جولائی ۲۰۲۳

 ’’دادو! بقر عید کیوں مناتے ہیں؟ ‘‘ زید، دادی سے پوچھ رہا تھا۔
’’بیٹا! یہ در اصل بقر عید نہیں ہے۔ عید الاضحیٰ ہے۔ بقرہ یعنی گائے۔ اور یہ صرف گائے کی عید نہیں ہے۔ یہ اضحیٰ کی عید ہے۔ اضحیٰ کے معنی ہیں قربانیاں۔ عید الاضحیٰ یعنی قربانیوں کی عید۔‘‘
’’ہاں، اس میں بکرے کی قربانی کرتے ہیں ناں، لیکن وہ کیوں دادو؟‘‘
’’تمہیں وہ واقعہ معلوم ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کریں۔‘‘
’’بیٹے کو؟‘‘ زید کو بے انتہا حیرت ہوئی۔
’’ہاں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے بے حد محبت کرتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ان کے لیے اس سے بھی بڑھ کر تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتے تھے۔ اللہ کا حکم نہ ماننے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا فیصلہ کیا ۔‘‘ دادی کہہ رہی تھیں۔
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اپنا خواب سنایا۔ بیٹا بھی ایسا اطاعت گزار کہ فوراً اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا۔ کہا: ’’اباجان! اگر اللہ کا یہ حکم ہے تو آپ ضرور یہ کر گزریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر چل دیے۔ اور ایک جگہ پہنچ کر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ اور چھری گردن پر رکھ دی۔ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کردیتے، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ایک دنبہ لا کھڑا کیا۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبے کی قربانی ہوگئی۔ دیکھا؟ اللہ کی کیسی محبت تھی۔ باپ، اللہ کی خاطر لخت جگر کو قربان کرنے چلے، تو بیٹا اللہ کے لیے اپنے آپ کو قربان کردینے کے لیے تیار۔ اللہ سے ایسی محبت، ایسا جذبہ! ‘‘کہتے ہوئے دادی جان کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔
’’اسی واقعہ کی یاد میں ہم مسلمان عید الاضحیٰ مناتے ہیں ۔صرف یہی نہیں،ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانی کی مثال ہے۔ پہلے حق کی خاطر اپنے گھر کو چھوڑ دینا، اپنے والد سے تعلق توڑ دینا، اپنا وطن چھوڑنا، پھر اللہ کی خاطر اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو بے آب صحرا میں تنہا چھوڑ دینا،پھر اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے تیار، غرض اپنی ہر محبت کو اللہ کی خاطر قربان کرنے کا جذبہ، ایسے جذبے پر ہزار جان قربان!‘‘
’’یعنی دادو! یہ عید ہر چیز کی قربانی کی ہے؟ زید نے سوال کیا۔
“ہاں بیٹے! یہ عید صرف بکرے یا کسی اور جانور کی قربانی کی نہیں ہوتی۔ یہ عید ہوتی ہے اپنے مال کی قربانی کی، اپنے نفس کی قربانی کی، اپنے خون کی قربانی کی، اپنے احساسات کی قربانی کی، اپنی عزیز ترین چیز کی قربانی کی۔ اور صرف عید کے دن ہی قربانی نہیں دینی ہے، بلکہ عید کے بعد بھی پورا سال ایثار کا پیکر بنے رہنا ہے۔‘‘ دادو سمجھا رہی تھیں۔
’’کیونکہ قربانی اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ قربان جو ہے وہ ‘قرب سے بنا ہے۔ قربانی سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔‘‘
’’ہم اس سال بھی قربانی کریں گے ناں دادو؟‘‘
’’ہاں بیٹے! اللہ نے چاہا تو ضرور کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا جذبۂ قربانی عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘
’’میرے دوست کے گھر تو قربانی ہی نہیں ہوتی. میں آج انہیں بھی بتاؤں گا کہ ہم اس سال بھی قربانی کریں گے۔‘‘زید نے اچھل کر کہا۔
’’نہیں بیٹے! بری بات۔ ایسے نہیں کہتے۔ ان کے پاس قربانی نہیں ہوتی تو ہم ان کے تعلق سے بدگمان نہ ہوں۔ یہ ان کی مجبوری بھی ہوسکتی ہے۔ اور ہمیں اپنی کسی بھی چیز کی قربانی پر اترانا نہیں چاہیے۔ نہ دکھاوا کرنا چاہیے۔ اگر قربانی خلوص نیت کے ساتھ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا کرتا ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ ہمیں انعامات سے نوازتا ہے۔ دونوں جہاں میں بلندی نصیب ہوتی ہے۔تمام بات یہ ہے کہ قربانی صرف جانور حلال کرکے گوشت کھانے کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایثار، اخلاص، تقویٰ، محبت، جاں نثاری، جہاد، صبر و برداشت اور جذبۂ عشق کا نام ہے۔‘‘

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

4 Comments

  1. JAVERIA

    Masha Allah

    Reply
    • Hina

      ماشاء اللہ

      Reply
  2. Shafaque naz

    تبصرہMashallah

    Reply
  3. Shafaque naz

    تبصرہMashallah ,kahani ke kariye qurbani ka paigam bahut achha laga.

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۳