بچوں کی ذہانت کا فروغ

عام طور پر والدین اپنے بچوں کے بہتر تعلیمی نتائج سے متعلق بہت سی توقعات وابستہ رکھتے ہیں اور دوسرے بچوں کے نتائج دیکھ کر اپنے بچے کا تقابل کرتے ہوئے فکرمند رہتے ہیں،یوں بچوں کا رزلٹ غیر محسوس طریقے سے والدین کے لیے خود ایک چلنج بن جاتا ہے۔
موجودہ دور میں تعلیم برائے روزگار کے تصور نے والدین کو اس قدر خائف بنادیا ہے کہ تعلیم کا مقصد معدوم ہوگیا۔اب صرف پرسنٹیج اسکور ہی ان کے مستقبل کی ضمانت بن چکا ہے۔بچوں کو والدین اپنی ذات کا ضمیمہ محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے نامکمل خواب وہ بچوں سے مکمل کروائیں۔اس معاملے میں سختی برتنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ان کی اپنی دانست میں یہ سختیاں یا بچے پر تعلیم کا بوجھ بچوں کے حق میں بھلائی ہے،بہتر مستقبل کے لیے یہ سب کچھ تربیت کا حصہ ہے۔نتیجۃً بچوں کی حالت دگرگوں ہوتی ہے،وہ والدین کی توقعات سے گھبرا جاتے ہیں یا اس مسابقتی امتحان کو کوالیفائی کر بھی لیں،تو ان کی فزیکل اور سوشل شخصیت مجروح ہو کر رہ جاتی ہے ۔
بیشتر والدین کی توقعات کی عدم تکمیل طلبہ اور والدین دونوں کو مایوسی کا شکار بنادیتی ہے،گھروں سے سکون رخصت ہوجاتا ہے ۔
فن پرورش پر ایک منفرد کتاب جس کے مصنف ایس امین الحسن صاحب نے بچوں میں ذہانت کا فروغ گارڈنر کی تھیوری Theory of : multiple intelligence کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔زیر نظر کتاب والدین کے لیے سوچ کے نئے در وا کرتی ہے۔
والدین کی نگاہ میں اپنے بچے کو قیمتی محسوس کرواتی ہے،بچوں میں توقعات کے علی الرغم بچوں کی خوابیدہ صلاحیت کے مطابق رویہ روا رکھنے پر رہنمائی کرتی ہے۔

