جولائی ۲۰۲۳

میں جب کہانی کا آخری باب لکھ رہی ہوں
تمام کردار مجھ سے ناراض ہوکے
صفحوں سے جا چکے ہیں
مرے تخیل کا اونچا مینار ڈھا چکے ہیں
میں آخری باب میں فسردہ سی اپنے پیاروں کو دیکھتی ہوں
اداس شب میں چمکتے تاروں کو دیکھتی ہوں

شروع قصے میں سب ہی خوش تھے
مرے قلم کو
شگفتہ پھولوں کے تتلیوں کے سلام آئے
کبوتروں کے پیام آئے
جہاں سے امید بھی نہیں تھی
وہاں سے الفت کے جام آئے

مگر کہانی کے موڑ پرہی
کسی نے رخصت کی لی اجازت
کسی کو کچھ یاد کام آئے
انہوں نے ہجرت کی بات رکھی
جو کہہ رہے تھے مدام آئے

٭ ٭ ٭

میں سب سے کہتی رہی کہانی کے ختم ہونے میں وقت ہی اب کہاں بچا ہے
شتاب کیسا
جدائی کا اضطراب کیسا
مگر میری بات کاٹ کر سب نے ساز رکھے
نہ جانے کیا کیا جواز رکھے
سواریاں لیں
سمندروں میں کمند ڈالی
ہوا میں اونچے جہاز رکھے

یہ رنگ موسم یہ پھول موتی نظر میں اب بھی جڑے ہوئے ہیں
یہ سبز باغات بہتی جھیلیں بلند پربت پڑے ہوئے ہیں
مری عقیدت میں لفظ سارے کھڑے ہوئے ہیں

کہانی جب اختتام پرہے
میں خوبصورت سا ایک انجام دل میں رکھے
بجھی ہوئی راکھ کے شراروں کو دیکھتی ہوں
اداس شب میں چمکتے تاروں کو دیکھتی ہوں
بہت فسردہ سی اپنے پیاروں کو دیکھتی ہوں

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۳