چیلنج بھی ہیں۔
تعلیم کا اصل ہدف انسانوں کے اندر اس اعلیٰ مقصد کے شعور کو بیدار کرنا ہے، جس کے ذریعے انسان بندگی رب کے بلند مقام پر پہنچتا ہے۔ اسلام کی رو سے تعلیم انسان کو ایک حیاتیاتی وجود سے اونچا اٹھا کر اسے ایک عرفانی وجود بناتی ہے۔ یہ عرفانی وجود علم و آگہی کے ذریعے دنیاوی فلاح و کام یابی بھی حاصل کرتا ہے اور اخروی نجات بھی۔ یعنی تعلیم کےہمارے مقاصد دو ہوتے ہیں، ایک قلیل المیعاد اور دوسرا طویل المیعاد۔
قلیل المیعاد مقصد کے تحت علم کے ذریعے اس دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور طویل المیعاد مقصد کے تحت دنیا سے آخرت تک پھیلی ہوئی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے تزکیہ ٔنفس کے اصولوں کو سیکھا جاتا ہے۔ اگر طلبہ کو صرف معاشی حیوان بنانے کے لیے تعلیم کا عمل جاری ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم تعلیم کے ادنیٰ تر مقصد کوہی حاصل کرپارہے ہیں۔ آج تعلیم کا یہ ہمہ جہت مقصد مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اس مقصد کو دوبارہ سماج میں جاری کرنا ہے۔ہمارا تعلیمی نظام ذہن کے حافظے سے ہی نکلتا ہے اور اسے ہی عمل میں لاتا ہے، جب کہ تعلیم کو مرکزِ شعور سے نمودار ہونا چاہیے اور دل سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے، لیکن یہ عام طور پر نہیں ہورہا ہے۔
ملت میں تعلیم کے حوالے سے دوسری بڑی کم زوری، تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ ملت نے تعلیم کا ایک حصہ دنیوی تعلیم ( عصری تعلیم )
قرار دیا ہے اور دوسرا حصہ دینی تعلیم۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان دونوں حصوں کی تعریف و توضیح بھی ملت میں بڑی محدود ہے۔ دنیوی تعلیم کو ملی لٹریچر میں سیکولر تعلیم اور عصری تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ عصری تعلیم کو ہم نے معاش سے جوڑ دیا ہے۔ عصری تعلیم کا حصول نیکی کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے۔ عصری تعلیم کو سیکولر تعلیم اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آفاق و انفس کی تعلیم کو مغرب اپنے انداز سے مزین کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، اور اس تزئین کاری میں آفاق و انفس کے علم کے اُس اہم پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو تعلیم کی اصل روح ہے۔ یعنی یہ کہ اس علم کا منبع خالق کائنات ہے۔ عصری علم، جسے سیکولر دنیا انسانوں کے سامنے پیش کرتی ہے، اس کا تعلق صرف محسوسات سے ہے۔ ماورائے طبیعت سے اس کا واسطہ نہیں ہوتا۔ ملت کے ایک بڑے طبقے نے بھی علوم کے اس غیر روحانی نظریے کو بڑی حد تک قبول کرلیا ہے۔ چنانچہ علوم دنیا سے معرفت الٰہی کا عظیم کام نہ تو لیا جارہا ہے اور نہ ہی اس کا شعور ملت کے باشعور طبقے میں پایا جاتا ہے۔
آج بھی فلسفہ اور ماورائی حقائق کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ماورائی حقائق(Transcendental knowledge)کے بغیر علم ادھورا رہتا ہے۔ اسی نظریے کو اب سیکولر دنیا بھی مانتی ہے اور مان کر اسے ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن (Holistic approach of education) قرار دیتی ہے۔ ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن کو‘‘Benjantf bloof’’دل اور دماغ کی تعلیم کہتا ہے۔اس کے نزدیک دل کی تعلیم کا مطلب سماجی صلاحیتیں ہیں، جب کہ ہم ان سماجی صلاحیتوں کو اسی کی زبان میں ٹرانسی ڈینٹل ویلوز یا آفاقی قدریں کہتے ہیں۔بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءبھی نظام تعلیم کے تحت ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن یعنی علم کا ہمہ جہت تصور کو قبول کرتی ہے۔اس بحث کے بعد ہم یہ طے کریں کہ ہم اپنے طلبہ کو دو مقاصد کے تحت تعلیم دیں گے:
(الف) ہمارے طلبہ اپنے حقیقی مقصد زندگی کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کے اصول و ضوابط کا علم حاصل کریں۔ یعنی ان کی زندگی اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنے۔ ہمارے ملک میں ہماری نسل اسلام کی سفیر بنے۔ خیر امت بن کر سماج میں خیر پھیلائے۔ انسانوں کی خدمت کرے اور قدرتی وسائل کی بہتر نگہداشت کرے۔
(ب) ہماری نسل تعلیم کے ہر شعبے میں مہارت حاصل کرے۔ مختلف پروفیشنل و غیر پروفیشنل تعلیم کی اونچائیوں تک پہنچے، ریسرچ اور ٹکنالوجی کے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری و غیر سرکاری شعبوں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کی انتھک کوشش کرے۔ مختلف مسابقتی امتحانات میں حصہ لے۔ الغرض اس ملک میں اپنے آپ کو علم کے میدان میں سب سے اونچے مقام پر لے جائے۔

علم کی دوئی

 ملت اسلامیہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں علم کی دوئی کا شکار ہے۔ یعنی تعلیم کو دو بالکل الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ دینی تعلیم اور عصری یا سیکولر تعلیم۔ملت کے عروج و زوال کا جائزہ لینے والے اکثر دانش وران بشمول مولانا مودودیؒ ،علم کی دوئی کو ملت کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب قرار دیتے ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قرون اولیٰ میں بلکہ قرون وسطیٰ تک بھی دینی اور دنیوی تعلیم کی کوئی تقسیم، اسلامی تعلیم کی روایات میں نہیں پائی جاتی تھی۔قرون اولیٰ کی جو تعلیمی روایات ہیں ،ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرون اولیٰ کے تعلیمی نظام میں جن مضامین کو اہمیت حاصل تھی، ان میں عقیدہ، قرآن، شریعت، فقہ، اخلاقیات، انتظامی امور اور معاشی حصول کے لیے بعض فنون اور فنون لطیفہ شامل تھے۔ رفتہ رفتہ علم کی نئی شاخیں وجود میں آنے لگیں، تو اسلامی ریاستوں میں تعلیم کا جو نظام قائم تھا، ان میں ان شاخوں نے جگہ پائی۔
اموی اور عباسی دور میں تعلیمی اداروں کا قیام ہوا تو ان اداروں میں سائنس اور فلسفے کی تعلیم بھی دی جانے لگی۔ بھارت میں تعلیمی نظام کی تاریخ کے چار اہم ادوار گزرے ہیں:

 (1) ویدک دور

 ویدک دور میں علم کے حصول کا موقع صرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں (برہمنوں) کو ہی حاصل تھا۔ برہمنوں کے علاوہ دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ویدوں کی تعلیم حاصل کرنےکی ممانعت تھی ،بلکہ اگر کوئی اس روایت کو توڑتا تو اسے شدید سزائیں دی جاتی تھیں۔ اس دور میں علم ویدوں کی تعلیم کی حد تک ہی محدود تھا۔جن مراکز میں ویدوں کی تعلیم دی جاتی تھی، اسے گروکل کہا جاتا تھا۔

 (2) بدھسٹوں کادور

 بدھ مذہب کے ماننے والوں نے مٹھ قائم کیے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے قائم کیے، جیسے ٹکساشیلا اور نالندہ یونیورسٹی وغیرہ، ان اداروں میں تمام طبقات کو علم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔بدھ مذہب کے ان تعلیمی مراکز میں بھی زیادہ تر تعلیم مذہب کی ہی دی جاتی تھی۔ مذہب کے علاوہ چند قدیم علوم جیسے علم فلکیات، ریاضی اور طب کے علاوہ علم نجوم اور جغرافیہ کی تعلیم کے بھی کچھ ثبوت ملتے ہیں۔

 (3) مسلم دور

 اس کا آغاز بارہویں صدی سے ہوتا ہے، اور اختتام انگریزوں کے ہمارے ملک پر قبضے تک رہتا ہے۔ اس دور کی تعلیمی روایات بتاتی ہیں کہ اس دوران ملک میں تین طرح کے علوم رائج تھے۔ ایک مکاتب، دوسرے مدارس اور تیسرے ہندو تعلیمی مراکز جنہیں بدھ مذہب اور ہندوؤں کے اعلیٰ طبقات چلاتے تھے۔ مکاتب بنیادی طور پر مسجدوں یا دینی مدرسوں میں قائم تھے، جب کہ جدید تعلیم کے مراکز کو اس زمانے میں بھی مدارس کہا جاتا تھا۔ مکاتب میں دینی تعلیم کا انتظام ہوا کرتا تھا، تو مدارس میں اس دور کی دینی و جدید دونوں طرح کی تعلیم کا انتظام ہوتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس دور کے مدارس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، علم فلکیات اور طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔
طب میں بالخصوص یونانی طریقۂ علاج کو مسلم دور میں کافی فروغ حاصل ہوا۔ جب کہ بدھسٹ اور ویدک دور میں آیوروید کو مقبولیت حاصل تھی۔ آیوروید کے مشہور وید جس میں چرک بھی شامل ہیں، اسی دور کے ویدوں میں سے ایک تھے۔
مدارس میں زراعت کی تعلیم، فوجی تربیت، حکومت کے انتظامی امور کو چلانے کی مہارت، سماج کے لیے ضروری ہنر، فنون لطیفہ اور ادب جیسے مضامین بھی مدارس کے نصاب میں شامل تھے۔

(4) برطانوی سامراج کادور

 اس دور میں تعلیمی نظام کو پوری طرح بدل دیا گیا تھا۔ مغربی طرز تعلیم عام ہونے لگی تھی۔ برطانوی حکومت نے مدارس کو دی جانے والی امداد پر کنٹرول کیا اور مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات بھی ہونے لگی تھی۔ مدارس اسلامیہ میں برطانوی حکومت کی مخالفت کو بہت زیادہ ہوا دی جاتی تھی، یہاں تک کہ اس نظام میں آزادی کو ایک دینی فریضہ قرار دیا گیا اور مغربی نظام تعلیم اور وہ مضامین جو مغربی نظام تعلیم میں رائج تھے، مدارس میں ممنوع قرار پائے۔ مغربی مضامین نہ پڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی تھی کہ اس سے ایمان کم زور ہوگا۔ اس دور میں مغربی کلچر کو برطانوی حکومت فروغ دے رہی تھی، تو یہ خدشہ مسلمانوں نے محسوس کیا تھا کہ اس تہذیبی یلغار کی وجہ سے مسلمانوں کا اسلامی تشخص خطرے میں پڑ جائے گا ۔
اس لیے اس دور کے علمائے کرام نے ایسے مدارس کو زیادہ سے زیادہ قائم کیا، جہاں دینی علوم کو پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن ان مدارس میں ان طلبہ کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس زمانے کے کچھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہی کلچر پورے مسلم سماج میں عام ہوگیا اور تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اب مدارس اسلامیہ میں اگر عصری علوم پڑھائے جانے کی بات کی جاتی ہے تو ذمہ داران مدارس کہتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں جب عصری علوم کو پڑھانے کی بات ہوتی ہے، تو کیوں نہیں عصری علوم کے اسکولوں میں دینی تعلیم کی بات کی جانی چاہیے؟
یہ دلیل صحیح ہے اور اسی دلیل کے جواب میں مولانا مناظر احسن گیلانی نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ مسلمان طلبہ کے لیے میٹرک تک بنیادی عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے،جس میں انگریزی زبان، ریاضی اور سائنس جیسے مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی تعلیم کا انتظام دسویں جماعت تک ہونا چاہیے۔ دسویں جماعت کے بعد طلبہ کو یہ آزادی دی جائے کہ یا تو وہ عصری علوم کی طرف آگے بڑھیں یا پھر دینی علوم حاصل کرنے کے لیے عالمیت، فضیلت و دیگر تخصصات میں حصہ لیں۔ لیکن آج بھی تعلیم کی صورت حال ویسی ہی ہے جیسی کہ ملک کی آزادی سے پہلے تھی۔ تعلیم کے میدان میں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ عصری اسکولوں میں نصاب تعلیم اور عمل تدریس میں نت نئی تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن مدارس اسلامیہ میں ایک عرصہ دراز سے تبدیلی نہیں ہوسکی۔ یہاں تبدیلی کا مطلب ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ کی بنیادی اسپرٹ کو تبدیل کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ بلکہ مدارس اسلامیہ کی بنیادی اسپرٹ کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے کی بات ہورہی ہے تاکہ مدارس اسلامیہ سے نکلنے والے علماء کرام اپنے زمانے کے مرجع خلائق بنیں۔
ہولسٹک ایجوکشن بورڈ اس جہت میں کام کررہا ہے۔ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے گفتگو ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ورکشاپ بھی منعقد کیے گئے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ بعض ریاستوں میں سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بے چین ہیں کہ کس طرح مدارس میں عصری علوم کو رائج کریں۔ان دنوں مدارس اسلامیہ اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءکے عنوان پر مباحث جاری ہیں۔ ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 ءراست طور پر مدارس اسلامیہ میں اصلاحات کی بات نہیں کرتی اور نہ ہی مذکورہ پالیسی میں مدارس اسلامیہ کے لیے کوئی پروگرام پیش کیا گیا ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

 اکثر خواتین تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہیں کہ وہ معاشی اور سماجی طور پر بااختیار ہوجائیں۔ یہ سوچ غلط بھی نہیں ہے، تاہم اگر اس میں توازن بگڑ جاتا ہے اور خواتین بھی تعلیم کو محض معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا ذریعہ بنالیتی ہیں تو اکثر خواتین اپنے اصل کردار اور زیورِ حیا نیز نسوانیت کے وقار سے محروم ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً سماج میں خواتین کی تعلیم کا مقصد اکثر ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے: ’’…تاکہ لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے ۔‘‘
اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا مطلب یہاں معاشی اعتبار سے خود کفیل ہونا ہے۔ جہاں یہ صفت ایک عورت کو بااختیار بناتی ہے وہیں وہ خواتین جو اپنے نسوانی فرائض اور ان کی حکمتوں اور تقاضوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتی ہیں، وہ غلطی سے اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہیں۔ ہم نے کئی ایسی تعلیم یافتہ برسرروزگار خواتین کو دیکھا ہے جن کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے