تعارف
افیم ایک پوداہے،جو Papever sumniferun کے بیج کو پیس کر حاصل کیا جاتا ہے، افیم میں تقریباً بیس مختلف مرکبات ہوتے ہیں ،جن میں مارفین Morphine سب سے زیادہ مشہور ہے۔ ہیروئن Diactyl morphine مارفین پر کیمیائی عمل کر کے تیار کی جاتی ہے۔ اسی طرح کوڈین بھی مارفین سے تیار کی جاتی ہے، جو اکثر کھانسی کی دواؤں میں استعمال کیا جانے والا مرکب ہے۔
افیم کے پودے کی کاشت افغانستان، پاکستان ، ہندوستان برما اور لاوس جیسے ممالک میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے ، اس لیے ان ممالک میں اس کے عادی افراد کافی تعداد میں ملتے ہیں اور جہاں سے یہ مختلف شکلوں میں یورپ اور امریکہ اسمگل کی جاتی ہیں۔
امکانات
ہیروئن کے نشے کی عادت عام طور پر نو جوان مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ہیروئن کے عادی افراد صرف بڑے شہروں اور خاص طور پر دہلی، ممبئی، اور شمال مشرقی سرحدی ریاستوں اور پنجاب میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
چھوٹے شہروں میں اور دیہی علاقوں میں افیم کی گولیاں کھانے والے افراد ہوتے ہیں ، افیم کی گولیاں ہر عمر کے افراد کھاتے ہیں، کچھ خواتین اپنے شیر خوار بچوں کو سلانے کےلیے ان کو افیم پلاتی ہیں، اور نادانستہ طور پر ان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں۔ دیہاتوں میں کافی افراد افیم کے پودے کے بونڈوں کو ابال کر اس کا جوشاندہ پیتے ہیں ۔ ٹرک ڈرائیور جو لمبے راستے کی گاڑیاں چلاتے ہیں، وہ بھی افیم کی گولیاں کھاتے ہیں ، اسی طرح بد قماش عورتیں بھی اس کی عادی ہوتی ہیں۔
بڑے شہروں میں اکثر لڑکے لڑکیاں کالج کی زندگی میں اپنے دوستوں کی صحبت میں اپنے آپ کو ماڈرن بتانے کی کوشش میں ہیروئین کا نشہ شروع کرتے ہیں ،اور آہستہ آہستہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر عورتیں بہت کم اس نشہ کی عادی ہوتی ہیں،تاہم پچھلے کچھ برسوں میں لڑکوں اورلڑکیوں میں آزادانہ میل جول اور لڑکیوں کی اپنے آپ کو مردوں سے کم نہ ثابت کرنے کی حرص کی وجہ سے آج کل جنس لطیف بھی اس نشے کی عادی ہوتی جارہی ہے۔
اسلام میں نشہ حرام ہونے کی وجہ سے ہیروئن کے نشےکےعادی مسلمانوںمیں کم پائے جاتے ہیں، تاہم اکثر جہالت کی بناء پر عام مسلمان جس طرح شراب سے بچتے ہیں، اسی طرح ہیروئن کے نشے سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے وہ اس نشہ کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں جہاں نشہ آور اشیا کے استعمال پر سخت پابندی ہے ،وہاں ان اشیاء کی تجارت میں ملوث افراد کو موت کی سزادی جاتی ہے۔ ایسے ممالک میں ہیروئن کے نشہ بازوں کی تعداد کافی کم ہوتی ہے۔
ہیروئن ہندوستان میں گرد یا براؤن شوگر کے نام سے جانی جاتی ہے، اور اس کے عادی افراد اس کے اتنے عادی ہو جاتےہیں کہ اگر گردخریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہ ہوں ،تو وہ جرم کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور ہر صورت میں اپنی عادت کو پورا کرتے ہیں۔
کچھ افراد گرد کو جلا کر اس کا دھواں سونگھتے ہیں۔ دوسرے ایک طریقہ میں گرد کو نس میں انجکشن کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے، ایسے افراد عام طور پر گندی اور دوسرے کے ذریعے استعمال کی ہوئی سوئی اور سرنج استعمال کرتے ہیں، کیونکہ پیسے کی کمی کی وجہ سے ایک ہی سوئی اور سرنج سے کئی افراد انجکشن لیتے ہیں ۔ اس وجہ سے وائرس سے ہونے والی بیماریوں مثلاً ایڈز اور دیگر امراض مثلاً Hepatitis پھیلنے کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا فرد جب اپنی شریک حیات سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے ،تو ایڈز جیسا موذی مرض اس بے گناہ کو لاحق ہو جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے افراد او باش اور جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں،اس لیے وہ طوائفوں سے جنسی تعلقات قائم کر کے ان میں بیماری داخل کرتے ہیں، اور ان کے پاس آنے والے حضرات یہ مرض حاصل کرتے ہیں اس طرح یہ گردولے ایڈز کوز نجیری عمل(Chain Reaction)کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ افراد تک پھیلاتے ہیں۔ ایسے افراد اغلام بازی کے ذریعہ بھی یہ مرض پھیلاتے ہیں۔
افیم نوشی کی وجوہات
عام طور پر غریب اور ان پڑھ افراد ہیروئن کو ایک تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس نشہ سے نمٹنے کےلیےدرکار سیاسی قوت ارادی کی کمی اور مجہول انتظامیہ کی وجہہ سے ہیروئن بہت سے شہروں میں اور سرحدی علاقوں میں بڑی آسانی سے دستیاب ہیں ،اس لیے وہاں بہت سے افراد اس کے عادی بن جاتے ہیں۔ اس لعنت کے شکار افراد وہاں زیادہ پائے جاتے ہیں،جہاں ہیروئن آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔ اسی لیے شہروں میں گردولے زیادہ ملتے ہیں۔
پہلے عام طور پر نچلے طبقہ کے افراد اس لت کے شکار ہوتے تھے۔ آج تقریباً تمام طبقات کے افراد اس کے عادی ہورہے ہیں۔ جو افراد دیگر نشہ آور اشیاء مثلاً شراب، گانجہ، بھنگ کا استعمال کر رہے ہوں ،وہ ہیروئن استعمال کرتے ہیں اور اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کو دواؤں کے طور پر استعمال کیے جانے والے افیم کے مرکبات مثلاً مارفین زیادہ ملتے ہیں ۔اس لیے ڈاکٹر ان مرکبات مثلاً مارفین ویٹھیڈن کے عادی ہو جاتے ہیں۔
شہری علاقوں میں پائے جانے والے ہیروئن کے عادی افراد عام طور پر ٹوٹے ہوئے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور خاندان میں نفسیاتی سکون نہ ہونے کی بناء پر وہ لوگ نشےکی دنیا میں بھٹک جاتے ہیں۔ جن خاندانوں میں پہلے ہی کوئی شرابی یا نشہ کا عادی موجود ہو وہاں کے نوجوانوں میں ہیروئن کی عادت ہونے کے امکانات غلام بن جاتے ہیں۔
افیم کے عادی90 افراد نفسیاتی امراض کے شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر Depression کے مریض ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ وہ بے چینی ، شراب نوشی اور سماج مخالف شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تقریباً 130 ہیروئن کے عادی افراد کم از کم ایک مرتبہ خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔
افیم کے اثرات
افیم کے مرکبات خاص اعصابی مقام پر جڑ جاتے ہیں، اور ان کے ذریعہ اپنے اثرات دکھاتے ہیں۔ سب سے تیز اثر دکھائی والا مرکب ہیروئن ہے، جو آسانی خون سے دماغ میں داخل ہے اور اپنا اثر کھاتا ہے۔ افیم کے مرکبات کے مسلسل استعمال سے مخصوص مقامات Receptor کی تعداد میں تبدیلی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے فردا فیم کا عادی ہو جاتا ہے، اگر مرکب مخصوص مقام سے نکالا گیا یا مرکب کم ہو جاتا ہے تو مریض کو تکلیف ہونے لگتی ہے اور مخصوص علامات ظاہر ہوتی ہیں، اس کیفیت کو Withdrawal syndrome کہاجاتا ہے۔ اگر کوئی فرد چار مرتبہ افیم کا کا استعمال کرے تو وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے، تاہم یہ چھوڑنے کے بعد ہونے والی علامات عرصہ تک اس کے استعمال کے بعد دکھائی دیتی ہیں۔
عام طور پر ہیروئن کا پاؤڈر چاندی یا المونیم کے ورق پر رکھ کر اس کو جلایا جاتا ہے، اور اس کے دھویں کا کش لیا جاتا ہے۔ افیم کے جسم میں داخل ہونے کے بعد افیمی کوتکلیف کا احساس کم ہو جاتا ہے ، وہ مست ہو جاتا ہے ، اس کے دماغ کی کا رکردگی کم ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ گرمی، ہاتھوں پیروں میں بھاری پن ، منہ میں سوکھا پن جیسی علامتیں پائی جاتی ہیں۔ کچھ مریضوں کو بے حد خوشی ہوتی ہے اور وہ باتونی ہو جاتے ہیں، ان کی قوت فیصلہ متاثر ہوتی ہے وہ کسی بات پر دھیان دے نہیں پاتے ہیں، ان کی زبان تو تلی ہو جاتی ہے۔ جو افراد گرد بذریعہ نس جسم میں داخل کرتے ہیں، وہ بہت جلد تیز نشہ محسوس کرتے ہیں، اس کے بعد فرد پر کچھ دیر کے لیے جنون طاری ہو جاتا ہے، یہ مارفین لینے کے بعد اس کا راست اثر دماغ میں موجود عمل تنفس کے مرکز پر پڑتا ہے ، جس کی وجہ سے سانس رک کر فرد کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ مارفین سے آنکھوں کی پتلی سکڑتی ہے اور جسم کے کچھ اعضاء سکڑ جاتے ہیں۔ جو خواتین ہیروئن کا نشہ کرتی ہیں ان کو پیدا ہونے بچوں میں سے 75% Withdrawal syndrome کی کیفیت پیش کرتے ہیں۔
اگر کوئی فرد افیم کا بے حد استعمال کرتا ہے، تو اس کا جلد از جلد علاج کروانا چاہیے، تا کہ اس کی جان بچائی جا سکے، ایسے وقت مریض کا عمل تنفس بے انتہا سست ہو جاتا ہے مریض نیم بےہوشی کی حالت میں ہوتا ہے، ایسے وقت میں مریض کے سانس کے راستے صاف کیے جاتے ہیں اور اس کو .I.V Fluids دیئے جاتے ہیں ۔ ایسے وقت افیم کی مخالف دوا Nalaxone 0.4mg بزریعہ نس دی جاتی ہیں جو آدھے گھنٹے میں 5مرتبہ دوہرائی جاتی ہے۔
افیم چھوڑ نے کے اثرات
مارفیم اور ہیروئن کے عادی افراد عام افراد کے مقابلے کئی گنا زیادہ مقدار برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی فرد کم از کم ایک ہفتہ مسلسل ہیروئن لے رہا ہو اس کے بعد اچانک چھوڑ دے تو آخری مرتبہ لینے کے بعد تقریباً 6 گھنٹہ بعد اس کی تکلیف شروع ہوتی ہے اور اس کے اوپر Withdrawal syndrome کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ تکلیف دوسرے دن بہت زیادہ ہوتی ہے، اور تقریباً ایک ہفتہ تک ہوتی ہے، تاہم کچھ علامتیں تقریبا ً6 ماہ تک باقی رہتی ہیں ۔ اس دوران مریض بے چینی ، بے خوابی بھوک کی کمی، بے تابی، چڑ چڑاپن، اداسی ممکنہ تشدد اور ہیروئن کے لیے بے انتہا طلب جیسی کیفیتوں سے دو چار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کچھ جسمانی تکالیف مثلاً پسینہ ،بخار، ناک سے پانی جاری ہونا، رونگٹے کھڑے ہونا، متلی اور دل کی دھڑکن میں تیزی، خون کے دباؤ میں اضافہ، پیٹ میں شدید درد، کپکپاہٹ، کمزوری، ہڈیوں میں در د،منھ سے رال ٹپکنا وغیرہ ہوتی ہے ۔ اگر فرد کو دل کی بیماری ہو تو اس کیفیت کے دوران اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
یہ تمام کیفیتیں کم ہونے کے بعد بھی مریض کو بے خوابی دل کی دھڑکن میں کمی جسمانی درجۂ حرارت میں تبدیلیاں اور ہیروئن کی خواہش جیسی علامات باقی رہتی ہیں۔
علاج
ہیروئن کا علاج ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر کے ساتھ مریض، رشتہ دار اور دیگر اسٹاف مثلا ًنرس، ماہر نفسیات، سماجی کارکن وغیرہ کا مکمل اشتراک ضروری ہے۔ اس کے لیے مخصوس طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
میتھا ڈون(Methadone )ایک مصنوعی مرکب ہے، جو منہ کے ذریعہ دیا جاتا ہے، اور وہ ہیروئن کے متبادل کے طور پر دیا جاتا ہے ۔یہ دوا لینے کے بعد اگر مریض کو ہیروئن نہ بھی ملے تو اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ دو دن میں ایک مرتبہ20 تا 80 ملی گرام دی جاتی ہے۔ ایک عرصہ کے بعد مریض اس کا عادی ہو جاتا ہے، تا ہم اس کو کونیڈن (Clonidine) نامی مرکب روزانہ 0.2mg دن میں چار مرتبہ دےکر اس سے چھڑایا جا سکتا ہے۔
ہیروئن چھوڑنے کے بعد طاری ہونے والی کیفیت عام طور پر موت کا باعث نہیں بنتی ہے، لیکن اگر مریضہ حمل سے ہے تو اس کی وجہ سے پیٹ میں نشو و نما پانے والے بچے کی مو ت ہو سکتی ہے یا حمل ساقط ہو سکتا ہے۔ ایسی مریضہ کو کم مقدار میں میتھا ڈون دے کر علاج کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مریضہ میتھاڈون کا استعمال کر رہی ہو اور وہ حاملہ ہو جائے تو اس دوا کا استعمال آہستہ آہستہ کم کیا جاتا ہے ،اور مریضہ کے حمل کا باقاعدہ مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
کچھ مرکبات ایسے ہوتے ہیں جو دماغ کے مخصوص مقامات پر اثر انداز ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے افیم لینے پر بھی اس کے اثرات نظر نہیں آتے ہیں ان مرکبات کو Antagonists کہتے ہیں، Nalaxone&Naltrexone ایسے مرکبات ہیں جو افیم کواثرانداز نہیں ہونے دیتے ،اس لیے مریض اس لت کو ختم کر دیتا ہے۔
اکثر موقعوں پر ایسے مریضوں کو مخصوص دوا خانوں میں شریک کیا جاتا ہے، جہاں صرف ایسے مریضوں کا ہی علاج کیا جاتا ہے، اور صرف ان لوگوں کو ہی داخل کیا جاتا ہے جو دل سے اس عادت کا چھٹکارا چاہتے ہیں۔
یہاں مریضوں کو مختلف دوائیں مثلاً Trihexyphenydyl, Chloropromazin,Proxyon وغیرہ دیں جاتی ہیں۔
مریضوں کو دوا کے علاوہ ان کو نفسیاتی اور سماجی سہارا دیا جاتا ہے۔کچھ مریضوں کو Halfway Homes میں رکھا جاتا ہے، اس ادارہ میں اکثر اسٹاف سابقہ عادیوں پر مشتمل ہوتا ہے ، یہاں پر ان مریضوں کو ایک طویل عرصہ تک رکھا جاتا ہے اور ان کی پوری مدد کی جاتی ہے۔ اس علاج میں مذہبی رہنماؤں کی مدد بھی لی جاتی ہے۔
حرف آخر
افیم اور دیگر مرکبات کی لت ایک ایسی لت ہے، جو وقت اور حالات کی بناء پر لوگ اس کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن اگر مریض کے اہل خاندان اس میں دل چسپی لیں ، اس کو افیم چھوڑنے کے لیے آمادہ کریں اور اس کو مخصوص دواخانہ میں شریک کریں تو اس لت سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے۔ اس لت سے چھٹکارادلانے کے بعد مریض کی پہلی حالت کی جانچ کی جاتی ہے۔ اگر مریض کوئی نفسیاتی مرض مثلاً اداسی، بے چینی ، پاگل پن ، یا جنون کا شکار ہو تو اس کا مخصوص ادویات اور ضرورت پڑنے پر شاک ٹریٹمنٹ سے علاج کیا جاتا ہے۔ مریض کو سماج میں اپنے آپ کو صحیح ڈھنگ سے پیش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ مریض کو اپنی صحیح اور مناسب بات کو منوانے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔ مریض میں خود اعتمادی پیدا کی جاتی ہے اس کو دوسروں سے بات کرنے اور اپنے خیال کا اظہار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
٭ ٭ ٭
0 Comments