یہ کتاب 150 صفحات پر مشتمل ہے۔وائٹ ڈاٹ پبلشر نے اس کتاب کو خوبصورت،جاذب نظر اور رنگین طباعت کے ساتھ پبلش کیا ہے۔اس کے مصنف ایس امین الحسن ہیں۔
فاضل مصنف ایس امین الحسن پیشے سے سول انجینیئر ہیں،اور ایک معروف مقرر،خطیب، ٹریز،کاؤنسلر اور ماہر نفسیات ہیں۔ وہ سر ٹیفائیڈ این ایل پی ٹریز اور ایموشنل سپورٹ اینڈ گائیڈنس کے ماہر بھی ہیں۔ آپ قرآنی علوم میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں اور گذشتہ۳۰ برسوں سے لیکچرز کی صورت میں قرآن پاک کی مکمل تفسیر پیش کر رہے ہیں۔
یہ کتاب پرنٹنگ کی دنیا میں اردو قارئین کے لیے ایک خوبصورت و کار آمد اضافہ ہے ۔یہ کتاب قاری کے ذہن کو نئے طرز پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔
انسان کی طرح انسان کا بچہ بھی ایک جیتا جاگتا وجود رکھتا ہے۔وہ والدین کا miniature نہیں،وہ اپنے آپ میں ایک مکمل شخصیت ہے،وہ والدین کا ضمیمہ یا والدین کی بقیہ زندگی جینے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔اس کو اللہ رب العالمین نے دنیا ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔
اس کتاب کی خوبی ہے کہ یہ کتاب مکمل ہونے کے بعد والدین کا نظریہ بدل جاتا ہے،ان کے سامنے اپنا بچہ بےشمار صلاحیتوں کے ساتھ سامنے ہوتا ہے،مایوسی کی گرد صاف ہوتی ہے،وہ نئے زاویے سے سوچنے لگتے ہیں ۔
فاضل مصنف پیش لفظ میں رقمطراز ہیں:
’’ملکی سیٹ پر میڈیکل کالجوں میں تقریباً 80 ہزار سیٹیں ہوتی ہیں،جب کہ اس کے داخلہ ٹیسٹ نیٹ (NEET)میں بیٹھنے والوں کی تعداد 16 لاکھ سے کم نہیں ہوئی۔ان میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہوتی ہے جو یہ امتحان دوسری یا تیسری مرتبہ دیتے ہیں،اور بعض بچوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ چھ مرتبہ امتحان دینے کے بعد کام یاب ہو‘‘ ۔ اسی طرح 12 لاکھ طلبہ انجینیئر تک کا امتحان دیتے ہیں۔ تقر یباً ڈھائی لاکھ طلبہ آئی آئی ٹی کے ایڈوانس ٹیسٹ میں شریک ہوتے ہیں،مگر ان میں چالیس ہزار طلبہ ہی کام یاب ہو پاتے ہیں۔طلبہ کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے،جس کے اندر ان امتحانات کو پاس کرنے یا ان کورسوں کو کر نے کا میلان نہیں ہو تا یاوہ اس کی استعداد نہیں رکھتے۔
والدین یا خاندان کے دباؤ میں وہ یہ امتحان دیتے ہیں،اور بعض مرتبہ دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بچے ڈپریشن تک کا شکار ہو جاتے ہیں۔کئی طلبہ کی میں نے خود کاؤنسلنگ کی ہے ۔حالانکہ بار ہویں جماعت کے بعد ایک طالب علم کو اپنے مستقبل کے سلسلے میں اگر فیصلہ لینے میں دشواری ہو رہی ہو،یا والدین جاننا چاہیں کہ ان کے بچے کے لیے تعلیم کا کون سامیدان مناسب ترین ہوسکتا ہے؟تو انھیں چاہیے کہ کسی ماہرتعلیمی کاؤنسلر سے اپنے بچے کی کاؤنسلنگ کروائیں۔ کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں تکنیکی اعتبار سے تین پہلوؤں کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔‘‘
اسی طرح مصنف نے ذہانت کے فروغ کے لیے بہترین اور مدلل انداز میں والدین کو سمجھایا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ذہانت کو بڑھا سکتے ہیں ۔ لکھتے ہیں:
’’بچوں کی ذہانت بڑھائی جاسکتی ہےذہنی استعداد کے لحاظ سے دنیا میں آنے والا ہر بچہ برابر ہے۔اللہ تعالی نے کسی کو زیادہ ذہین اور کسی کو کم ذہین پید انہیں کیا۔ سب کی ذہنی استعداد یکساں ہے،مگر ذہانت جس چیز کا نام ہے وہ استعمال سے بنتی اور تعمیر ہوتی ہے۔ انسانی ذہانت کا مصنوعی ذہانت سے موازنہ کر کے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح مصنوعی ذہانت وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء کر تی ہے،اسی طرح انسانی ذہن کو بھی اہتمام کے ساتھ ترقی دینے کی کوشش کی جائے،تو اس کی استعداد کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔ دماغ کی ساخت اور اس کی ترقی کے ابتدائی ایام میں اس کی ذہانت کو بڑھایا جا سکتا ہے،اور یہ دوران حمل سے پیدائش کے بعد ابتدائی پانچ سے دس برسوں کے اندر اندر ہو نا چاہیے۔ یہ ابتدائی ایام بچے کے سیکھنے کے ہوتے ہیں۔‘‘
اس کتاب میں مصنف نے آٹھ ذہانتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بچوں میں آٹھ طرح کی ذہانتیں ہوتی ہیں:لسانی ذہانت ،منطقی و ریاضیاتی ذہانت ،
بصری و مکانی  فہم ذہانت ،موسیقی اور آہنگ کی سمجھ بوجھ ، جسمانی و عضلاتی حس ، فطرت پسند طبعیت ، فرد شناسی کا جوہر ، خود شناسی کی صفت؛ان آٹھ انسانی ذہانت کے ودیعت ہونے پر دلائل دیتے ہوئے ان کی اس ذہانت کی شناخت اور اسے پروان چڑھانے کی کوشش کرنے پر والدین کو مشورے دئیے ہیں۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فاضل مصنف نے بچے کی ذہانت کو پروان چڑھانے اور اس سے جڑے پیشوں پر بھی رہنمائی کی ہے ۔
ان کی ذہانت کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے گھر کا ماحول،والدین اور سماج کی تعاون کی شکلیں بیان کی ہیں۔قرآن و حدیث سے ان صلاحیتوں کے اشارے و حوالے مستنبط کرتے ہوئے ان شخصیات کی مثالیں پیش کی ہیں،جن کے والدین اپنے بچوں کی صلاحیت ادراک رکھتے تھے اور انہیں درجۂ کمال تک پہنچانے میں معاون بھی بنے ہیں۔
مصنف نے اس کتاب میں بچوں کی صلاحیت کی شناخت کے حوالے سے سوال نامے اور کچھ مشقیں بھی پیش کی ہیں ۔گویا کہ ایک قاری کے لیے اپنے بچے کی شناخت کے مرحلے کو بھی مصنف نے کسی حد تک آسان بنانے کی کوشش کی ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

3 Comments

  1. Ammar yaseer

    Asssalamualaikum
    Yeh book kaha mile gi

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      وائٹ ڈاٹ پبلشر سے حاصل کرسکتے ہیں اس نمبر پر رابطہ کیجیے
      8447622919

      Reply
  2. مبشرہ فردوس

    وائٹ ڈاٹ پبلشر سے حاصل کرسکتے ہیں اس نمبر پر رابطہ کیجیے
    8447622919

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے