لیٹمس ٹیسٹ

’’میری زندگی کا تو اب یہی مقصد ہےکہ اللہ کےدیے ہوئے مال سے اس کے غریب بندوں کی مدد کروں ،اسی لیے میں نے اپنی زندگی سوشل ویلفیٔر کے لیے وقف کردی ہے، اور چاہتی ہوں تم بھی میرا اس کارِِخیر میں ساتھ دو۔‘‘مسز افتخار اپنی ایک پرانی سہیلی سے فون پر محوِگفتگو تھیں، جو ان سے ملاقات کے لیےکچھ وقت مانگ رہی تھی ۔
’’ارے پگلی! میں کیا اتنی معروف شخصیت ہوں جو تم مجھ سے ملنے کے لیے بھی وقت مانگ رہی ہو؟لیکن آج میں واقعی مصروف ہوں ،آج دو بجے مجھے غریبوں میں راشن اور کپڑے تقسیم کرنے ہیں۔ تم شام تک آجاؤ، میں انتظار کروں گی ۔اللہ حافظ!‘‘
ملازمہ جو بہت دیر سے مسز افتخار کے فون رکھنے کا انتظار کررہی تھی، فون رکھتے ہی بولی:’’بیگم صاحبہ!‘‘
’’ہوں ! اب بول بھی چکو ،کب سے میرے سر پر سوار ہو۔‘‘ان کی ساری شیریں بیانی پل میں غائب ہوگئی تھی ۔
’’بیگم صاحبہ! دراصل مجھے کل اپنی بیٹی کی اسکول فیس ادا کرنی ہے ،اگر کل نہ دوں تو وہ میری بچی کو اسکول سے نکال دیں گے ۔آپ تو ہرغریب کی مدد کرتی ہیں، میری بھی مدد کریں، میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔‘‘جملے کے اختتام تک ملازمہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئ تھیں۔
’’جب فیس ادا کرنے کی تمہاری حیثیت نہیں تھی ،تو تم نے بیٹی کو سرکاری اسکول میں ایڈمیشن کیوں نہیں دلوایا؟میرے پاس خزانے نہیں رکھے ہوئے ہیں کہ میں تم لوگوں پر خرچ کروں، اب ہٹو سامنے سے ۔اونہہ! آجاتے ہیں منہ اٹھاکر مانگنے۔‘‘ مسز افتخارنے نخوت سے کہتے ہوئے اپنےقدم کمرے کی جانب بڑھا دیے تھے اور ملازمہ نے اپنےشکستہ قدم کچن کی طرف۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Sadia waheed

    Talkh Haqeeqat

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے