جولائی ۲۰۲۳

 اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کو اعلیٰ و ادنیٰ قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے ،جو اللہ نے ہر خاص و عام کو یکساں بخشی ہے۔ کامیاب ہو گیا وہ جس نے اس کی قدر کی ،اور ناکام و نامراد ہوا وہ جس نے اس کی نا قدری کی۔ اللہ کے محبوب بندوں کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اصول و ضوابط پر کاربندہوتے ہیں۔ اوقات کی بے ترتیبی جہاں ایک فرد کی زندگی میں بدنظمی کا سبب بنتی ہیں وہیں ایک قوم کے عروج کو زوال پذیر بھی کر سکتی ہے۔
میدانِ حشر میں اللہ کی جناب سے بندے کے قدم اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے ،جب تک کہ اس سے ان تین چیزوں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے،جن کا تعلق براہ راست انسان کے مہلت ِعمل یعنی وقت سے ہے۔ جوانی ، فراغت اور زندگی بقولِ شاعر:

تیرا ہر سانس نخل موسوی ہے
یہ جزر و مد جواہر کی لڑی ہے

انسان غیر ضروری بحث و مباحثہ میں پڑ کر نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دیگر افراد کے اعمال کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے۔
درحقیقت انسان کا اصل رأس المال وقت ہی ہے، جو سورۃ العصر میں’ عصر‘ کی قسم کھا کر بندے کو متوجہ کروایا گیا کہ وہ گھاٹے میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز روی اور برق رفتاری میں وقت سے بڑھ کر کوئی چیز پچھاڑنے والی نہیں ہے ، حتیٰ کہ گزرتے ہوئے وقت کو ایک برف کے تاجر سے تشبیہ دی گئی ہے، کہ وقت ایک ایسا سرمایہ ہے جسے تاجر جلد از جلد بیچ کر اپنے فائدے کی فکر کرے ،نا کہ اس کے برخلاف برف کی چمک اور ٹھنڈک میں کھو جائے۔
نادان ہے وہ شخص جس نے گھنٹوں سوشل میڈیا میں اپنے آپ کو محبوس رکھا۔حیاتِ فانی کی چند روزہ لذتوں میں اپنی ابدی مسرت و کامیابی سے محروم رہا۔ روز و شب فون میں لگا رہنے والا اپنے نیک ارادے و مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے سستی و کاہلی کی بنا پر ضعف ارادہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ وقت کا ضیاع گویا کہ دنیا و آخرت کی ہلاکت اور انسانی تباہی کا باعث ہے۔ وقت کے ضائع ہونے کا ایک اور سبب صحیح نظام الاوقات کو مرتب نہ کرنا ہے۔ انسان کی زندگی پر منفی اثر یہ پڑتا ہے کہ اہمیت کے حامل کام پسِ پشت چلے جاتے ہیں، اور غیر ضروری یا کم اہم کاموں میں وہ الجھ کر رہ جاتا ہے۔
وہ نامور ہستیاں سماج کی تشکیلِ نو میں اپنا کردار ادا کر گئیں جن کی زندگیوں میں پابندی ِوقت تھا۔ ان کے اوقات سے متاثر ہو کر لوگ اپنی گھڑی کی سوئیاں درست کر لیتے۔مولانا عبد الحیؒ ہمیشہ مطالعۂ کتب ، تصنیف و تالیف یا عبادت میں مشغول رہتے حتیٰ کہ محلے کی جو مطالعہ گاہ تھی اس کے تین دروازے تھے اور تینوں دروازوں پر اپنے جوتے رکھ چھوڑے تھے تا کہ ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو کسی بھی دروازے سے نکل جائیں اس طرح وقت ضائع ہونے سے بچ جائے۔ وہ پوری مستعدی سے وقت کا فائدہ اٹھاتے۔
ہم وقت کی بے ثباتی کے پیچھے اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔ اللہ کا قرب ، زہد و تقویٰ اور ضبطِ نفس جیسے مراحل و آزمائشیں ہیں ،جس کی بھٹی سے گزر کر انسان وقت کو متاعِ غرور یا بہترین سرمایہ ثابت کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وقت کا صحیح استعمال کرنے والا بنائے۔ ہمیں ایسا وقت عطا کرےکہ وہ وقت ہمیں روزِ قیامت پشیمان کرنے کے بجائے سرخرو کرے۔آمین!

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۳